شہادت حسینؓ:آزادی حیات کاسرمدی اصول

اے کربلاکی خاک اس احسان کونہ بھول تڑپی ہے تجھ پہ لاش جگرگوشہ بتول
حسین کے خون سے تورنگین ہوگئی سیراب کرگیاتجھے خون رگ رسول
کرتی رہے گی پیش شہادت حسین کی آزادی حیات کایہ سرمدی اصول
چڑھ جائے کٹ کے سرتیرانیزے کی نوک پر پھربھی توفاسقوں کی اطاعت نہ کرقبول
کر ب وبلا کے ساتھ میدان کربلامیں حضرت حسینؓ کی شہادت تاریخ انسانی کابڑاالمناک ،دردناک اورغمناک واقعہ ہے۔کربلاکے تپتے ریگستان میں محمد ﷺکے گھرانے کے ساتھ ظلم وستم کاواقعہ چودہ سوسال بعد بھی تازہ معلوم ہوتاہے۔غلط نہ ہوگا اگریہ دعویٰ کیاجائے کہ جتنے آنسو اس واقعہ کی یاد میں بہے ہیں ،اتنے کسی واقعہ پرنہیں بہے۔مکہ ومدینہ اورناناکے روضہ کوچھوڑ کرتپتی صحرامیں پیاس سے تڑپتے ہوئے راہ خدمیں اپنی جان کانذرانہ پیش کرنا،امت محمدیہ پرامام حسینؓؓ کابڑااحسان ہے ۔ فداکردے جوبہردین وملت سربھی ،سینہ بھی مبارک اس کامرنابھی،مبارک اس کاجینابھی۔

حضرت حسینؓ کیلئے اس سے بڑھ کرمظلومی کی مثال اورکیاہوسکتی ہے کہ دشمنوں اوراوردوستوں،دونوں نے ان پرظلم کیا۔دشمن تو دشمن ہی ٹہرے ،لیکن محبت کادعویٰ کرنے والے اس کی اصل تقدیس وشرف کیلئے سچائی اورعمل کاایک آنسوبھی نہ بہاسکے حالانکہ ادعائے محبت، بغیرمطابقت بے کارہے ۔یہ دعوت ،یہ پکار،یہ ھل من مجیب فی الحقیقت ان آنسوؤں کیلئے نہیں جوصرف آنکھوں سے بہیں ،بلکہ یہ ان آہوں کادھواں مانگتی ہے جن کی لٹیں، صرف منہ سے نہیں بلکہ قلب کی گہرائی سے نکلیں۔

یہ بھی ایک اہم اورقابل توجہ پہلوہے کہ اسلامی سال کی ابتدابھی اس مہینہ سے ہوتی ہے جس کی دس تاریخ ،ایک عظیم قربانی سے وابستہ ہے اوراس کی انتہابھی اس ماہ پرہوتی ہے جس کی بھی دس تاریخ،ایک اہم قربانی سے وابستہ ہے ،جہاں ایک طرف نبی اکرمﷺکے جدامجدہیں تودوسری طرف آپ ﷺکے نواسہ ہیں۔توگویاکہ اسلامی تاریخ کی ابتداء اورانتہاء قربانی پرہی ہوتی ہے ۔اس مفہوم کوعلامہ اقبال نے کیاخوب بیان کیا ۔ غریب وسادہ رنگیں ہے داستان حرم نہایت اس کی حسین ،ابتداہے اسمٰعیل۔

ایک قابل ذکربات یہ بھی ہے کہ امام حسین کے اس واقعہ سے ملنے والے سبق’’البغض للہ ،اللہ کے نفرت کرنا‘‘(جسے کمال ایمان کاایک اہم حصہ بتایاگیاہے )کوتوبیان کیاجاتاہے،لیکن اس موقعہ پرحضرت امام حسنؓکا امیرمعاویہؓ سے ’’الحب للہ۔اللہ کیلئے محبت کرنا‘‘کے تحت صلح کرنا،ہم یادنہیں رکھتے ۔اتحادبین الناس کی خاطرانہوں نے اپنی خلافت کوجس طرح قربان کیااس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔آج مسلمان ،جس طرح ’’عہدو ں اورکرسیو ں کی خاطر‘‘اختلاف کے شکارہیں، اگرحضرت امام حسنؓ کے اس عمل کوذہن میں رکھیں اورامت محمدیہ کواختلاف سے بچانے کے لئے اپنی کرسیوں اورعہدو ں کوقربان کریں تویہ ایک قابل تحسین قدم ہوگا؟۔جس کی آج امت کوسخت ضرورت ہے۔

یہ بھی افسوسناک پہلو ہے کہ امام حسین کے سوانح کوبیان کرنے والوں کی زبانیں واقعات کربلاپرآکررک جاتی ہیں ،اگران کے دوسرے اوصاف کاذکرنہ کیاجائے توحضرت امام حسین کی سوانح ادھوری رہ جائے گی ۔چنانچہ علامہ ابن اثیررحمۃاللہ علیہ لکھتے ہیں’’کان الحسین کثیرالصلوۃ والزکوٰۃوالصوم والحج والصدقۃوافعال الخیرجمیعاامام حسین بہت زیادہ نماز،روزہ ،زکوٰۃ ،حج،صدقہ اوردوسرے نیک کاموں کے پابند تھے ‘‘۔عفوودرگذرسے کام لیناجوایک مومن کااہم اخلاقی وصف ہے آپ میں بدرجہ اتم موجود تھاچنانچہ ایک غلام کے ہاتھ سے پیالہ چھوٹ کرگرنے کے بعد عفوودرگذرسے متعلق آیت کریمہ کی تلاوت کی وجہ سے اس کو آزادکردینے ا ورزندگی بھراس کی کفالت اپنے ذمہ لے لینے کامشہورواقعہ آپ کی اس صفت کوبیان کرتاہے۔فیاضی آپ کی خاص صفت تھی ،اسامہ ابن زیدؓ کے انتقال کے وقت ساٹھ ہزاردرہم کاقرض اداکرنااس کی کھلی دلیل ہے ۔فصاحت وبلاغت کے امام تھے ،بہترین اخلاق والے تھے ،ملنسار اورپروقارتھے ۔عاجزی کوٹ کوٹ کربھری ہوئی تھی ،تکبر اوربڑائی سے کوسوں دورتھے ،ہرایک سے برابرملتےْ ۔ایک مرتبہ سواری پرتشریف لے جارہے تھے ،چندغریب لوگ کھاناکھارہے تھے انہوں نے کہا،تشریف لائیے ،گھوڑے سے اترکرزمین پربیٹھ گئے اورکھاناان کے ساتھ تناول فرمایانیزفرمایا’’اللہ تکبرکوپسند نہیں کرتا‘‘۔فضل وکمال میں حضرت علیؓکے وارث تھے اورعلم الٰہی کے بڑے فاضل تھے ۔آپ اپنے ذاتی فضائل وکمالات کے اعتبارسے بھی مسلمانوں کے نزدیک مسلمہ عظمت والے اورقابل احترام ہیں،شریعت وطریقت دونوں کے بڑے عالم اورفضل وکمال میں بھی حضرت علیؓ کے وارث ہیں۔آپ میں صوری کمالات کے علاوہ ،شریعت کے تمام معنوی اسرارعرفاں نمایاں تھے اورکیوں نہ ہوتے کہ رسول اکرم ﷺ کی تفویض سعادت، جناب علی مرتضیؓ کی تعلیم وتربیت ،بنت رسول حضرت فاطمہؓ کی آغوش بابرکت اورامام حسنؓ کےؓ ؓظل بزرگی وعظمت میں آپ نے پرورش پائی تھی ۔حضرت امام حسینؓ شہید ہوکربھی زندہ ہیں،قرآن مجید کی آیت گواہی دے رہی ہے۔مفہوم ’’جواللہ کے راستے میں شہید کئے گئے ان کومردہ مت کہو‘‘۔اس کے علاوہ حضرت امام حسین کو حقیقتافتح بھی ملی اس لئے کہ ان کے مخالفین والانام آج بھی کوئی نہیں رکھناچاہتا،لیکن ’’حسین ‘‘ہرایک کے نزدیک حسین نام۔لہذاحضرت امام حسین سے محبت کاتقاضہ یہ ہے کہ ان کے اوصاف جوبیان کئے گئے انہیں اپنی زندگی میں داخل کیاجائے ،جن بدعات ورسومات کے خلاف انہوں نے اتنی بڑی قربانی دی ان بدعات کو برتنے کے بجائے ان کی سیرت پرعمل کیاجائے ،غیرمسلموں میں رائج رسومات کو’’خاص کراس موقع پر‘‘اپنانے کے بجائے ان سے اجتناب کیاجائے۔کتنا قابل افسوس پہلو یہ ہے کہ حضورﷺنے تویہودیوں کی مشابہت سے بچنے کے لئے ایک روزہ کے بجائے عاشورہ کے دوروزے رکھنے کاحکم دیا،لیکن کیایہ اس امت کی بد نصیبی یہ نہیں ہے کہ اس موقع پراورعاشورہ کے دن غیرمسلموں کی تہذیب کی تصویرنظرآتی ہے۔اسلام کے کسی بھی موقعہ پررنگ ریلیاں منانے ،آپے سے باہرہونے اورحدود سے تجاوز کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔فرمان رسول یادرہے ۔مفہوم ’’جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیارکی وہ اس میں سے ہوگیا‘‘۔ایک مسلمان ،حضورکے اس فرمان سننے کے بعد کیاوہ انداز اختیارکرسکتا ہے جوغیروں کے یہاں مروج ہیں۔حضرت امام حسین سے محبت کاتقاضہ تو یہ تھاکہاان کی سیرت کواپنی زندگی میں داخل کرنے کی کوشش کی جائے،غلط رسوم ورواج کومٹانے کیلئے ان کی پیروی کی جائے، اس دن قرآن مجید کی تلاوت کااہتمام کیاجائے ،روزے رکھے جائیں،غریبوں پرصدقہ وخیرات ہو ۔ان کے واقعات سے ملنے والے درس کواپنی زندگی میں نافذ کرنے کاعہد کاجائے۔یہی امام حسینؓ سے سچی محبت اوران سے والہانہ عقیدت کاتقاضہ ہے ۔ورنہ ان کے کارناموں سے سبق نہ لینااوران کی سیرت سے پہلوتہی اختیارکرنا،امام حسینؓ کے احسان کی ناقدری اوراحسان فراموشی ہے۔ سبق پھرپڑھ صداقت کاعدالت کا،شجاعت کا لیاجائے گاتجھ سے کام دنیاکی امامت کا۔

Md Sharib Zia Rahmani
About the Author: Md Sharib Zia Rahmani Read More Articles by Md Sharib Zia Rahmani: 43 Articles with 37056 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.