یہ اسلام نہیں ہے

یہ اسلام نہیں ہے ۔ بخدا یہ اسلام نہیں ہے اور نہ یہ اسلام کی تعلیم ہے، نہ ہی اسلام کسی فرد یا مشتعل ہجوم کو یہ حق دیتا ہے کہ کسی بھی فرد پر الزام لگا کر خود ہی مدعی ، خود ہی منصف بن کر اسے سزا سنائے اور اس سزا پر عمل درآمدکرگزرے۔کوٹ رادھا کشن میں ہونے والا اندوہناک سانحہ ہمارے لیے ایک بدنما داغ ہے۔ یہ اسلام کے نام پر اسلام کو بدنام کیا گیا ہے، کس نے لوگوں کو یہ حق دیا ہے کہ وہ کسی غیرمسلم کو توہین قرآن یا توہین مذہب کا الزام لگا کر اسے سزائے موت سنا دے۔

میں وہاں موجود نہیں تھا لیکن مجھے یقین ہے کہ اس ہجوم میں دس فیصد لوگ بھی نماز کی پابندی نہیں کرتے ہونگے، نہ ہی اسلام کی دیگر تعلیمات پر عمل کرتے ہونگے لیکن مذہب کے ٹھیکدار بن کر انہوں نے خونِ ناحق بہا کر ظلم عظیم کیا ہے۔کوٹ رادھا کشن سے آنے والی خبروں کے مطابق شہزاد مسیح اور اس کی بیوی شمع بی بی یوسف گجر کے اینٹوں بھٹے پر کام کرتے تھے ، ان کا یوسف گجر سے رقم کی لین دین پر کوئی تنازع پیدا ہوا، جس پر یوسف گجر نے پہلے تو خود انہیں مارا پیٹا، بعد ازاں ان پر مقد س اوراق کی بے حرمتی کا الزام لگا کر گاؤں والوں کو اکھٹا کیا اور پھر ان بے گناہ میاں بیوی کو مشتعل ہجوم نے پہلے تو مار مار کا ادھ مرا کیا اور پھر انہیں انیٹے پکانے والی بھٹی میں جھونک کر زندہ جلا دیا۔

میں جب جب اس جوڑے کی تصویر دیکھتا ہوں تو دل میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے۔ کیا زندگی سے بھرپور جوڑا تھا،لیکن اب نہیں ہے۔ میں جب جب واقعے کی تفصیلات پڑھتا ہوں، تب تب میں ان دونوں میاں بیوی کے آخری لمحات کا تصور کرتا ہوں کہ کس طرح انہوں لوگوں سے زندگی کی بھیک مانگی ہوگی، کیسے گڑ گڑائے ہونگے، اپنی بے گناہی کا یقین دلانے کی کوشش کی ہوگی، جب ان کو کمرے میں بند کردیا گیا تھا، وہ آخری لمحات تک یہ سوچتے رہے ہونگے کہ شائد اب یہ معاملہ ختم ہوجائے، شائد لوگوں کے دلوں میں رحم آجائے، شائد پولیس پہنچ کر ان لوگوں کو بچا لے،لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اور میں چشم تصور سے دیکھتا ہوں کہ جب کمرے کی چھت اکھاڑی گئی ہوگی، کس طرح ان دونوں نے ایک دوسرے کو خود سے قریب کرلیا ہوگا، کیسیدونوں جڑ کر کھڑے ہونگے، کس طرح شمع بی بی نے شہزاد کے پیچھے چھپ کر خود کو بچانے کی کوشش کی ہوگی۔ لیکن درندوں کے جسموں میں دل نہیں ہوتا بلکہ محض گوشت کا لوتھڑا ہوتا ہے۔

توہین ِ مذہب اور توہین قرآن کے نام پر یہ ظالمانہ کارروائی کرتے لوگوں نے ایک بار بھی نہیں سوچا کہ جس قرآن کی حرمت کے نام پر یہ دو انسانوں کو زندہ جلا رہے ہیں، اس قرآن میں رب کائنات نے انسانی جان کی کیا حرمت بیان کی ہے؟ جس رسول پاک ﷺ کے نام پر یہ لوگ دو بغیر سوچے سمجھے دو بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتار رہے تھے ، انہوں نے خون ناحق کرنے والوں کو کس دردناک عذاب کی وعید سنائی ہے؟ قرآن پاک اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’’جو کوئی قتل کرے ایک جان کو بلاعوض جان یا بغیر فساد کے ملک میں تو گویا قتل کر ڈالا اس نے سب لوگوں کو اور جس نے زندہ رکھا ایک جان کو تو گویا زندہ رکھا سب لوگوں کو۔‘‘ (المائدہ:۲۳)

’’قتلِ نفس کا ارتکاب نہ کرو جسے اﷲ نے حرام کیا ہے، مگر حق کے ساتھ۔ اور جو شخص مظلومانہ قتل کیا گیا ہو اس کے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالبے کا حق عطا کیا ہے، پس چاہیے کہ وہ قتل میں حد سے نہ گزرے، اْ س کی مدد کی جائے گی۔‘‘ (بنی اسرائیل:۳۳)

کلامِ پاک کی ان دونوں آیتوں کو سامنے رکھیں، ان کی تفسیر میں علما بیان کرتے ہیں کہ قتل ناحق صرف مسلمان کا قتل نہیں بلکہ کسی غیر مسلم کو بھی ناحق قتل کرنے کا کسی کو حق نہیں پہنچتا۔ اور جو شخص نا حق قتل کیا جائے ،ا اسلام نے اس کے ورثا کو یہ حق دیا ہے کہ وہ ظلم کی چارہ جوئی کے لئے آواز اٹھائیں اور مسلم حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ مظلوم کی داد رسی کرے۔اسی طرح قصاص اور دیت کا جو معاملہ ہے اس میں بھی صرف مسلم کے خون کی قصاص نہیں بلک ذمی اور معاہد کے ورثا کو بھی قصاص لینے کا حق ہے۔نبی اکرم ﷺ کی حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ ’’قیامت کے دن سب سے پہلے جس مقدمہ کا فیصلہ ہو گا وہ خون کا مقدمہ ہو گا۔‘‘اس حدیث پاک سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اﷲ رب العالمین کے نزدیک انسانی جان کی حرمت کس قدر ہے، لیکن افسوس کہ توہینِ قرآن کے نام پر دو بے گناہوں کی جان لینے والے قرآن کی تعلیمات سے واقف ہی نہیں ہیں۔

ایک طرف تو یہ دینی تعلیمات اور دین سے دوری کا نتیجہ ہے کہ لوگ فوری طور پر بغیر سوچے سمجھے ایسے ظالمانہ اور مکروہ کام کرگزرتے ہیں ، دوسری جانب یہ قانون کی بالادستی نہ ہونے کا بھی ثبوت ہے۔ اگر حکومت مجرموں کو سزا نہ دلا سکے، جب قانون برائے فروخت بن جائے، جب امیر کے لیے ایک اور غریب کے لیے دوسرا قانون ہو، سزا اور قانون کا خوف نہ ہو، تب ایسے ہی واقعات جنم لیتے ہیں، ملک بھر کے مختلف شہروں میں روزانہ قتل کے درجنوں واقعات ہوتے ہیں، غیرت کے نام پر بیٹیوں ، بہنوں اور بیویوں کو قتل کردیا جاتاہے، گاؤں دیہات میں خاندانی دشمنیوں کی بنیاد پر عورتوں کی بے حرمتی اور عصمت دری کردی جاتی ہے، عزت ماب خواتین کو برہنہ کرکے بازاروں میں گھمایا جاتا ہے، کم عمر بچیوں اور بچوں کو زیادتی کے بعد شناخت ظاہر ہونے کے خوف سے قتل کردیا جاتا ہے لیکن اول تو مجرم پکڑے نہیں جاتے ، اگر پکڑے بھی جائیں تو سزا نہیں ہوپاتی ، اگر کوئی عدالت سزا سنا بھی دے تواس کے خلاف اپیل دائر کردی جاتی ہے۔ یعنی مجرم ہر لحاظ سے محفوظ ہوتا ۔اسی لیے پھر ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اب یہ حکومت کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ وہ اس کو ایک مثال کے طور پر پیش کرے اور اس واقعے کے مرکزی ملزمان کو جلد از جلد عبرت ناک سزا سنائے اور اس پر عمل درآمد بھی کیا جائے۔ان مجرموں کا مقدمہ عام عدالت کے بجائے انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں میں چلایا جائے۔ مجرموں کو سرِ عام پھانسی دی جائے تاکہ دوسروں کو عبرت حاصل ہو۔

اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ اس واقعے کی آڑ میں توہین رسالت کے قانون کو نشانہ بنانے کی کوشش نہ کی جائے، کیوں کہ اس واقعے کا تعلق کسی بھی طرح اس قانون سے نہیں ہے بلکہ یہ تو لاقانونیت ہے۔اس اندوہناک سانحے کی آڑ میں ایک بار پھر توہینِ رسالت کے قانون کو ہدفِ تنقید بنایا جارہا ہے۔ حالانکہ اس قانون کے تحت مجرموں نے یہ کارروائی کی ہے اور نہ ہی کسی بھی مکتبہ فکر کے علما نے انہیں اس کی اجازت دی تھی بلکہ انہوں نے اپنی جہالت کے باعث یہ شرمناک عمل کیا ہے۔ اس لیے اس واقعے کو مذہب سے نہ جوڑا جائے۔ ایک بار پھر حکومت سے یہ اپیل کریں گے کہ اس واقعے کو مجرموں کو جلد از جلد سخت سے سخت سزادی جائے تاکہ ایسے واقعات کی روک تھام ہو سکے۔

یہ اسلام نہیں ہے ۔ بخدا یہ اسلام نہیں ہے اور نہ یہ اسلام کی تعلیم ہے، نہ ہی اسلام کسی فرد یا مشتعل ہجوم کو یہ حق دیتا ہے کہ کسی بھی فرد پر الزام لگا کر خود ہی مدعی ، خود ہی منصف بن کر اسے سزا سنائے اور اس سزا پر عمل درآمدگزرے۔ یہ اسلام کے نام پر اسلام کو بدنام کیا گیا ہے-
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1521153 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More