مصنفہ: مہوش حبیب
عالیہ کے مرتے ہی گھر میں کہرام مچ گیا۔وہ خون میں لت پت چارپائی پر پڑی
تھی۔زمین بھی خون سے رنگین ہوگئی تھی۔ عورتیں جوان لڑکی کی لاش کو دیکھ کر
دھاڑیں مار مار کررو رہی تھیں اور بچے اور مرد افسردہ کھڑے تھے۔ یہ میت اس
بیچار ی اور بے بس لڑ کی کی تھی جس کے گھر والوں نے بچپن ہی میں اس کے
ماموں کے بیٹے حماد کے ساتھ اس کا رشتہ جوڑ دیا تھا۔
’’بے چاری کو محبت کی سزا ملی ہے ،بھائیوں نے ظلم کیا ہے۔ آخر اس نے محبت
کر کے کونسا گناہ کر لیا تھا!‘‘
بچپن ہی میں عالیہ کی منگنی اس کے ماموں کے بیٹے حماد سے کر دی گئی تھی۔جب
عالیہ کو اس بات کا علم ہوا تو وہ حماد سے محبت کرنے لگی اور حماد بھی
عالیہ کو بے پناہ چاہتا تھا۔وہ دونوں ایک ہی شہر میں رہتے تھے اور ان کے
گھروں میں تھوڑا ہی فاصلہ تھا۔وہ کسی نہ کسی کام کے بہانے دن میں ایک دو
بار ضرور مل لیتے تھے۔انکے پیار کے دن ہنسی خوشی گزر رہے تھے کہ ایک دن
حماد کے ابو کو ہارٹ اٹیک ہو گیا اور وہ ا نتقا ل کرگئے۔اس کے بعد گھر کی
ساری ذمہ داریاں حماد پہ آ ن پڑیں دونوں چھوٹی بہنوں اور بھائی کی تعلیم کے
اخراجات بھی حماد کو برداشت کرنا پڑے اسے ابھی کوئی ملازمت بھی نہیں ملی
تھی اسی وجہ سے اپنے باپ کا پیشہ سنبھالا اور کاشتکاری کرنے لگا۔
ادھر عالیہ کے گھر والے اسکی شادی کے بارے میں فکر مند تھے او ر حماد کے
گھریلو حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ عالیہ کی شادی حماد سے کرنے سے انکار
کر رہے تھے۔جب عالیہ کو اس بات کا پتہ چلا تو وہ مسلسل پریشان رہنے لگی اور
اسی پریشانی کا راز معلوم کرنے کیلئے ایک شب اسکی ماں اسکے کمرے میں آئی
اور اس سے اسکی پریشانی کے بارے میں پوچھا تو عالیہ نے رو تے ہوئے اپنے دل
کا حال ماں سے کہہ دیا
عالیہ: ’’میں حماد سے پیار کرتی ہوں اور اسی سے شادی کرنا چاہتی ہوں وہ
میرا منگیتر ہے اور میں اسی کے ساتھ ہی خوش رہ سکتی ہوں ‘‘
اسکی ماں اسکو سمجھاتے ہوئے : ’’بیٹی! تجھے تو پتہ ہے کہ وہ غریب لوگ ہیں،
ہمارااورانکامعیار یکساں نہیں۔۔۔۔۔۔ تُو اسے بھول جا ۔۔۔‘‘
لیکن عالیہ اپنے فیصلے پر ڈٹی رہی اور کسی بھی طرح حماد کا ساتھ چھوڑنے پر
آمادہ نہ ہوئی۔
شام کے وقت سب لوگ کھانے کی میز پر جمع ہوئے تو ان میں عالیہ کا بڑا بھائی
جمال کھانے پرانکے ساتھ شامل نہیں تھاتو نسرین پوچھنے لگی’’آج جمال صبح سے
گھر نہیں آیا اور صبح مجھے بِنا بتائے چلا گیا تھا خدا خیر کرے‘‘عالیہ کی
ماں اسے تسلی دیتے ہوئے :
’’بہو! آپ پریشان نہ ہوں ،وہ آجائے گا مجھے بتا کر گیا تھا وہ سلمان کے گھر
گیا ہے الیکشن سر پر ہیں نا!اس سے کچھ مشورہ کرنے گیا ہے‘‘
جمال رات گئے واپس آیا اور اپنے بیڈ روم میں جا کر سو گیا صبح ناشتہ کی میز
پر سب کو Good Morningکہ کر مبارکباد دی کہ ’’کل رات میں نے عالیہ کی شادی
کی بات سلمان کے ساتھ پکی کر دی‘‘
نسرین بات کاٹتے ہوئے بولی: ’’ ہاں بھئی! میں تو خود بہت خوش ہوں کہ اتنے
امیر گھرانے میں ہماری عالیہ کا رشتہ ہونے جا رہا ہے‘‘
عالیہ یہ سب باتیں سن کر پریشان ہو گئی اور کھانا چھوڑ کر اپنے کمرے میں
چلی گئی اس نے اپنی امی اور بھابھی کو شادی سے صاف انکار کر دیا اور یہ بھی
بتا دیا کہ’’ اگر میری شادی حماد کے علاوہ کسی اور سے کریں گے تو میں اپنی
جان دے دوں گی مگر کسی اور سے شادی نہیں کروں گی‘‘ اب عالیہ ہر وقت پریشان
رہتی اور سوچوں میں کھوئی رہتی ۔جب حماد کو اس بات کا پتا چلا کہ عالیہ کی
شادی کسی اور سے ہو رہی ہے تو اسکی حالت اور بھی ابتر ہوگئی اور وہ اپنے
ہوش کھو بیٹھا۔صدف جو حماد کے پڑوس میں رہتی تھی اس نے عالیہ کو اس بات کی
خبر دی تو وہ کسی کوبِنا بتائے دیوانہ واربھاگتی ہوئی حماد کے گھر پہنچتی
ہے اور اس سے گلے لگ کر روتی ہے اور ساتھ جینے مرنے کے وعدے کرنے لگتی ہے۔
حماد اسکو سہارا دیتے ہوئے:’’میں تمہیں کسی اور کا ہونے نہیں دونگا‘‘
’’حماد ! میں تمہارے بنا مر جاؤں گی ،میں کسی اور کی نہیں ہو سکتی ،میں
تمہاری ہوں ،صرف تمہاری۔۔۔ ‘‘
گھر میں عالیہ کی غیر موجودگی کی وجہ سے ایک تہلکہ مچا ہواتھا۔جمال اور
ندیم دونوں بھائی بھاگتے ہوئے حماد کے گھر عالیہ کا پتا لینے گئے تو وہ
انھیں وہاں مل گئی اسکے بھائیوں نے اسے واپس گھرلانے کی کوشش کی تو وہ حماد
کی امی سے دیوانہ وار لپٹ گئی اور واپس جانے سے انکار کر دیا۔اور کہتی
ہے’’نہیں۔۔۔ میں سلمان سے شادی نہیں کرونگی‘‘نہیں پر زور دیتی رہی۔مگر اسکے
بھائی اسے اس بات پر رضا مند کر کے واپس لے جاتے ہیں کہ وہ اسکی شادی حماد
سے ہی کریں گے اور اسکی مرضی کے خلاف نہیں جائیں گے۔لیکن اگلے ہی دن جب
حماد کھیتوں میں جانے لگا تو جمال اور ندیم اس سے پہلے ہی کھیتوں کی طرف
جانے والے راستے میں چھپ کر بیٹھ گئے اور جب وہ نہر کے کنارے گھنے درختوں
کے جھنڈ میں سے گزرنے لگا تو انھوں نے اسے پکڑ لیا اور بہت مارا یہاں تک کہ
اسے لہو لہان کر دیا اور بار بار اس سے یہی منوانے کی کوشش کرتے رہے کہ وہ
خود عالیہ سے شادی کرنے سے انکار کر دے تاکہ یہ بات سنتے ہی عالیہ کے دل
میں بھی حماد کیلئے نفرت آ جائے ااور وہ حماد کا نام لینا بھی گوارہ نہ کرے
لیکن جب وہ یہ سب کرنے میں ناکام رہے تو اسے ادھ موا کر کے وہیں چھوڑ کر
واپس چلے آئے ان سب حالات سے گزرنے کے باوجود حماد نے اس بات کا کسی سے ذکر
نہ کیا کہ کہیں انکی یہ بات سن کر حماد کے گھر والے اسے عالیہ سے شادی کرنے
سے منع نہ کر دیں۔
گھر پہنچتے ہی دونوں بھائی عالیہ کے ساتھ جھگڑا کرنے لگے ااوراسکو مارنے
پیٹنے لگ جاتے ہیں کہ وہ حماد کے گھر کیوں گئی تھی؟ جمال غصے سے عالیہ کو
مارتے ہوئے کہتا ہے۔ ’’تو ہماری مرضی کے خلاف جائے گی،سلمان سے شادی نہیں
کرے گی ۔۔۔۔ یہ خیال تجھے آ ہی کیسے گیا؟ ہم اگلے جنم میں بھی تجھے حماد کا
ہونے نہیں دیں گے‘‘اسی اثناء میں جمال عالیہ پر گولی چلا دیتا ہے عالیہ
ساتھ پڑی ہوئی چارپائی پر گر جاتی ہے اسی دوران عالیہ کی ماں بازار سے واپس
آتی ہے تو عالیہ کو دیکھتے ہی اس سے لپٹ جاتی ہے اور بے اختیار رونے لگتی
ہے۔۔۔۔۔۔ ’’میری بیٹی کو کیا ہو گیا ۔۔۔۔ اسکی یہ حالت کس نے کر دی۔۔۔۔۔
ارے !کس نے یہ ظلم ڈھایا ہے ۔۔۔۔ ‘‘ نسرین اپنی ساس کو سنبھالنے کی کوشش
کرتی ہے کہ اتنے میں رونے کا شور سن کر پڑوس کے بچے ،مرد اور عورتیں انکے
گھر دوڑے چلے آتے ہیں اس ہنگامے کے دوران ندیم گھر سے نکل جاتا ہے اور
تھانیدار سے جاکر ملتا ہے اسے رشوت دیکر کہتا ہے کہ ’’ہمارے گھر پہ ایک
حادثہ ہوگیا ہے جمال بندوق صاف کر رہا تھا کہ اچانک گولی چل گئی اور عالیہ
کو لگ گئی اور وہ مر گئی ‘‘
تھانیدار پیسے لیتے ہوئے : ’’ آپ بے فکر ہو جائیں آپکو کچھ نہیں ہو گا میں
سب سنبھال لونگا‘‘
تھانیدار نے رشوت لیکر عالیہ کے قتل کا کوئی ایکشن نہ لیا لیکن وہ یہ سوچتا
رہا کہ’’ انسان کی قیمت نوٹوں کے بدلے میں کتنی کم ہوگئی ہے،کیا محبت کر کے
عالیہ نے جرم کیا تھا؟اگر ایسا ہے تو جمال نے خود کیوں Love Marriageکی
تھی؟‘‘
تھانیدار کو رشوت تو مل گئی لیکن حق دار کو اس کا حق نہ مل سکا ۔ ۔ ۔ ۔۔
چاہنے والے کو اسکا پیار نہ مل سکا۔ ۔ ۔ جمال نے بہن کو مار کر معاشرے میں
اپنی عزت تو بچا لی لیکن حقیقت سے منہ نہ چھپا سکا ۔ ۔ ۔ وہ محبت کا مجر م
۔ ۔ ۔ ۔ معاشرے کا مجرم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پیار کا مجرم ہی نہیں بلکہ خدا کا بھی
مجرم بن گیا ۔ ۔ ۔ ۔ |