پھل اور سبزیوں کی افادیت تو آئے
دن رسالوں ، اخباروں ، میگزین، میں چھپتی رہتی ہیں شہد ، میوجات ، دال،
مصالحے ، جڑی بوٹیا ں ،بیماریوں سے بچاؤ کے تو اتنے مضامین کہ آپ اپنا مطب
کھول سکتے ہیں اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ اگر روز مرہ کی زندگی میں ان
چیزیں کا متواتر استعمال کیا جائے تو شاید ڈاکٹر حضرات کو بے روزگا ر ہونے
سے کوئی نہیں روک سکتا یہ میں میرا اپنا خیال نہیں آپ نے سنا ہوگا کہ(an
apple a day, keep the doctor away ) ۔لیکن عصر حاضر میں یہ مثال کا موازنہ
کیا جائے تو الٹی دکھائی پڑتی ہے کیونکہ حضرت انسان نے اپنے مفاد عامہ کی
خاطر ہر چیز اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیا ہے ۔ اﷲ تعالی نے ہمیں علم کے
خزانے عطا کئے اور اسی علم نے انسان کو شعور دیا اور وہ چیزیں سکھائی جو
دوسروں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوئی خاص کر کے سائنس نے میڈیکل میں کئی
کارنامے انجام دیے ٹیکنالوجی نے طوفان برپا کردیا ۔مگر ہم انسانوں نے ہی اس
چیز کو انسانوں کے لیے مہلک بنادیا ۔ ہمارے اس قیاس کا مطلب ہرگز یہ نہیں
کے ہم جدیدیت کے مخالف ہیں مگر ہم بھی انسان ہیں اور درد دل کے مریض بھی دل
کڑھتا ہے جب نام نہاد ترقی کے نام پر انسانیت کی تذلیل ہوتے دیکھتے ہیں کہ
آج کے دور کا انسان آپسی پیار محبت اور او ر مقصد حیات سے دور کردیا ہے۔
صحت مند انسانی زندگی کا انحصار ہو تا ہے اچھی غذا اور قدرتی آب و ہوا پر
مگر جناب آ ج کے دور میں شہر تو کجا گاؤں دیہاتوں میں بھی ان چیزیں کو
فقدان ہے ۔ غذ ا کی ہی بات کرلیتے ہیں قدرتی غذائی اجناس میں تجربے کر کر
کے حاصل شدہ پھلوں ، سبزیوں اناج و دیگر غذائی اجناس میں وہ قدرتی افادیت
نہیں ہوتی جو انسانی صحت کے لیے کارگر رہے یہ سب تو کاروبار زندگی چلانے کے
لیے رہ گئے ہے۔ وطن عزیز میں میوجات ، پھل ، سبزی، غرض یہ کہ کسی بھی طرح
کی غذائی اجناس کا کوئی فقدان نہیں ہا ں اگر ہیں تو وہ یہ کہ یہ سب چیزیں
اپنے ہی ہم وطنوں کے لیے میسر نہیں ہوتی سب ایکسپورٹ کے نام پر دوسرے ممالک
میں چلی جاتیں ہے ہمیں اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں یہ ہمارے ملک کی ترقی کے
لیے اچھی بات ہے مگر ہم اپنے عام لوگوں تک یہ سب چیزیں کیوں نہیں پہچنے
دیتے ۔ یہاں لوگوں کو بیوقوف بنا کر خراب کوالٹی کا مال اور وہ بھی مہنگے
ترین داموں میں بیچا جاتا ہے۔ بات یہاں تک آگئی کے اصلی چیز، دال ہو یہ
سبزی گوشت ہو یہ ایک کو میسسر نہیں ۔ کہیں سیوریج کے آلودہ پانی سے سبزیاں
کاشت ہورہی ہیں کہیں بیمار اور مردار جانوروں کا گوشت بک رہا ہیں ، کہیں
لکڑی کے بُرادے سے ملا کر مصالحے تیار ہورہے ہیں کوئی دودھ میں پانی ملا کر
لوگوں کو بیچ رہا ہے کوئی چربی سے گھی تیل نکال رہا ہے ۔
ستم بالا ستم یہ کہ مہنگائی کا یہ حال ہے کہ جو خریدنے جاؤ اس کا آدھا ہی
مل پا تا ہے پھل کو لیجئے اس کی تاثیر ہے کہ خون بڑھا تا ہے لیکن آج کے وقت
میں آپ خریدنے گئے دام پوچھے کیسا دیا ہے بھائی سیب ۔بھائی اکڑ کر بولے گا
150 روپے ،کچھ کم کرو ، نہیں بھائی کم کیسے کریں ہم کو آگے سے ہی اتنا ملتا
ہے آگے آڑھتی بیس جگہ پیسے دے کر آتے ہیں ان کو اپنا پورا کرنا ہوتا ہے اور
تم کو وار ا نہیں آتا تو یہ لو یہ 80 روپے کلو ہے اور جو 80 روپے والا سیب
ہوگا اسے آپ اگر بکر ے کے آگے ڈال دیں تو وہ سونگھ پھر دوبارہ منھ نہیں
مارے گا مگر وائے رے مہنگائی آپ پر منحصر ہے کہ خر ید لیں یہ پھر اپنا خون
جلا کر آگے بڑھ جائیں، اب سبزی کی باری لوکی کو لیجئے بہترین غذا ہے کئی
بیماریوں کے علاج ہے اس کو خریدیں تو ۔ ہا ں جناب لوکی کیسے دے رہے ہو۔ 70
روپے کلو خیر تو ہے بھائی ابھی تو 40 روپے تھی پچھلے ہفتے تو اب کیا ہوا ۔
جواب ملے گا آگے سے ہی اتنا آرہاہے کیا کریں ، یہ سن کر کچھ لوگوں کو بلند
فشار خون ( High Blood Pressure) کا مرض عود کر آجائے گا ۔گوشت کا پوچھوں ،
مرغی کیا چل رہی ہے 230 ارے اب کیا ہوا ابھی تو۔۔۔ بس اتنا بولنا ہوگا کہ
جواب آئے گا آگے سے ہی مہنگی ہے کیا کریں ۔آٹا اور چینی تو جیسے اسٹاک
ایکسچینج کے آئٹم ٹہرے آج کچھ تو کل کچھ اور ہا ں مصالحے تو بس خدا کی پناہ
دس روپے کا گرم مصالحہ ہاتھ میں لے کر آپ کا اپنے دماغ گرم ہوجائے گا لال
مرچ پوڈر بس نا م کا ہی ہوتا ہے ا سے تو آپ اپنے گرمی دانوں پرچھڑکیے ۔
اور غور طلب بات یہ کی آج کا ترقی یافتہ انسان جو ٹیکنالوجی کی دولت سے
مالا مال ہے د ر حقیقت قدرقی نعمتوں سے محروم ہوتا چلاجارہا ہے ۔ ان چیزیں
کو استعمال کرنے کی وجہ سے ۔ آج کے انسان صحت جیسی نعمت سے تقریبا کلی طو ر
پر محروم ہیں اور لوگوں کی اوسط عمر زیادہ سے زیادہ 60 سال رہ گئی ہے ادھر
آپ نے 30 کا ہندسہ عبور کیا ادھر آپ کو بیماریوں نے پکٹرلینا ہے جن میں آپ
کا کوئی قصور نہیں آپ زرا آج کے ترقی یافتہ دور مصروف انسانوں کی مشینی
زندگی پر روشنی ڈالیں تو واضع طور پرسمجھ آجائے گا کہ ہماری بات میں کتنی
صداقت ہے ورنہ ہمارے بزرگوں کی حیات پر نظر ثانی فرمائیں خیر سے70 ٹاپنا تو
عام سی بات ہے پھر کہیں بڑھاپے کا دور شروع ہو تا ہے اور آگے کا کچھ نہیں
پتہ انکا طرز زندگی سادگی پر منحصر تھا سرسوں کا تیل خالص گھی ، مکھن ،
لسی، شہد جانے کیا کیا استعمال کیا مگر مجا ل ہے کہ کوئی چیز نقصان کرجائے
اور کرتی بھی کیسے وہ سب خالص ہی تو ہوتیں تھیں۔ یہا ں تو یہ حال ہے کہ ڈبے
پر لکھا ہوتا ہے کے فلاں چیز صحت اور نشو رنما کے لیے مفید ہے ے جبکہ نتیجہ
الٹا ہی ہوتا ہے یہ سب چیزیں جو آ پ کو حفظان صحت کے پا ٹ پڑھاتی ہیں وہ ہی
آپ کی سب سے بڑھی دشمن ہیں بیچنے والا کسی بھی طرح تشہیر کر کے اپنی چیز کو
بیچ دیتا ہے اورلوگ اس کو من و عن ان کو سچ مان لیتے ہیں۔جب کہ سچ یہ ہے کہ
قدرتی ماحول اور ذائقے کی حامل اغذائی اجناس کبھی بھی نقصان نہیں پہنچا
سکتیں اس لیے کہ نقصان اصلی گھی اصلی تیل اصلی مکھن سے نہیں بلکہ اس کے
کثرت استعمال سے ہو تا ہے اگر اعتدال سے یہ چیزیں لی جائیں تو ان کے روز
مرہ کے استعمال سے کوئی حرج نہیں ہوتا ۔
آپ ہر گز یہ نہ سمجھ لیجئے گا کہ میر ا اصلی گھی یہ مکھن کاکو ئی کاروبار
ہے نہ ہی میں اس کی اشتہاری مہم میں حصے دارہوں در حقیقت میں تو مہنگائی کو
اپنا موضوع بنانے کی کوشش کررہاتھا کے یہاں ہر آدمی اپنی پریشانی کودوسرے
کے سر منڈھ دیتا ہے اور مہنگائی کا عفریت پھلتا پھولتا رہتا ہے جناب ہم
اپنا تجزیہ کریں تو کہیں نہ کہیں ہم بھی اس مہنگائی کو بڑھانے میں مدد گار
ثابت ہونگے وہ اس لیے کہ ہما را مذہب ہمیں سادی زندگی گزارنے کی ترغیب دیتا
ہے جس کو اپنا کر لوگ کیا پورا معاشرہ ہی ایک خوشگوار عملی زندگی گزار سکتا
ہے مگر ہم لو گ اس پر عمل کرنا تو کجا اس بات کو ماننے کو تیار ہی نہیں
ہوتے کے اگر اسلامی روایات کو مثل اصل جان کر پروان چڑھایا جایا تو ہمیں
دنیاوی مسائل سے نجات مل جائے گی۔ |