عالمی یومِ اُردو تحریک

جلال الدین اسلم، نئی دہلی

9 نومبر 1997 کو جب ’’عالمی یومِ اردو تحریک‘‘ شروع کی گئی تھی تو اس وقت یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس کا عوام میں اتنا زبردست مثبت ردّعمل بھی ہوگا اور اس قدر جذباتی وابستگی و بے پناہ لگاؤ کا اظہار بھی ہوگا کہ دیکھتے دیکھتے ہی پوری اُردو دنیا میں پھیل جائے گی۔ 9 نومبر عالمی شہرت یافتہ اور حکیم الامت علامہ اقبالؒ کا یوم پیدائش ہے، اسی مناسبت سے تحریک کا آغاز ہوا اور آج اﷲ کے فضل و کرم سے یہ تحریک عالمی تحریک بن گئی ہے۔ ملک و بیرون ملک میں پھیلے محبان اردو ہر برس 9 نومبر کو اپنے خونِ دل سے اردو کے چراغوں کو روشن کر رہے ہیں اور اس تحریک کو حتی الوسع آگے بڑھا رہے ہیں۔ یہ سب کچھ غالباً تحریک کے ان بانیوں کے اخلاص کا نتیجہ ہے جنہوں نے اپنی زندگیوں کو اردو کی زندگی اور اس کی بقا سے جوڑ رکھا ہے۔

آزادی کے بعد اُردو کو شمال کی ریاستوں سے جہاں وہ پلی بڑھی اور پھلی پھولی تھی، عملاً اسے دیش نکالا دے دیا گیا۔ وہ لوگ جو پڑھے لکھے تھے ایک صبح جب سوکر اٹھے تو انہیں پتہ چلا کہ وہ کورے جاہل ہیں۔ جس زبان کو وہ لکھ پڑھ سکتے ہیں اور جو اب تک عدالتوں اور سرکاری دفاتر میں رائج رہی ہے اس کی جگہ ایک ایسی زبان کا سکہ چلنے لگا ہے جو ان کے لیے اجنبی ہے۔ اردو سے ناواقفیت کا مطلب یہ تھا کہ اس تہذیبی اور ثقافتی سرمائے سے، اس علمی اثاثے سے رشتہ کٹ جائے جو کئی سو سال کی محنت سے جمع ہوا تھا۔

اردو پر سب سے پہلا وار ملک کے سب سے بڑے صوبہ اترپردیش میں ہوا۔ اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پنڈت سمپورنانند کے اپنے ایک سطری حکم کے ذریعے کہ ’’آج سے یوپی کی صرف ایک سرکاری زبان ہندی ہوگی‘‘ اور اردو کو یکسر اس کے تمام وطنی حقوق سے محروم کردیا گیا۔ یوپی چونکہ ہندوستان کا سب سے بڑا صوبہ تھا اس لیے دوسرے صوبوں میں بھی اس کے ساتھ امتیاز برتنے کا ایک طویل دور شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔ ہاں کچھ صوبوں اور کچھ علاقوں میں اسے ضرور دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے لیکن اردو پڑھنے، لکھنے اور بولنے والوں کی تعداد دیکھتے ہوئے اس رعایت کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ اردو اگر اپنے طویل دور میں جس کسمپرسی سے گزری اور زندہ رہی تو وہ اپنے اور اپنے محبان کے بل بوتے پر ہی زندہ رہی ہے۔ اردو ایک جاندار زبان ہے اس لیے آزمائش کے دور میں بھی صحیح و سلامت ہے اور اب تو اس کے دشمن بھی اس کی سلامتی کے لیے دعا کرنے لگے ہیں اور اس کی ترویج و اشاعت میں بھی پیش پیش نظر آنے لگے ہیں کیوں کہ ان کے ’’دیوان‘‘ دوسری زبانوں میں اتنے مقبول نہیں ہوتے جتنے کہ اردو حلقوں میں مقبولیت اور پذیرائی انہیں حاصل ہوتی ہے۔

ملک کی آزادی کے بعد نصف صدی تک تو اردو کی جان بچانے کی تحریکیں چلتی رہیں، اس دوران مختلف اداروں، سیاسی پارٹیوں اور سیاست دانوں کے بہلانے والے اعلانات بھی ہوتے رہے اور ان پر برائے نام عمل بھی ہوتا رہا ہے لیکن ان کے اثرات عوامی سطح پر صفر ہی رہے۔ عوامی سطح پر مستقل کوئی تحریک نہیں کی جاسکی۔ ہاں مرزا غالب کے ’’یوم وفات‘‘ کو ضرور ’’یوم اردو‘‘ کے طور پر کچھ لوگوں نے منایا اور شاید اب بھی وہ لوگ اردو کے صحرا میں ریت کی دیواریں اٹھا رہے ہیں۔ 15 فروری مرزا غالب کا یوم وفات ہے، یہ لوگ یوم وفات پر جشن مناتے ہیں، اس عمل کے پیچھے کیا راز ہیں ہمیں نہیں معلوم۔ ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ وفات پر غم منایا جاتا ہے جشن تو یوم پیدائش پر منانا چاہئے۔ مرزا غالب کی عظمت اور ان کی علمی و ادبی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، لیکن ان کے وفات پر جشن، اس عظیم ذات اور اہل اردو کے ساتھ مذاق ہی کہا جائے گا۔ غالب کے نام پر اب تک کروڑوں روپے لوگوں نے کمالیے لیکن ان کی زبان اُردو کے لیے کیا کیا؟ یہی نا کہ اپنے بچوں تک کو اردو سے دور رکھا؟

اردو کو اترپردیش میں علاقائی زبان قرار دینے کے لیے بیس لاکھ سے زائد انسانوں کا تحریری مطالبہ ڈاکٹر ذاکر حسین کی سرکردگی میں 15 فروری 1954 کو صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرشاد کو پیش کیا گیا، جو ردی کی ٹوکری کا زینت بن گیا۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ جب ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب خود اس عہدۂ جلیلہ پر متمکن ہوئے تو بھی وہ اردو کے لیے کچھ نہ کرسکے۔ اسی طرح کے نہ معلوم کتنے قدم اٹھائے گئے جو وقت کی گرد میں اس طرح کھوگئے کہ ان کے نشان تک نہیں مل پا رہے ہیں۔ البتہ اس دوران قاضی عدیل عباسی نے اُردو کے تئیں جو قدم اٹھائے وہ یقینا ہم سب کے لیے نشان راہ ہیں۔ عالمی یوم اردو تحریک ہر سال 9 نومبر کو اسی تحریک کو زندہ رکھنے کے لیے محبان اردو کے تعاون سے پورے جوش و خروش سے یوم اردو مناتی ہے۔ ذیل میں اردو تحریک اور اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن کے روح رواں ڈاکٹر سیّد احمد خاں کی اپیل پیش خدمت ہے:
’’یہ ہمارے لیے باعث اطمینان ہے کہ چند شرپسند عناصر کے منفی اور جھوٹے پروپیگنڈے سے قطع نظر ملک بھر کے عوام میں یکساں طور پر اردو کی مقبولیت ہے اور سیکولر و انصاف پسند برادران وطن جنگ آزادی میں اس کی خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں۔ ہندی فلموں میں استعمال ہونے والے نغموں، مکالموں اور ہندوستان کی بیشتر تحریکات میں ’انقلاب زندہ باد‘ وغیرہ کے نعروں کا استعمال اور مشاعروں میں عوام کا اژدہام اس کا منھ بولتا ثبوت ہیں اور ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اردو زبان اور جذبہ حب الوطنی ہی نے یہاں کے تمام طبقوں کے رہنماؤں کو ایک دوسرے سے قریب کیا تھا جس کی وجہ سے ہندوستان کو آزادی ملی تھی۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ یوم اردو ان ہی بنیادوں پر منائیے اور قومی یکجہتی کو فروغ دیجئے۔ یہ امر بھی باعث رشک ہے کہ 4 ستمبر 2014 کو سپریم کورٹ آف انڈیا نے اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن کے حق میں جو فیصلہ دیا ہے وہ ہماری تحریک کے لیے سنگ میل ثابت ہوا ہے، مذکورہ فیصلہ سے ہمیں بے پناہ حوصلہ ملا ہے کیونکہ اس تاریخی فیصلہ سے ہمارے موقف کی بھی تائید ہوئی ہے۔ ہمیں اس بات کا نہ صرف احساس ہوا بلکہ یقین بھی ہوگیا کہ ہم اس ملک کی ایک زندہ جاوید زبان کی بقا کے لیے جو کوششیں کر رہے ہیں وہ حق بہ جانب ہیں اور ہماری جدوجہد رنگ لائے گی اور ہم یہ امید کرتے ہیں کہ اردو کو اس کا کھویا ہوا وقار واپس ملے گا۔ یہ امر بھی غور طلب ہے کہ آج ہندی کے فروغ کے لیے سرکاری سطح پر عوام کا کروڑوں روپیہ صرف ایک مہینہ ستمبر میں ’ہندی دِوَس‘ کے نام پر خرچ کردیا جاتا ہے جبکہ اردو جو ہماری گنگا جمنی تہذیب کی علامت ہے اس کو حکومت مسلسل نظر انداز کر رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اردو ادارے قومی ترانہ ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ کے تخلیق کار شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کے یوم پیدائش ۹؍ نومبر کو یوم اردو کیوں نہیں مناتے؟ جبکہ ابھی 15 ستمبر 2014 کو عزت مآب نائب صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر محمد حامد انصاری نے اپنی رہائش گاہ پر ماہر اقبالیات پروفیسر امریٹس دہلی یونیورسٹی ڈاکٹر عبدالحق کی کتاب کا اجرا کرتے ہوئے برجستہ فرمایا کہ ’ ہندوستان میں علامہ اقبالؒ کو سیاست کی وجہ سے نظر انداز کیا گیا۔ اُن کا فلسفہ اور شاعری آج بھی معنویت رکھتی ہیں۔‘ ایسی صورت میں میری آپ سبھی ذمہ داروں سے مؤدبانہ اپیل ہے کہ ۹؍ نومبر کو مضمون نگاری، مشاعرہ، سیمینار، کنونشن اور مذاکرہ وغیرہ کی شکل میں یوم اردو کا اہتمام کریں اور عالمی یوم اردو کا حصہ بنیں اور متحد ہوکر اردو کے خلاف ہورہی ناانصافی و سازش کو ناکام بنائیں اور اردو کے فروغ کے لیے ہمیشہ کمربستہ رہیں اور یہ عہد کریں کہ ہم اپنے بچوں اور دوسری قوموں کے بچوں کو اردو کی تعلیم کے لیے سرگرم رہیں گے تاکہ اُس ذہنیت کا خاتمہ ہوسکے کہ اردو کی تعلیم سے ترقی کے مواقع نہیں ہیں اور اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے۔ اﷲ نیک مقاصد کی تکمیل میں ہماری مدد فرمائے۔ آمین!‘‘
Syyed Mansoor Agha
About the Author: Syyed Mansoor Agha Read More Articles by Syyed Mansoor Agha: 226 Articles with 163512 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.