دنیاکی ہر قوم اپنے نئے سال سے
گہری دلچسپی رکھتی ہے۔ اسکی آمدپردیدہ ودل فرش ِراہ کرتی ہے ۔ خوشی و مسرت
اور عقیدت واحترام کے ساتھ اس کا استقبال کرتی ہے۔اس دن اپنی زندگی کا
لائحہ او ر مستقبل کا منصوبہ طے کرتی ہے۔ ماضی کی کوتاہیوں سے سبق لے کر
روشن مستقبل کی تعمیر کا خاکہ بناتی ہے۔ اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے
اپنے ماننے والوں کو ہرماہ رویت ہلال کی ترغیب دی ہے ، رویت ہلال کے اہتمام
اور اس کے استقبال پر اجروثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم
کی عادت مبارکہ تھی کہ جب آپ نیا چانددیکھتے تواﷲ تعالیٰ کے حضور دعا کیلئے
ہاتھ پھیلا کرکھڑے ہوجاتے اورفرماتے (اللھم اھلہ علینابالامن والایمان
والسلامۃ والاسلام والتوفیق لما تحب و لمن ترضی ربی وربک اﷲ) الٰہی اس چاند
کوامن وایمان سلامتی اور اسلام کاچاندبنا (اے چاند) میرا اورتیرا رب اﷲ
ہے۔(ترمذی)
ماہ ِمحرم ہمارے سن ِہجری کا پہلا مبارک مہینہ ہے۔ جب ہجرت کے بعد کفارِ
مکہ کے ظلم وستم اور جبر وقہر سے مسلمانوں نے نجات پائی، اسلام نے ترقی کی،
کلمہ توحیدکا بول بالا ہوا، شرک و بدعت کے جھنڈے سرنگوں ہوئے ۔اسلام مدینہ
کی چھاؤں سے نکل چہاردانگ عالم پر اثرانداز ہوا اور اسلامی حکومت کے قیام
کے لیے زمین ہموار ہوئی۔ توصحابہ کرام نے اپنی کونسل میں باضابطہ اسلامی
کیلنڈر متعین کرنے کا فیصلہ کیا ۔ مشورہ کے بعد ماہ محرم الحرام کو اسلامی
سال کا پہلا مہینہ قرار دیا گیا۔
اگر تاریخ کی ورق گردانی کی جائے تو یہ بات معلوم ہوگی کہ اسلامی سال
کاآغازاوراختتام دونوں شہادتوں کے ساتھ ہے ۔اسلامی سال کے آخری ماہ (ذوالحجہ)میں
خلیفۃ المسلمین سیدنا عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا دلدوز واقعہ
پیش آیا اور سال کے آغاز میں یکم محرم الحرام کو امیر المونین حضرت عمر
فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا المناک حادثہ عالم اسلام کو برداشت
کرنا پڑا اور پھر 10محرم الحرام کربلا کی سرزمین حضرت حسین رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ اور ان کے ساتھیوں کے خون سے لالہ زار ہوئی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ
عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ داماد رسول اور عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
مراد رسول تھے۔ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کی آمد سے اسلام کی ترقی ہوئی ،
سلطنت اسلامیہ کا رقبہ قیصر و کسری کی سلطنت کا خاتمہ کرکے دنیا کی وسیع
ترین مملکت پر مشتمل ہوگیا او رجب ان کی شہاد ت ہوئی تو سطلنت اسلامیہ
کازوال شروع ہوگیا۔ آپ کے سینے ڈھرکتا ہوا دل تھا ، خوف خدا او رخشیت الہی
سے معمور تھا، راتوں کو سوتے نہیں تھے۔آپ کا دور خلافت عالم اسلام کی تاریخ
کا شاہکا رباب ہے۔آپ کے دور حکومت میں عدل و انصاف ہوتا تھا۔دن کو تحت پر
بیٹھتے تھے تو راتوں کو گلی گلی کا گشت فرماتے اور خبر لیتے تھے کوئی بھوکا
تو نہیں سورہا ہے۔کہیں ظلم تو نہیں ہو رہا ہے ۔آپ فرماتے تھے کہ اگر میرے
دور حکومت میں دریائے فرات کے کنارے کُتا بھی بھوکا مر گیا تو اپنے رب کے
حضور کیا جواب دوں گا۔امیر المومنین حلیفۃ المسلمین سیدنا حضرت عمر فاروق
رضی اﷲ عنہ کی عظمتوں کی لازوال داستان آج چودہ صدی بعد بھی ترو تازہ ہے
اور اپنے ہی نہیں غیر بھی اُن کے کارناموں کے معترف ہیں ۔ان کی عظمت ورفعت
اور عظیم کارناموں کی ایک طویل فہرست ہے جو آج کے حکمراں، اور مسلم قائدین
کے لئے نمونہ عمل ہیں۔
آج کا المیہ یہ ہے کہ امت مسلمہ تمام ڈیز مناتی ہے۔یہودیت او رعیسائیت کے
رسم ورواج سے جڑے تمام ایام کو جوش و خروش کے ساتھ مناتی ہے ۔ لیکن امت
مسلمہ کے ان عظیم شہسواروں کی تاریخ سے وابستہ عظیم دن کو کبھی یاد کرنے کی
زحمت نہیں کرتی ہے ، انہیں احساس تک نہیں ہوتا ہے یہ وہ دن ہے جس سے عالم
اسلام کی تاریخ کا ایک وسیع باب وابستہ ہے۔انہیں یہ بھی پتہ نہیں چل پاتا
ہے کہ آج کا دن اسلامی کیلینڈر کاپہلا دن ہے ۔آج ہی سے ہماری تاریخ شروع
ہوتی ہے ۔ افسوس کا عالم یہ ہے کہ آج کی مسلم دنیا خلفائے راشدین کے یوم
ولادت کو فراموش کرچکی ہے ۔ان کے کارناموں یکسر نابلد ہوچکی ہے۔ اسلامی رسم
ورواج کوذہن ودماغ سے محو کرچکی ہے۔یورپی کلچر کو اپنے اوپر پوری طرح مسلط
کر لیا ہے ۔ حدتو یہ ہے اسلامی تاریخ کی اہمیت مسلم دنیا سے بھی ختم ہوچکی
ہے ۔ اسلامی ممالک میں بھی قمری تاریخ کو حیثیت نہیں دی جاتی ہے ۔ اگر کہیں
اس کا چلن ہے وہ مدارس اسلامیہ ہیں جہاں اس تاریخ کی اہمیت ہے اور ہرکا م
کو اسی قمری تاریخ کے اعتبار سے کیا جاتا ہے ۔
ماہِ محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے اور حرمت والے چار مہینوں
میں سے ایک ہے۔ زمانہ جاہلیت میں بھی لوگ ان مہینوں کی حرمت کا احترام کرتے
ہوئے جدال اور قتال سے رک جاتے تھے ۔ انہیں مہینوں کے متعلق اﷲ تعالیٰ نے
قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔ (التوبہ)
اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے حافظ ابن کثیررحمتہ اﷲ علیہ ابن عباس رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ظلم کوسال کے بارہ مہینوں میں
حرام قرار دیا ہے پھر ان میں سے چار حرمت والے مہینوں کو اس لئے خاص کر دیا
گیا جس طرح ان میں نیکی اور عمل صالح کا ثواب زیادہ ہوتا ہے اسی طرح
نافرمانی کا گناہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ (تفسیر ابن کثیرج2ص468) یہ مہینہ اہل
اسلام سے اس بات کا تقاضاکرتا ہے کہ وہ اﷲ کی نافرمانی سے اجتناب کرتے ہوئے
اپنے دامنوں کوگناہوں سے پاک وصاف رکھیں کیونکہ نافرمانیوں کی وجہ سے دل
زنگ آلود ہو جاتا ہے جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ان کے دلوں پر ان کے
اعمال بدکی وجہ سے زنگ چڑھ گیا ہے۔(المطفین)یہ حرمت والامہینہ ہم سے یہ بھی
تقاضا کرتا ہے کہ ہم اﷲ کی نافرمانیوں کو چھوڑکر بھلائی اور انسانیت کی
فلاح کی طرف آئیں۔ اپنی صفوں میں اتحاد اور اتفاق پیدا کریں ۔رسول اﷲ ﷺ کے
ساتھ ہماری سچی محبت و عقیدت کا تقاضاہے کہ ہم آپ کے فرمان پرعمل کرتے ہوئے
آ پ کو اپنے لئے اپنے نمونہ حسنہ تسلیم کریں ، آپ کے علاوہ کسی اور کو اپنا
آئیڈیل نہ بنائیں۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ آج امت مسلمہ عالمی سطح پرآلام ومصائب سے دوچار
ہے، ہر محاذ پر انہیں پریشانیوں کا سامنا ہے ۔نیل کے ساحر سے لیکر تا بخاک
کاشغراسلام کے نام لیواؤں کا قتل عام ہورہا ہے ، مسلمانوں کو وہاں بھی
پریشانیوں کا سامنا ہے جہاں ان کی اپنی حکومت ہے ۔ مسلم حکمراں برسراقتدار
ہیں،اور وہاں بھی جہاں مسلمان کسی دوسری قوم کے زیر اقتدار ہیں۔کہیں
مسلمانوں کا مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہورہا ہے۔تو کہیں غیر مسلمانوں پر ظلم
وستم کا پہاڑ توڑے ہوئے ہیں۔ان پریشانیوں کے لئے کسی حدتک مسلمان خود بھی
ذمہ دار ہے ، کیوں کہ آج مسلمانوں میں وہ تمام برائیاں اور خامیاں در آئی
ہیں جس کو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمارے لئے ممنوع قرار دیا تھا۔آج شراب
نوشی کرنے والوں میں اکثریت مسلمانوں کی ہے ۔جوا کھیلنے والوں میں سب زیادہ
ملوث مسلمان ہیں۔ہرجگہ آپسی اختلاف وانتشار کے شکارمسلمان دیکھے جارہے
ہیں۔رشوت کی لین دین اور سودی کاروبار کے حوالے سے احکام شریعت کو مسلمان
بالکل فراموش کرچکے ہیں۔ مسلم سماج میں آج وہ تمام برائیاں موجود ہے جس
اجتناب کرنا کبھی مسلمانوں کی شناخت ہوتی تھی اور جن سے متاثر ہوکر دنیائے
کفر حلقہ بگوش اسلام ہورہی تھی۔نوے فی صد سے زائدمسلمانوں کی زندگی میں
نمازوں کا اہتمام نہیں ہے ۔زکوۃ کی ادائیگی مسلمانوں نے بند کررکھی
ہے۔اسباب ہونے کے باوجود فریضہ حج ادانہیں کررہے ہیں۔دیگر احکا م وفرائض کی
انجام دہی سے مسلمانوں منہ موڑ لیا ہے۔احکام شریعت کی پابندی مسلمانوں کی
زندگی سے بہت دور جاچکی ہے۔ جھوٹ، دھوکہ اور فریب جیسی برائیوں کے لئے
مسلمانوں کو سرفہرست مانا جارہا ہے۔الغرض ہربرائی ہرجرم اور ہرمعاملہ میں
مسلمانوں کا نام آرہا ہے ۔
اسلامی سال نو کا مبار ک آغاز ہوچکا ہے۔1435 ہجری سے نکل کر ہم 1436 ہجری
میں داخل ہوچکے ہیں۔آئئے ہم یہ عزم اور عہدکریں کہ آنے والے سال کو بہتر سے
بہتر سے بنائیں گے ، ماضی کی کوتاہیوں اور غلطیوں سے سبق لیکر روشن مستقبل
کی تعمیر کریں گے۔اسلام کے فروغ کے لئے ہرممکن قربانی پیش کریں گے۔اسلام کی
عظمت پر مرمٹیں گے۔اپنی زندگی میں درآئی ہر طرح کی خامیوں کا ازالہ کریں گے
۔ اپنے حسن اخلاق اور بے مثال اعمال کی نظیر پھر سے قائم کریں گے ۔آج چودہ
سوسال پہلے جو منظر تھا ، اسلام اور مسلمانوں کی جو شان وشوکت تھی آج اسی
کو پھر اپنی زندگی میں لانے کی کوشش کریں گے ۔ اسلامی تعلیمات پر عمل کریں
گے۔ قرآن وسنت کی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگی گذاریں گے۔اس ماہ میں شہادت
کا شرف حاصل کرنے والے امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالی عنہ اور
نواسہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت حسین رضی اﷲ تعلی عنہ کی زریں تعلیمات پر
عمل کریں گے۔ حضرات صحابہ اور اسلاف واکابرین کے نقش قدم کو اپنانے کے عزم
مصمم کے ساتھ آئندہ کی زندگی بسر کریں گے۔اسلامی سال نو کے ساتھ یہ ہمارا
عزم اور عہد ہونا چاہئے ۔اسی راستے پر چلنے میں ہماری کامیابی ہے ۔ نصرت
خداوندی ، عزت وقار امن وسلامتی کے حصول یہی راستہ ہے۔ |