ماہ محرم کی خرافات اور علما کی ذمہ داریاں
(Muzaffar Ahsan Rahmani, Darbhanga)
مطلع انسانیت پر سورج کا طلوع ہونا اور غروب ہونا روز کا معمول ہے، لیکن
بسا اوقات ڈھلتی شام اگتی صبح اور چڑھتے سورج کی حیثیت تاریخی ہو جاتی ہے،
اور احسا س وخیال پر پیچ راہوں میں سر گرداں اور پریشان رہتا ہے، اور کبھی
خوشیوں کی وادیوں میں اٹھکھلیاں کرتا نظر آتا ہے، اور کبھی بسا اوقات
اندوہناک واقعات دل و دماغ میں ایسا ثبت ہوجا تا ہیکہ ہزار کو شش کے باوجود
ذہن اسے بھلا نہیں پاتا ہے، اور رہ رہ کر اس کی ٹیس دلوں کو زخمی کرتی رہتی
ہے،اور یہ دل "داغ داغ کے مصداق ہوجاتا ہے، انہی صبر آزماں یادوں میں محرم
حرام کی دسویں تاریخ ہے ،جس نے اپنے جسم پر ہزاروں زخم کھائے ہیں، اور جس
کا سینہ اہل بیت کے خون سے رنگین ہوا ہے،اس کی فضاؤں میں آج بھی معصوم علی
اختر،ابوبکر بن حسن، عبداللہ بن حسن، قاسم بن حسن،عبداللہ بن مسلم بن
عقیل،محمد بن عبداللہ بن جعفر،حضرت مسلم بن عوشجہ اسدی، حضرت حبیب بن
مطہر،زہیر ابن القیم، علی اصغر بن زین العابدین، حسن بن حسن، عمروبن حسن،
کی چیخ اور آہ و بکا سنا ئی دیتی ہے، ایسی ستم ظریفی،
حیوانیت،بربریت،سفاکیت،درندگی،آسمان کی آنکھوں نے اس سے پہلے کبھی نہیں
دیکھے تھے،اور زمین کے کانوں نے ایسی آہ و بکا کا کبھی تصور بھی نہیں کیا
تھا، اس موقعہ پر حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وہ خطاب بھی دامن کربلا
میں محفوظ ہے، جو انہوں نے پوری دل کی درد مندی کے ساتھ یزیدی قافلہ کے
سامنے کیا تھا،
"اے لوگو جلدی نہ کرو پہلے میری بات سن لو، مجھ پر تمہیں سمجھانے کا جو حق
ہے، اسے پورا کر لینے دو، اور میرے آنے کی وجہ بھی سن لو اگر تم میرا عذر
قبول کرلوگے اور مجھ سے انصاف کروگے ،تو تم انتہائی خوش بخت انسان ہوگے
لیکن اگر تم اسکے لئے تیار نہ ہوئےتو تمہاری مرضی، تم اور تمہارے شریک ملکر
میرے خلاف زور لگا لو اور مجھ سے جو برتاؤ کرنا چاہتے ہو کر ڈالو اللہ
تعالیٰ میرا کار سازہے ،اور وہی نیک بندوں کی مدد کرتا ہے،
لوگو! تم میرے حسب ونسب پر غور کرو اور دیکھو کہ میں کون ہوں اپنے گریبانوں
میں منہ ڈالو اور اپنے آپ کو ملامت کرو تم خیال کرو کیا تمہیں میرا قتل اور
میری تو ہین زیب دیتی ہے؟ کیا میں تمہارے نبی کا نواسا اور ان کے چچیرے
بھائی کا بیٹا نہیں؟ جنہوں نے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہی،
اور اس کے رسول پر ایمان لایا کیا سیدالشہدا حضرت حمزہ میرے والد کے چچا نہ
تھے؟کیا جعفر طیار میرے چچا نہ تھے، کیا تمہیں رسول اللہ کا وہ قول یاد
نہیں جنہوں نے میرے اورمیرے بھائی کے بارے میں فر مایا تھا، "دونوں نو
جوانان جنت کے سردار ہونگے"اگر میرا بیان سچا ہے اور ضرور سچا ہے، تو بتاؤ
تمہیں ننگی تلواروں سے میرا مقابلہ کرنا چاہئے،اور اگر تم مجھے جھوٹا
سمجھتے ہو آج بھی تم میں وہ لوگ موجود ہیں، جنہوں نے میرے متعلق رسول اللہ
کی حدیث سنی ہے، تم ان سے دریافت کر سکتے ہو، تم مجھے بتاؤ کیا اب بھی اس
حدیث کی موجودگی میں میرا خون بہا نے سے بعض نہیں رہ سکتے "
حضرت حسین کے اس خطاب نے سنگ دل انسانوں پر کوئی اثر نہیں کیا اور آخر کار
محرم کی دس تاریخ کو آپ شہید کر دئیے گئے،جس پر آسمان نے لہو کے آنسو
بہائے،
حضرت حسین کا یہ خطاب اور یزیدیوں کا ظلم سامنے ہو تو کوئی بھی مسلمان حضرت
حسین کے نام پر اس مبارک دن کو کھیل تماشے میں گذارنے کے بجائے قرآن کی
تلاوت روزے کے اہتمام اور دیگر نیک اعمال میں گذارینگے،لیکن ہائے افسوس آج
کی نسلیں اپنے آپ کو حسینی تو ضرور کہتے نظر آتے ہیں، لیکن یہی حسینی گلی
کوچوں اور شاہراہوں پر ڈھول تاشے اورڈی جے کے دھوم دھڑاک کے "یا
حسین،یاحسین "کا نعرہ لگاتے اور ساتھ ہی فلمی گانوں کے سونگ پر تھڑکتے نظر
آتے ہیں، اور وہ تمام کام کرتے ہیں جو برادران وطن اپنے مخصوص دنوں اور تیو
ہاروں میں کرتے ہیں
یہ تو افسوس کا مقام ہے ہی کہ اس مبارک دن میں حسینی ہونے کے دعویدار قیمتی
نسلیں تباہ و برباد ہورہی ہیں،اور انہیں تباہ کیا جارہا ہے، اس سے زیادہ
افسو س کا مقام یہ ہے کہ آج کی نسلیں اسے ثواب سمجھ کر کرتی ہیں، اور اب تو
دن بدن اس میں زیادتی ہوتی جارہی ہے، پہلے لوگ ڈھول تاشے تک محدود تھے، اور
اب ڈی،جے اور دیگر نئی ایجادات کا ہوڑ مچا ہوا ہے، کون اس کے ذمہ دار ہیں
اور کس کے ذمہ اس کے اصلاح کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، کیا امت کے دانشوران،
تنظیموں کے ذمہ داران،علما کی باوقار جماعت، ائمہ مدارس، کی ذمہ داری نہیں
ہوتی ہے؟ اگر ہاں تو پھر آگے آئیں، منجھدھار میں پھنسی امت کو نکالنے کی
کوشش اور سعی کریں،ورنہ اللہ کے عذاب سے اس امت کو کوئی نہیں بچا سکتا،
خدارا رحم کیجئے اس امت پر اور امت کی نسلوں پر -
علماء کی ذمہ داری
اس بڑھتے خرافات پر لگام کسنے کی ذمہ داری سب سے زیادہ علما کی ہے، پھر
آئمہ مساجد، دانشوران، اور پھر تنظیموں کے ذمہ داران کی، جب تک علما کے
ساتھ یہ سب آگے نہیں آئیں گے اس وقت تک اس پر کنٹرول کرنا مشکل ہی نہیں
بلکہ ناممکن ہے،علما کو مصلحت پسندی کے خول سے باہر نکلنا ہوگا، اور بے
خطرمسلمانوں کو اس خرافات سے باہر نکالنا ہوگا، ورنہ اس امت کو بربادی سے
کوئی نہیں بچا سکتا،
طریقہ کار
بقرعید کی نماز اور قربانی سے فارغ ہونے کے بعد اس بات کی فکر شروع کر نی
ہوگی، اس کے لئے ہر خطیب کو باضابطہ تیاری کے ساتھ جمعہ کے خطاب میں محرم
میں ہو نے والے واقعات، عاشورہ کی فضیلت، اہل بیت کی عظمت، امام حسین کے
پیغام، حضرت حسین نے یزید کے ہاتھ پر بیعت کیوں نہیں لیا، عاشورہ کے دن
ہمیں کیا کر نا چاہئے،تعزیہ داری کی شریعت میں کو ئی گنجا ئش
نہیں،ڈھول،تاشہ اور ڈی،جے،کا استعما ل کسی بھی صورت میں کبھی بھی جائز
نہیں، جیسے عناوین پر بولنے کی ضرورت ہے،اور قلم کاروں کو باضابطہ لکھنےکی
ضرورت،
ایک ایسی جماعت تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو ان حضرات کو موقعہ کی مناسبت سے
مواد فراہم کرے، اور اخبارات کے مدیران اسے خصوصی کالم میں جگہ دیں،
دوسرا اور اہم کام یہ کرنا ہوگا کہ ہر گاؤں میں گاؤں کے علما اور دانشوران
محلوں میں دینی مجالس کے ذریعہ سمجھا نے کی کو شش کریں،عورتوں میں خصوصی
خطاب کا نظم ہو، اور ہرگاؤں میں کچھ سنجیدہ لوگو ں کو تیار کیا جائے کہ وہ
لوگو ں کو سمجھا بجھاکر اس دن کو اچھے کاموں میں استعمال کریں علما کے
بیانات رکھے جائیں، اور اس کے علاوہ دیگر طریقہ کار استعمال کئے جائیں، اس
قوم میں آج بھی ماننے کی پوری صلاحیت ہے، ا سیتا مڑھی اور دربھنگہ کے بعض
گاؤں ایسے ہیں جہاں عاشورہ کے دنوں میں علما کے بیانات رکھے جاتے ہیں، اور
وہاں لوگوں نے محرم میں ہونے والے خرافات سے تو بہ کرلیا ہے،
ایک غلط فہمی
بعض لوگوں کا کہنا ہیکہ ہم اس سے اپنی جمعیت اور اتحاد کا ثبوت دینا چاہتے
ہیں، یہ در اصل شیطانی وسوسہ ہے، پوری دنیاں کو آپ کی طاقت اور اتحاد کا
پتہ ہے، آپ تاش کے پتوں کی طرح کیسے بکھر جاتے ہیں،اور آپ کس طرح استعمال
ہو سکتے ہیں، غلط طریقوں سے کثرت کا ثبوت کیا آپ کو کامیابی تک پہونچا
ئیگی،ایسا نہیں ہوا، آپ کی کثرت کا اعتبار اس وقت ہوگا جب آپ مسجدوں میں
نظر آئیں ،ہم امید کرتے ہیں کہ دل سے نکلی یہ بات آپ کو سوچنے پر مجبور کرے
گی
شاید کے اتر جائے تیرے دل میں میری بات
مظفر احسن رحمانی
استاد دارالعلوم سبیل الفلاح جالے
امام وخطیب جالے جامع مسجد |
|