چھاتی کے کینسر سے بچاؤ کیلئے آگہی کی ضرورت

پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں صحت کی سہولیات کا شدید فقدان ہے۔لوگوں کو عام بیماریوں کے علاج معالجے کے سلسلے میں ہی بہت سی مشکلات حائل ہیں اور جب بات ہو صنف نازک کی تو صورتحال اور بھی گھمبیر اور مایوس کن نظر آتی ہے۔ انہیں عام بیماریوں کے بارے میں واقفیت ہے نہ ان میں علاج معالجہ کا رجحان پایا جاتا ہے۔ اسی طرح معاشرتی رویے بھی ان کی صحت کی راہ میں بہت حد تک حائل ہوجاتے ہیں۔اس پس منظر میں جب بڑی بیماریوں کی بات کریں تو عورتیں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے تمام ترقی پذیر ممالک میں واقعی خطرناک صورتحال سے گزر رہی ہیں۔

پاکستان میں جن بیماریوں کے باعث خواتین کی اموات واقع ہو رہی ہیں ان میں چھاتی،سروائیکل او ررحم کا کینسرنمایاں ہیں ۔پاکستان میں چھاتی کا سرطان ہر سال چالیس ہزار اموات کا باعث بنتا ہے ۔ پاکستان میں ہر چار میں سے ایک خاتون یعنی 25فیصد خواتین چھاتی کے سرطان میں مبتلا ہیں جوکہ بہت زیادہ شرح ہے۔ جس پر قابو پانے کیلئے بڑے پیمانے پر آگاہی کی ضرورت ہے۔اسی سلسلے میں اسلام آباد میں اقوام متحدہ اور پاکستان بریسٹ کینسر ٹرسٹ کے مابین چھاتی کے کینسر سے متعلق شعور اورآگاہی کے معاہدے پر دستخط بھی کئے گئے۔ وزیر مملکت سائرہ افضل تارڑ نے اس موقع پر اپنے خطاب میں بتایا کہ پاکستان میں چھاتی کے کینسر کی شرح انتہائی تشویشناک ہے جس پر قابو پانے کیلئے فوری اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر چھاتی کے سرطان کی مانیٹرنگ کا کوئی نظام موجود نہیں تاہم حکومت اس سلسلے میں اہم اقدامات کررہی ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ ان کی ہدایت پر پاکستان میڈیکل ریسرچ کونسل نے سرطان اور خاص طورپر خواتین میں چھاتی کے سرطان کے حوالہ سے اعداد وشمار کے حصول کاکام شروع کردیا ہے۔ انہوں نے سرکاری اور غیر سرکاری تمام تنظیموں پر زوردیا کہ وہ خواتین میں چھاتی کے سرطان کے علاج ، تشخیص اور علامات بارے آگاہی مہم میں آگے آئیں اور حکومتی کوششوں میں ہاتھ بٹائیں۔ اس موقع پر سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی و ٹرانس پلانٹیشن کے سربراہ ڈاکٹر ادیب رضوی کا کہنا تھا کہ چھاتی کے کینسر کا علاج اتنا مہنگا ہے کہ عام آدمی کی تو اس تک پہنچ ہی نہیں لہٰذا حکومت کو خود اس ضمن میں آگے آنا ہوگا اور کوئی طریقہ کار بنانا ہوگا۔اس موقع اس عزم کے ساتھ شمعیں روشن کی گئیں کہ چھاتی کے سرطان کو شکست دینے میں خاندان کے سربراہ اپنی خواتین کا ساتھ دیں گے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ شعور وآگاہی سے بہت سی بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے۔ خواتین بریسٹ کینسر سے لا علم ہونے اور مرض کو ظاہر نہ کرنے کی وجہ سے موت کا شکار ہو رہی ہیں اورآگاہی و تشخیص سے بڑی تعداد میں خواتین کی جان بچائی جاسکتی ہے۔ ہر آٹھ میں سے ایک خاتون کو چھاتی کے سرطان کا خطرہ لاحق ہے۔ اگر اس کی بروقت تشخیص کی جائے تو 90 فیصد خواتین صحت یاب ہو سکتی ہیں ۔ عام طور پر خواتین شرم کے باعث چھاتی کے کینسر سے معا لجین کو لا علم رکھتی ہیں جس سے ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ چھاتی کے کینسر کا بروقت علاج کرنے کے لئے ضروری ہے کہ عوام سطح پر آگاہی اور علا ج کی سہولیات شہروں اور دیہات تک پھیلائی جائیں ۔ اس سلسلے میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں بریسٹ کلینک قائم کرنے کی ضرورت ہے جہاں تربیت یافتہ عملہ موجود ہو۔ اس سلسلے میں میڈیکل سٹوڈنٹس کو بھی تربیت دی جانی چاہئے اور چھاتی کے کینسر کی تشخیص اور علاج کے ساتھ ساتھ شعوری آگاہی کے پروگرام بھی شروع کئے جائیں ۔اس سلسلے میں غیر سرکاری تنظیموں ، سول سوسائٹی کی تنظیموں ، محکمہ تعلیم اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کو استعمال کیاجانا چاہئے۔ خاتون ہیلتھ ورکرز کو الٹراساؤنڈ تربیت دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ چھاتی کے سرطان کے حوالے سے الٹراساؤنڈ ٹیسٹ کرسکیں۔

ترقی پذیر ملکوں میں چھاتی کا کینسر تیزی سے بڑھ رہاہے اور یہاں ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں شرح اموات بہت زیادہ ہے کیونکہ ایک تو ترقی پزیر ملکوں میں مرض کی تشخیص آخری مرحلے میں ہو تی ہے ۔ دوسرے معیاری علاج معالجہ تک ہر کسی کی رسائی نہیں ہے۔بہت سی مطالعاتی رپورٹوں کے مطابق پاکستان میں یہ بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ ڈاکٹرکے پاس اس وقت جانا چاہیے جب کوئی تکلیف ہو۔ اس لیے لوگ وقتاًفوقتاً باقاعدہ طبی معائنہ کرانا ضروری نہیں سمجھتے ۔ بہت سے کینسر معمول کے طبی معائنہ میں سامنے آتے ہیں۔ کیونکہ عام لوگ جب کینسر ابتدائی مرحلے میں ہوتا ہے اس کو سنجیدگی سے نہیں لیتے جسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کینسر کی اس وقت تشخیص ہوتی ہے جب وہ آخری سٹیج پر اور ناقابل علاج ہو تا ہے ۔ ماہرین کے مطابق لوگوں کو کینسر کی روک تھام، خطرات کا باعث بننے والے عوامل اور معمول کے طبی معائنے کی اہمیت کے بارے میں آگاہ کر نا چاہیے تاکہ کینسر سمیت کسی بھی مرض کاابتدائی مراحل میں پتہ چل جائے اور اس کا علاج ممکن ہو سکے ۔ باالخصوص دیہی علاقو ں میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے کینسر آگاہی پروگرام چلانے کی ضرورت ہے۔کینسر ہسپتال اور کینسر ریسرچ سنٹر اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ خاص طور پر خواتین چھاتی میں گلٹی کی صورت میں فوری طور پر اپنا طبی معائنہ کرانا چاہئے تاکہ فوری علاج سے وہ اس مرض سے چھٹکارا حاصل کرسکے۔پنک ربن ہر سال اکتوبر میں ملک گیر مہم کا آغاز کرتی ہے جس میں ملک بھر میں خواتین کو چھاتی کے کینسر سے بچاؤ کے بارے میں مفید معلومات دی جاتی ہیں۔ پاکستان میں چھاتی کا سرطان ہزاروں اموات کا باعث بنتا ہے ،اسی لئے ہمیں اس بیماری کی روک تھام کیلئے خصوصی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت نے صحت کے شعبہ میں بہت سے ایسے منصوبے شروع کیے ہیں جو خواتین کو تعلیم یافتہ بنانے اور صنف نازک کے معاملات میں شعور بیدار کرنے کے لیے کام کررہے ہیں ۔ خواتین کو سماجی طور پر بااختیار بنایاجارہاہے۔ تاکہ وہ اپنی مدد آپ کر سکیں۔میراذاتی خیال ہے کہ خواتین کو بااختیار بنائے بغیر ان کی صحت کی صورت حال کو بہتر نہیں بنایا جاسکتا۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Amna Malik
About the Author: Amna Malik Read More Articles by Amna Malik: 80 Articles with 68559 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.