مونچھ مردوں کا عالمی ورثہ ہے۔ قدامت پرست آج بھی "مْچھ
منے" (بغیر مونچھوں والے) کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔۔ بلکہ پرانے لوگ
کہتے تھے کہ ہندوستان کے بعض علاقوں میں اگر شوہر کی مونچھ نہ ہو تو خاتون
گھر میں گھسنے نہیں دیتیں۔مونچھوں میں عالمی شہرت ہندوستان سے تعلق رکھنے
والے 60 سالہ بادام سنگھ گجر کی ہے۔ جو دنیا میں سب سے بڑی مونچھیں رکھتے
ہیں۔۔ تقریبا ساڑھے بارہ فٹ لمبی مونچھیں ہیں جو 22 سالوں سے قینچی سے
محروم ہیں۔ برصغیر کے مرد تاریخی طور پر مونچھ کو اپنی مردانہ شان کا لازمی
حصہ قرار دیتے رہے ہیں لیکن بھارت میں منعقد کئے جانے والے مونچھ میلے میں
نظر آنے والی مونچھیں تو کسی حیرتناک عجوبے سے کم نہیں۔
|
|
ریاست راجھستان کی جھیل پشکر کے کنارے ہر سال ایک میلہ مویشیاں منعقد کیا
جاتا ہے جس میں مقابلہ حسنِ مونچھ کا بھی خصوصی اہتمام ہوتا ہے۔ اس مقابلے
میں حصہ لینے والے مردوں کی مونچھیں کوئی عام مونچھیں ہرگز نہیں ہیں بلکہ
انہیں دیکھ کر یوں لگتا ہے گویا کئی فٹ لمبی رسیاں ہوں۔مقابلے کیلئے آنے
والے اپنی مونچھوں کو گچھوں کی صورت میں لپیٹ کر آتے ہیں لیکن جب یہ
مونچھیں کھلتی ہیں تو زمین کو چھونے لگتی ہیں۔شرکاء اس مقابلے میں شرکت
کیلئے کئی کئی سال تک مونچھوں کی پرورش کرتے ہیں اور پھر میلے میں آکر
حاضرین سے اپنی محنت کی داد پاتے ہیں۔
اس سال میلے میں 3 لاکھ سے زائد لوگوں نے شرکت کی اور اگرچہ اس موقع پر
لاکھوں جانوروں کی خریدوفروخت ہوئی، کھیلوں کے مقابلوں اور اونٹ دوڑ کا
اہتمام کیا گیا لیکن لمبی مونچھوں کے مقابلے نے سب سے زیادہ توجہ اور
مقبولیت حاصل کی۔ ریاست راجستھان میں مونچھیں کبھی بہادروں کی شخصیت کا اہم
حصہ ہوا کرتی تھیں، اب روزگار کے حصول کے لیے بھی اہم ہو گئی ہیں۔ پرانے
زمانے میں مونچھوں کی اس قدر اہمیت تھی کہ مونچھوں پر محاورے بنے اور مردوں
کی محفل میں مونچھوں کا ذکر اس طرح ہوتا تھا جیسے وہ مردانگی اور جواں مردی
کی علامت ہوں۔ مونچھ پر پچاس روپے الاؤنس مقابل داڑھی اب راجستھان میں
مونچھیں سیاحت اور علاقے میں روزگار کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں۔
|
|
فائیو سٹار ہوٹلوں میں دربان کی نوکری کے لیے گھنی اور لمبی مونچھیں کسی
ڈگری یا ڈپلومہ کی طرح روزگار حاصل کرنے میں کارآمد ثابت ہو رہی ہیں۔ کچھ
بڑے ہوٹل اپنے مونچھ دربانوں کو ماہانہ ’مونچھ بھتہ‘ بھی دیتے ہیں۔ دور
صحرا میں گونجتی گیت اور موسیقی کی آواز، رنگ برنگے ملبوسات اور خوبصورت
قلعے محلوں کے درمیان جب کوئی سیاح کسی ہوٹل میں داخل ہوتا ہے تو شاہی
انداز میں اس کا استقبال کیا جاتا ہے۔ سیاح سلامی دیتے بڑی بڑی مونچھوں
والے دربانوں کو یوں دیکھتے ہیں جیسے ان میں تاریخ کی جھلک نظر آ رہی ہو۔
لمبے لمبے تڑنگے سرجت سنگھ پہلے فوج میں تھے، اب جے پور کے ایک پانچ سٹار
ہوٹل میں دربان ہیں۔ انہیں اپنی رعبدار مونچھوں پر تاؤ دینے کے عوض بھتہ
ملتا ہے۔ "یہ تو راجستھان کی ثقافت ہے، پھر غیر ملکی انھیں دیکھ کر بڑے خوش
ہوتے ہیں، ہمارے ساتھ تصویر کھنچواتے ہیں۔ جو فائیو سٹار ہوٹل ہیں، ان میں
گھنی مونچھ والوں کو ہی ملازم میں رکھا جاتا ہے، اس لیے مونچھیں ہمارے لیے
ڈگری کی طرح ہیں" کلیان گورجر اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے سرجت کہتے
ہیں’ان مونچھوں کو بڑے جتن سے رکھنا پڑتا ہے۔ مونچھوں کی مساج کرنی پڑتی ہے،
شیمپو سے دھونا پڑتا ہے۔
ان کی حفاظت کے لیے گھر پر مونچھ پٹی باندھنی پڑتی ہے۔ روز ایک گھنٹے تک
گھر پر ان کی دیکھ بھال کرتا ہوں۔ ٹورسٹ انہیں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور
کئی بار انعام بھی دیتے ہیں، یہ ہماری ثقافت کی شناخت ہے‘۔ سرجت کو اپنی
مونچھوں کی دیکھ بھال کے لیے ہر ماہ تقریباً پانچ سو روپے اضافی ملتے ہیں۔
جے پور میں راجپوتانا شریٹن ہوٹل کے چیف مینیجر سونیل گپتا بتاتے ہیں ’ہوٹل
کی صنعت میں مونچھ والے دربان کی خاصی اہمیت ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم اپنے
دربان کو مونچھوں کے لیے ماہانہ اضافی پیسے دیتے ہیں تاکہ وہ اپنی مونچھوں
کی ٹھیک سے دیکھ بھال کر سکیں اور کوئی دقت نہ ہو‘۔ انہوں نے کہا ’دراصل
دربان کی شخصیت میں اس کا قد کاٹھ اور مونچھیں اہم ہوتی ہیں۔ جتنی بڑی اور
گھنی مونچھیں ہوں گی، وہ اتنا ہی پر کشش لگے گا۔ ہوٹل میں داخل ہونے والے
دروازے پر کھڑے ایسے کی شخصیت سے ہوٹل کے معیار کا پتہ چلتا ہے کہ یہ بڑا
ہوٹل ہے۔
|
|
جب ہم کسی دربان کی تقرری کرتے ہیں تو ان سب پہلوؤں کو دیکھتے ہیں۔ اس میں
ان کی صورت شکل کے ساتھ مونچھ بھی شامل ہے‘۔ گورجر کہتے ہیں مونچھیں ہمارے
کلچر کا حصہ ہیں سونیل گپتا کے مطابق ’راجستھان جسے پرانے دور میں
راجپوتانہ کہا جاتا تھا، اس کی شان مونچھیں رہی ہیں۔ہوٹلوں پر تعینات دربان
گھی، شیمپو اور ملتانی مٹی سے اپنی مونچھوں کو شاداب رکھتے ہیں کیونکہ جتنی
شاداب مونچھیں ہوں گی اتنے ہی زیادہ روزگار کے مواقع ہوں گے‘۔ اجمیر ضلع
میں بیاور کے کلیان گورجر کے رعب دار چہرے پر اعلی قسم کی مونچھوں نے انھیں
ایک بڑے ہوٹل میں دربان کی نوکری دلانے میں بڑی کی مدد کی۔ جو فائیو سٹار
ہوٹل ہیں، ان میں گھنی مونچھ والوں کو ہی ملازمت میں رکھا جاتا ہے، اس لیے
مونچھیں ہمارے لیے ڈگری کی طرح ہیں‘۔ راجستھان میں حالیہ سالوں میں سیاحت
کی صنعت کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ محکمہ سیاحت کے مطابق ہر سال کوئی دو کروڑ سے
زیادہ سیاح راجستھان آتے ہیں۔ ان میں پندرہ لاکھ غیر ملکی بھی ہوتے ہیں۔
اسی لیے ہوٹلوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
سیاحت کے ماہر سنجے کوشک مونچھوں کی اہمیت پر کہتے ہیں ’راجستھان میں مونچھ
آن بان اور شان کا حصہ رہی ہے۔ اسے مردانگی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور
شخصیت مزید پر کشش بن جاتی ہے۔ مونچھوں سے محبت برصغیر میں ہی نہیں دنیا کے
اور ملکوں میں بھی ہوتی ہے۔ برطانیہ میں بھی مونچھوں کے میلے اور مقابلے
ہوتے ہیں۔ یہ تو سب مانتے ہیں کہ مونچھ مرد کی شان ہوتی ہے لیکن اتنی بڑی
شان والے آپ نے کم ہی دیکھے ہوں گے اور اس شان کی اچھل اچھل کر نمائش
برطانوی کلب کے ارکان کراتے ہیں۔ مشرقی برطانیہ کے کلب میں مونچھوں کا
مقابلہ دیکھنے کیلئے ہزاروں افراد ٓآتے ہیں۔ مقابلہ دیکھنے کے لئے آنے والے
شائقین نے ہر ایک مچھڑ کو کھل کر داد دیتے ہیں۔ مقابلے میں کئی قسم کی
کیٹیگریز ہوتی ہیں۔ ، قدرتی لمبی مونچھیں، قدرتی گھنی مونچھیں، لمبی داڑھی
جو خود سے اگ آئی ہو یا وہ جو محنت کرکے اگائی گئی ہو۔ اس بار میلہ تو تین
پنکھ والے مچھر کی مونچھ نے لوٹ لیا۔
برطانوی کلب میں لمبی مونچھوں اور داڑھی والوں کے درمیان یہ مقابلہ پینسٹھ
سال سے ہو رہا ہے ۔ ادھر امریکہ والے بھی مونچھ کے دیوانے تو ہیں لیکن نقلی
مونچھ کے۔ گزشتہ دنوں (مشی گن)امریکا میں پندرہ سو چوالیس افراد نے اکھٹے
نقلی مونچھیں لگانے کا عالمی ریکارڈ بنایا۔امریکی ریاست مشی گن میں سالانہ
ہنسی میلے کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ جس میں سیکڑوں افراد شریک ہوتے ہیں۔ اس
بار پندرہ سو چوالیس افراد نے نقلی مونچھیں لگانے کا نیا ورلڈ ریکارڈ بنا
لیا۔
|
|
عالمی ریکارڈ بنانے کے لئے ننھے بچے بھی پیش پیش تھے،نقلی مونچھیں لگانے کا
پہلا ریکارڈ بھی امریکا کے پاس ہی ہے،جب سینٹ لوئس میں چھ سو اڑتالیس افراد
نے ایک جگہ جمع ہو کر نقلی مونچھیں لگائیں۔ جرمنی والے کیوں کسی سے پیچھے
رہیں ۔ اس لیئے وہ بھی مونچھوں کی چیمپئین شپ مقابلے کراتے ہیں۔ جرمنی کے
قصبےPforzheim میں داڑھی مونچھوں کی سالانہ بین الاقوامی چمپئن شپ کا
انعقاد کیا جاتا ہے۔ جس میں عجیب و غریب انداز اور منفرد ہیت کی داڑھی
مونچھوں کے حامل سینکڑوں افراد حصہ لیتے ہیں۔ 18 کیٹیگریز پر مشتمل اس
چمپئن شپ میں انوکھی،قدرتی اور فری اسٹائل کے مقابلوں میں شامل شرکاء
سنواری ہوئی مختلف انداز سے آراستہ اور بلو ڈرائی کی ہوئی داڑھی مونچھوں کی
نمائش کرتے ہیں۔ جنہیں کئی ججوں پر مشتمل ٹیم کی جانب سے نمبر ز دیے جاتے
ہیں۔ مقا بلے میں شریک افراد کا کہتے ہیں کہ دا ڑھی اور مو نچھو ں کو بڑھا
نا سر کے با ل بڑھانے سے زیادہ مشکل ہے اور ان میں بھی باقاعدہ شیمپو اور
کنگھا کر نا شامل ہے۔ |