اسلام کا تصور شہادت
(Dr Sajid Khakwani, Islamabad)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
(محرم الحرام کے موقع پر خصوصی تحریر)
قرآن مجید نے شہدا کے بارے میں فرمایاکہ انہیں مردہ مت کہووہ زندہ ہیں اور
اﷲتعالی کے ہاں سے انہیں رزق بھی فراہم کیاجاتاہے۔اسی بنیاد پر مسلمانوں کے
ہاں شہادت کا مقام حاصل کرناایک بہت بڑی سعادت سمجھاجاتاہے۔مقام شہادت کی
اہمیت کااندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ انبیاء نے عمومی طور پر اور
خاتم الانبیاء ﷺنے خصوصی طور پر منصب شہادت کی خواہش کی ۔قرآن مجید نے اس
بات کا صراحتاََذکرکیاے کہ کتنے ہی انبیاء علیھم السلام کو قتل کیاگیااور
انہیں مقام شہادت حاصل ہوا۔خود محسن انسانیت انسانیت ﷺ کو بھی کھانے میں
زہر دیاگیا تھاجس کے باعث آپ کی حالت بگڑ گئی اور اس دنیاسے پردہ فرماگئے
چنانچہ سیرت نگار لکھتے ہیں کہ یہ آپ کی شہادت کاایک ثبوت ہے۔خلفائے راشدین
میں سے حضرت عمر،حضرت عثمان اور حضرت علی رضوان اﷲتعالی علیھم اجمعین بھی
منصب شہادت پر فائزہوئے ۔خاص اہل بیت میں سے حسنین کریمین شفیقین کو بھی یہ
اعلی مقام حاصل ہوا اور خاص طور پر امام عالی مقام امام حسین نے تو اپنے کل
خانوادہ مطہرہ کے ساتھ میدان کرب و بلامیں جام شہادت نوش فرمایا۔اور اس کے
بعد امت مسلمہ میں ایک طویل سلسلہ ہے جو آج تک جاری ہے اور تاقیامت اس وقت
تک جاری و ساری رہے گاجب تک کہ سینوں میں ایمان زندہ سلامت ہے۔
’’شہادت‘‘دراصل فریضہ قتال کاایک طرح سے تکملہ ہے۔اﷲ تعالی نے ان لوگوں کے
لیے اپنی بے پناہ محبت کا اظہار کیاہے جو صف بستہ ہو کر ایک آہنی دیوار کی
طرح ظلم سے ٹکراتے ہیں اور اﷲ تعالی کے راستے میں ’’قتال‘‘کرتے ہیں۔’’قتال‘‘
اسی طرح ہر مسلمان مردوعورت پر فرض ہے جس طرح نمازاور روزہ فرض ہیں۔جو
مسلمان بھی قتال کی نیت سے گھر سے رخت سفرباندھتاہے ،شہادت اس کی آخری منزل
ہوتی ہے۔پھرکچھ مجاہدین تو اپنی اس منزل کو حاصل کر کے بارالہ میں سرخرو ہو
جاتے ہیں اور باقی غازی بن کر اپنی اگلی باری کاانتظار کرتے ہیں۔اﷲ تعالی
کے آخری نبی ﷺ کو بھی شہداسے بہت پیار تھا خاص طورپر جنگ احد کے شہدا بہت
عزیزجاں تھے۔اپنے وصال مبارک سے چند روز قبل جب کہ چلنے کی ہمت نہ تھی تب
بھی دو مسلمانوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر میدان احدمیں تشریف لے گئے
اورشہداکے کیے دعافرمائی اور ساتھ ارشاد فرمایاکہ بہت جلد تم سے ملنے والے
ہیں۔دیگر معرکوں کے شہدا بھی اکثروبیشتر نبی علیہ السلام کی مقبول دعاؤں سے
بکثرت اپنا حصہ پاتے تھے یہاں تک کہ شہدا کے پس ماندگان کی کفالت بھی آپ ﷺ
کی ذاتی نگرانی میں ہواکرتی تھی۔
اﷲ تعالی نے قرآن پاک میں واضع طور پر ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے اس دین حق
کو غلبہ کے لیے بھیجاہے،پس اسلام کی فطرت میں جھک کر رہنا ممکن ہی نہیں
ہے،یہ غالب اور حکمت والے کا بھیجاہوا دین ہے جو غالب رہ کر ہی زندہ رہ
سکتاہے ۔دورغلامی اس دین کے لیے زہر قاتل سے بھی بڑھ کر ہے ۔چنانچہ اس دین
کے ماننے والے ’’مسلمان‘‘جو صرف اﷲ تعالی کے سامنے ہی جھکنے کی تربیت
رکھتاہے اس کے لیے ممکن نہیں کہ وہ کسی طاغوت اورغیراﷲکی غلامی پر آمادہ ہو
جائے ۔امت مسلمہ پر تین صدیوں تک غلامی مسلط رہی لیکن اس دوران بھی جا بجا
آزادی کی مسلح و غیر مسلح سیاسی تحریکیں چلتی رہیں اور امت کی کوکھ سے جنم
لینے والی بیدارمغزقیادت نے بالآخراس امت کو غلامی کو اندھیرے غار سے نکال
باہر کیااور باقیات غلامی بھی مٹنے کو ہیں۔پہلے نبی سے آخری نبی علیھم
السلام تک جس جس کی دعوت و تحریک اپنے منطقی انجام کو پہنچی توزمین
پراقتدارو غلبہ کے نتیجہ میں اسلام کا سیاسی نظام نافذہوااور انسانوں کو
انسانوں کی غلامی سے نجات دلا کر انہیں خالق حقیقی کی غلامی سے آشنا
کیاگیا۔اس سیاسی اسلامی نظام کاقیام دراصل جہاد یا قتال کی اجتماعی منزل
ہے،اس منزل کے حصول کے لیے شہادت ایک سنگ میل ہے تاکہ مسلمان جہاں انفرادی
طور پر شہادت کی اس منزل کو حاصل کر سکیں وہاں کل انسانیت ،خلافت اسلامیہ
کے سیاسی نظام کو اجتماعی طور پر حاصل کر پائے۔
باطل نظام کاخاتمہ اوراس کی جگہ خلافت اسلامیہ کا قیام کل امت کی اجتماعی
ذمہ داری ہے ،وہ جس ذریعہ سے بھی ممکن ہواس ذریعہ کو اپنانامستحب ہے لیکن
تاریخ انسانی گواہ ہے طاغوت اپنے دفاع کے لیے حق کی قوتوں کو متعدد
دیگرراستوں میں الجھاکر اپنے لیے وقت حاصل کرتارہتاہے اور بالآخرآخری فیصلہ
میدان کارزار ہی کیاکرتاہے۔مکہ کی وادیوں میں فصاحت و بلاغت کا میدان ہو یا
دلائل و براہین کا مقابلہ ہو یا پھر حسن کردارو حسن اخلاق کی نمایاں پیش کش
ہو ہر میدان میں طاغوت کے شکست کھانے کے بعد بلآخرآخری فیصلہ تلوارکے
ہاتھوں ہی ہوا۔بعینہ فی زمانہ جمہوری اقدارہوں یا پروپیگنڈے کا میدان یا
پھر تعلیم و تعلم کی دوڑاور تہذیب و ثقافت کی کشمکش ہو ہر میدان میں
سیکولرازم شکست کھانے کے باوجودمحض وقت کے حصول کے لیے مسلمانوں کو مصروف
رکھناچاہتاہے۔خواتین کوآڑ بناکریا پھر امن کا ڈھونک رچاکر اور یا پھر
انسانی حقوق کے نام پر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر،حق آورقوتوں سے
صرف وقت کی مہلت لینا مقصود ہے جبکہ آخری فیصلے کے لیے طاغوت کی افواج آج
بھی سرزمین مسلمانان پر شب خون کی ہولی کھیلنے میں مصروف ہیں۔قرآن نے طاغوت
کے اس کردار کو بہت پہلے طشت ازبام کیاہے اور مسلمانوں کو حکم دیا ہے طاغوت
کی اس طرح کی چالوں سے بچتے ہوئے اسے براہ راست للکاراجائے اور ’’قتال‘‘کے
ذریعے شہادت کی منزل کی جستجومیں انسانیت کو ظلم و ستم کے اس نظام سے آزادی
دلائی جائے۔
واقعہ کربلامیں امام عالی مقام کا کردار اس منزل کے حصول کے لیے بہت واضع
ہے۔امام عالی مقام کی سعی مبارکہ کسی ایک فرد کے خلاف نہ تھی بلکہ ایک نظام
کے خلاف تھی ۔اس وقت مسلمانوں کا سیاسی نظام خلافت ایک نیالبادہ باطل اوڑھ
کر ملوکیت کی جانب بڑھ رہا تھا،اسی فکرفرسودہ کے خلاف حضرت علی کرم اﷲ وجہ
نے بھی تلوار اٹھائی اور اسی کے خاتمے کے لیے امام عالی مقام نے اپنے اہل
بیت کے ہمراہ ایک تاریخ ساز قربانی پیش کی۔ملوکیت کے نتیجے میں ایوان
اقتدار سے نظام اسلامی کی روح نے نکل جانا تھا جیسے کہ بعد کے ادوار سے یہی
نتیجہ ثابت ہوا،اورنظام سیاست سے اسلام کے نکل جانے کا مطلب تھا کہ وقت کے
ساتھ ساتھ دیگر نظم ہائے حیات سے بھی اسلام کی باقیات کو دیس نکالا دے دیا
جائے اس لیے کہ اسلام بہر حال ایک کل ہے اور اس کے چند اجزا کے نفاذسے
مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے چنانچہ بادی النظرمیں اسلام میں پورے
کے پورے داخل ہو جاناہی امام عالی مقام کا ’’مقصد قتال‘‘تھا جس کے نتیجے
میں خلافت اسلامیہ کی تجدیدہونا تھی لیکن قاضی قدرت کو کچھ اور ہی منظور
تھا۔کنارے فرات غریب الدیاری،پیاس اور بے سروسامانی کے عالم میں بھی باطل
بھرے طاغوت سے نبردآزما ہونااور جام شہادت نوش کر جاناقرآن مجید کی اس آیت
کی عملی تصویر تھی کہ ’’نکلواﷲ تعالی کی راہ میں ہلکے ہو یا بوجھل‘‘۔اگرچہ
وقتی طور پر طاغوت کی قوتیں غالب رہیں لیکن امام عالی مقام نے رہتی دنیاتک
یہ درس دیا کہ نظام کی تبدیلی تک مومن گھرمیں قرار نہیں پکڑ سکتاگویا یہ
ختمی مرتبتﷺ کے اس قول کو عملی جامہ پہنانا تھا کہ ’’یا تو یہ کام تکمیل
پزیر ہو گا یا پھر میں اس راہ میں کام آجاؤں گا‘‘۔پس ’’شہادت ‘‘وہ بند ہے
جس سے باطل قوتیں ٹکراتی ہیں تب یاتو اﷲ تعالی کی زمین پر اﷲ تعالی کانظام
قائم ہوتا ہے یا پھر حق و باطل کی آفاقی کشمکش میں حق و شرکی پہچان دنیاپر
واضع ہو جاتی ہے اورحق ہمیشہ کے لیے امر ہو کر باطل کا بطلان کر دیتاہے۔
’’شہادت‘‘کا سفرہمیشہ سے جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گا،چھری اسمائیل
ؑپرچلی وہ تو بچ گئے لیکن ذبح امام عالی مقام ہوئے،پیاس اسمائیل ؑکو لگی ان
کے لیے تو زم زم پھوٹ پڑالیکن پانی بندش امام عالی مقام کوبرداشت کرنی
پڑی،غریب الدیاری اسمائیل ؑپر آئی ان کے لیے تو مکہ آباد ہو گیالیکن ’’کرب
و بلا‘‘ امام عالی مقام کے دامن گیررہی اوراسمائیل ؑکو صرف اپنی والدہ
محترمہ کے ساتھ ہجرت کرنا پڑی جبکہ امام عالی مقام کل اہل بیت کو لے کرمقتل
کی طرف چل نکلے۔تاریخ اپنے آپ کو ہمیشہ دہراتی رہتی ہے وہ عراق سے فلسطین
کا سفر ہویابدروحنین کی گھاٹیاں ہوں یا پھرکربلا سے کابل تک، شہادتوں کا
سفر آج بھی جاری ہے ۔وقت کے فرائین آج بھی زندہ ہیں،نمرود کے دربار آج بھی
اسی سج دھج کے ساتھ آباد ہیں،دنیاکے دانش کدے آج بھی اجوجہلوں سے بھرے پڑے
ہیں اور یزیدی افواج آج بھی وقت کے امام کی کھوج میں مسجد مسجداہل حق کو
گھیری ہوئی ہیں۔اس امت کی تاسیس ایک مقدس خاتون کی شہادت سے ہوئی تھی اور
شہداکے خون کی سیرابی سے یہ دین ایک کونپل سے تناور درخت بنااور جب بھی اس
شجرسایہ دار پر بادسموم کے جھونکے آئے اور اس کے پتے مرجھانے لگے توشہدانے
اپنے تروتازہ نوجوان خون سے اس درخت کی جڑوں کوحیات نو عطا کی ۔شہداکایہ
قافلہ منزل منزل اس امت کو بام عروج کی طرف لے جانے کا باعث ہے ۔آج پھرشرق
و غرب میں ایک معرکہ کارزار گرم ہے اور سیکولرازم ابولہب کی صورت میں خود
اس امت کے گھر سے اس پرشعلہ زن ہے لیکن سودی معیشیت اور ہوس نفس
کاماراہوافکرفرسودہ کا مرقع سیکولرازم اسی طرح اپنے دارفانی کی ابدی آرام
گاہ کی طرف تیزی سے گامزن ہے جس طرح ماضی قریب میں اسی کا ہم جنس کیمونزم
شہادت کی مضبوط چٹان سے سر ٹکراٹکراکر پاش پاش ہوااورخوشخبری ہوبنی آدم
کوکہ خلافت علی منہاج نبوت انسانیت کے دروازے پر دستک کناں ہے۔ |
|