اس تحریر میں تما م موادسید
ابوالاعلی مودودی بانی جماعت اسلامی کی کتاب ’’ خلافت و ملوکیت ‘‘ سے لیا
گیا ہے۔خلافت و ملوکیت ادارہ ترجمان القرآن (پرائیویٹ) لمیٹیدلاہور نے شائع
کی۔راقم کے پاس اس کتاب کے چوبیسویں ایڈیشن کا نسخہ ہے ۔یہ ایڈیشن جون
1988میں طبع ہوا۔چوبیسویں ایڈیشن سمیت اس وقت تک خلافت وملوکیت کے اکیاون
ہزار نسخے اشاعت پذیر ہو چکے تھے۔یہ تحریر خلافت وملوکیت کے باب پنجم
بعنوان’’خلافت و ملوکیت کا فرق‘‘ کی آٹھویں فصل بعنوان’’قانون کی بالا تری
کا خاتمہ‘‘’’یزید کے دور میں‘‘سے استفادہ کرتے ہوئے مکمل کی گئی ہے۔خلافت و
ملوکیت کے صفحہ 179سے 184پر یہ بحث کی گئی ہے۔علامہ مودودی نے ’’یزید کے
دور میں ‘‘ کے حوالہ جات ابن جریر الطبری، ابن الاثیر، البدایہ والنہایہ
اور تہذیب و التہذیب سے لئے ہیں۔
یزید کے دور کا سب سے بڑا اور معروف واقعہ کربلا ہے جس میں یزید کی افواج
نے فرزند رسول اﷲ (ص) حضرت حسینؑ اور ان کے اصحاب کو شہید کیاگیا، ان کی
لاشوں کو پامال کیا گیا، شہداء کے سروں کو نیزوں پر بلند کر کے شہر شہر
پھرایا گیا، اہل بیت رسول (ص) کو سر کی چادروں سے محروم کیا گیا اور ان کو
پابند سلاسل کیاگیا۔ یاد رہے کہ واقعہ کربلا کو مسلمانوں کا بچہ بچہ حق و
باطل کا معرکہ تصور کرتا ہے۔ حضرت حسینؑ کو حق اور یزید کو باطل تصور کرتا
ہے۔یہاں تک کہ غیر مسلم بھی امام حسینؑ کی نہضت کو حق بنجانب قرار دیتے
ہیں۔پھر بھی اگر کوئی نام نہاد مسلمان معرکہ کربلا کو حق و باطل کر مقابلہ
نہیں سمجھتا تو اس کے لئے غیرمسلم شاعر ’’کنور مہندر سنگھ بیدی‘‘ کے یہ دو
مصرع ہی کافی ہیں
یہ کربلا ہے اگر جنگ شاہزادوں کی
قلم میں دم ہے تولکھ دو حسینؑ ہارگیا
خروج امام حسینؑ کے حوالے سے خلافت وملوکیت کے صفحہ 179پرعلامہ مودودی
رقمطراز ہیں’’اگرچہ ان(امام حسینؑ)کی زندگی میں اور ان کے بعد صحابہؓ اور
تابعین میں سے کسی ایک شخص کا بھی قول ہمیں نہیں ملتا کہ ان(امام حسینؑ) کا
خروج ناجائز تھااور (نعوذباﷲ)وہ ایک فعل حرام کا ارتکاب کرنے جا رہے تھے۔‘‘
صفحہ 181پر علامہ مودودی اس نظریہ کی نفی کرتے ہیں کہ یزید بعد از قتل حسینؑ
آبدیدہ ہوا،اظہار ندامت کیااور قتل حسینؑ سے اظہار براء ت کیا۔اس سلسلے میں
علامہ مودودی اپنا نکتہ نظر بیان کرنے سے پہلے حافظ ابن کثیر کا یہ قول نقل
کرتے ہیں کہ ’’اس (یزید) نے ابن زیاد کو نہ کوئی سزا دی ،نہ اس کو معزول
کیا،نہ اسے ملامت ہی کا کوئی خط لکھا ‘‘۔علامہ مودودی اس سے آگے یزید کے
متعلق واقعہ کربلا کے حوالے سے اپنا نکتہ تحریر کرتے ہیں’’اسلام تو خیر
بدرجہا بلند چیز ہے،یزید میں اگر انسانی شرافت کی بھی کوئی رمق ہوتی تو وہ
سوچتا کہ فتح مکہ کے بعد رسول اﷲ(ص) نے اس کے پورے خاندان پر کیا احسان کیا
تھا اور اس کی حکومت نے ان کے نواسے کے ساتھ کیا سلوک کیا!‘‘
واقعہ کربلا کے بعد جنگ حرہ ہے جو 63ھ میں پیش آیا۔اہل مدینہ نے یزید کو
فاسق و فاجراور ظالم قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف بغاوت کر دی ۔یزید کے مقرر
کردہ حاکم شہر سے نکال دیااور عبداﷲ بن حنظلہ کو اپنا سربراہ بنالیا۔یزید
نے اس بغاوت کو کچلنے کے لئے مسلم بن عقبہ المری کو بارہ ہزار کا لشکر دے
کرمدینہ کی بغاوت کو کچلنے کے لئے بھیجا اور حکم دیا کہ اہل مدینہ کو تین
دن تک مہلت دی جائے کو وہ اطاعت قبول کرلیں اگر وہ اطاعت قبول نہ کریں
توجنگ کی جائے اور مدینہ کو فتح کر کے تین دن کے لئے شہرمدینہ فوج کے لئے
مباح قرار دیا جائے۔اہل مدینہ نے اطاعت قبول نہ کی اور جنگ کی جس میں اہل
مدینہ شکست کھا گئے اور فوج یزید فاتح کی طرح مدینہ میں داخل ہوئی۔ حکم
یزید کے تحت فوج کو تین دن کے لئے مدینہ میں ہر قسم کے ظلم کی آزادی دے دی
گئی۔ان تین دنوں کی ظلم و بربریت کی داستان کے متعلق علامہ مودودی خلافت
وملوکیت کے صفحہ 182پر لکھتے ہیں کہ’’بروایت امام زہری سات سو معززین اور
دس ہزار عام عوام کو قتل کیاگیا‘‘اور بروایت حافظ ابن کثیر ایک ہزار عورتیں
زنا سے حاملہ ہوئیں۔‘‘
علامہ مودودی اہل مدینتہ الرسول(ص) پر اس ظلم وبربریت کی وجہ سے یزید کو
قابل لعنت سمجھتے ہیں۔ خلافت وملوکیت کے صفحہ 183کے حاشیہ میں رقمطراز ہیں
’’ میرااپنا میلان اس طرف ہے کہ صفات ملعونہ کے حاملین پر جامع طریقہ سے تو
لعنت کی جا سکتی ہے(مثلا یہ کہا جا سکتا ہے ظالموں پر اﷲ کی لعنت)۔‘‘ اسی
حاشیہ میں علامہ مودودی نے امام احمد بن حنبل ،ابن جوزی،قاضی ابو
العلییٰ،علامہ تفتارانی اور علامہ جلال الدین سیوطی کو ان نمایاں افراد میں
شامل کیا جو یزید پر لعنت کے قائل تھے۔ اسی حاشیہ میں علامہ مودودی نے حضرت
عمر بن عبدالعزیز کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان کی محفل میں کسی نے یزید کو ’’امیرالمومنین‘‘
کہہ کر پکاراتو حضرت عمربن عبدالعزیز اس شخص سے نہ صرف ناراض ہوئے بلکہ اس
شخص کو بیس کوڑے بھی لگوائے ۔
مدینہ پر حملہ اور اس وحشت و درندگی کے حوالے سے علامہ مودودی خلافت
وملوکیت کے صفحہ 182پر لکھتے ہیں کہ ’’ بالفرض اہل مدینہ کی بغاوت ناجائز
تھی،مگر کیا کسی باغی مسلمان آبادی ،بلکہ غیر مسلم باغیوں اور حربی کافروں
کے ساتھ بھی اسلامی قانون کی رو سے یہ سلوک جائز تھا؟اور یہا ں تو معاملہ
کسی اور شہر کا نہیں ،خاص مدینتہ الرسول(ص)کا تھاجس کے متعلق رسول اﷲ (ص)
کے یہ ارشادات صحیح بخاری،مسلم،نسائی اور مسند احمد میں متعدد صحابہ سے
منقول ہوئے ہیں کہ (ترجمہ) مدینہ کے ساتھ جو بھی شخص برائی کا ارادہ کرے گا
اﷲ اس کو جہنم کی آگ میں سیسہ کی طرح پگھلائے گا۔ دوسری حدیث کا ترجمہ ’’جو
شخص اہل مدینہ کو ظلم سے خوف زدہ کرے گااﷲ اس کو خوف زدہ کرے گااس پر اﷲ
اور ملائکہ اور تمام انسانوں کی لعنت ہے قیامت کے روز اﷲ اس سے کوئی چیزاس
گناہ کے فدیے میں قبول نہ فرمائے گا۔‘‘
تیسرا واقعہ مکہ معظمہ کا ہے جہاں یہ ہی لشکر ابن زبیرؓ کی سرکوبی کے لئے
گیا۔کیونکہ انہوں نے یزید کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔ابن زبیر ؓ بیت اﷲ میں
محصور ہو گئے تو فوج یزید نے منجنیقیں لگا کر بیت اﷲ پر سنگ باری کی اور آگ
بھی برسائی اس سنگ باری سے بقول علامہ مودودی کعبتہ اﷲ کی ایک دیوار شکستہ
ہو گئی تھی۔(184صفحہ)
یزید کے اس ظلم وبربریت اور خلاف اسلام کارہائے بد کی فصل کا اختتام علامہ
مودودی ان الفاظ میں کرتے ہیں۔ خلافت وملوکیت صفحہ184 ’’ان واقعات نے یہ
بات بالکل واضع کر دی کہ یہ حکمران اپنے اقتدار اور اس کے بقاء و تحفظ کو
ہر چیز پر مقدم رکھتے تھے اور اس کے لیئے انہیں کسی حد کو پھاند جا نے اور
بڑی سے بڑی حرمت کو توڑ ڈالنے میں بھی کوئی باک نہ تھا۔‘‘ |