ملک کی زبوں حالی ، اور میڈیا کی ذمہ داری

قوم کی صحیح سمت کا اندازہ افراد کی درست سمت سے ہوتا ہے، قوم بنانے سے پہلے افراد بنائے جاتے ہیں اورافراد کے بننے میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ حکومت وقت اورذارئع ابلاغ کی اہمیت مسلم ہے۔ دونوں عوامل کی باہم اثر انگیزی انسانی معاشرے کی بقا اور تعمیر و ترقی میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔جبکہ دونوں عوامل کا منفی کردار افراد و قوم کے بگاڑ کا اولین سبب ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جن افراد یا قوموں کو سمبھالا گیا وہ آ ج دنیا میں زندہ و جاوید قوموں کی فہرست میں صف اول پر ہیں اور جنہیں نظر انداز کیا گیا وہاں خانہ جنگی اور جنگ و جدل کے ساتھ ساتھ غیر اخلاقی برائیوں نے جنم لیا۔ اسی قسم کی کیفیت کچھ ہمارے یہاں بھی ہے۔14اگست1947 ء کو نظریے کی بنیاد اور لا زوال قربانیوں کے بعد پاکستان دنیا کے نقشے پر طلوع ہوا۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح حصول کے ابتدائی سال میں انتقال فرما گئے۔ملک ابھی نشو نماء کے ابتدائی مراحل میں ہی تھا کہ تحریک پاکستان کے سرگرم کردار اور پہلے وزیر اعظم پاکستان نواب زادہ لیاقت علی خان کو لیاقت باغ راولپنڈی میں ایک جلسے کے دوران گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔اگر چہ سیکورٹی اداروں کی جانب سے گولی مارنے والے شخص کو بھی آن دی سپاٹ ہلاک کر دیا گیا تھا مگر نوزائدہ مملکت اور اسکے باسیوں کے خلاف سازش کا یہ باقائدہ آغاز تھا۔لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ملک میں آنے والی قیادت نے ملک وقوم کی تعمیر و ترقی کوپس پشت ڈال کر اقتدار کو اولین ترجیح دی جسے کے نتیجے میں ملک میں الیکشن کی بجائے سلیکشن ہوتا رہا اورادارے تباہ ہوتے رہے جس کی وجہ سے قوم صحیح سمت نہ ملنے کے باعث بجائے بننے کے ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہی اور حکمران اپنے اقتدار کی کھینچا تانی میں قوم کو روندتے ہوئے آگے نکلتے رہے۔یہی بنیادی وجہ ہے کہ آج یہ طبقہ اقتدار ہوس اور مراعات میں بہت آگے ہے اور قوم بہت پیچھے رہ گئی ہے۔

برسوں پہلے مرتب کئے گئے ضابطوں پر حکمران آج اسی طرح کاربند ہیں اور انکی اقتدارکی ہوس آج بھی اسی جوبن کے ساتھ قائم ہے جبکہ اقدار کا حصول تاحال ناپید ہے ، یہی وجہ ہے کہ پہلے سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار قوم اب مذید عدم توجہی کی طرف بڑہ رہی ہے جبکہ حکمران اور ادارے ملک کی بااثر طاقت کے طور پر اپنے اپنے مفادات کی جنگ میں مصروف ہیں۔ ملک کے ساتھ کیا ہورہاہے ،قوم کس طرف جارہی ہے، ہم آئندہ نسل کو کیا دینے جا رہے ہیں اسکی کسی کو فکر نہیں ہے۔چھیاسٹھ برس سے بکھری قوم کو آج بھی یکجا کرنے یا سمیٹنے کے اقدامات نہیں کئے جارہے۔ریاست کا بااثر ستون اوردور حاضر کی بااثر طاقت میڈیا جسکا قوم بنانے میں خاطر خواہ کردار ہوسکتا ہے، بھی اپنی ریٹنگ کیلئے قوم کو دوسروں کے غیر اخلاقی کلچر میں دھکیل ر ہے ہیں۔ مارننگ شو سے لیکر نیوز بلیٹن تک ، بچوں کے پروگرامز سے لیکر ڈراموں تک سب پاکستانیت کی بجائے غیرملکی تہذیب سے متاثرہ دکھائی دیتے ہیں اور عوام جب یہ سب کچھ صبح سے رات تک دیکھتے ہیں تو اسکے اثرات سے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں۔غریب کی جھونپڑی سے لیکر محلات تک سب اپنی اپنی حیثیت اور پہنچ کے مطابق مغربی تہذیب اور غیروں کی ثقافت کے متاثرین ہیں۔ شادی بیاہ کی تقریب سے لیکر خالصتاً مذہبی تہوار وں تک بھی غیر تہذیبی اثر نمایاں ہے۔ سرکاری یا نجی سطح پر کوئی تقریب ہو، سیمینار ہو یا ثقافتی شو، تہذیبی اقدار کے نام پررقص وسرور کی محافل کا انعقاد لازمی امر ہے۔جس پرملک کے نام نہاد دانشور اور روشن خیال طبقہ دوسروں کی گندی و کھوکھلی تہذیب میں سانس لینا فخر سمجھتے ہیں۔

دوسری جانب گزشتہ چھیاسٹھ برسوں میں فرقہ واریت،لسانیت اور اقربا پروری،کا بیج اس سلیقے سے بویا گیا ہے کہ کہ آج ہر کوئی ان مذکورہ حدود میں مقید ہے۔ ہر فرد کی سوچ میں فرقہ واریت، لسانیت اور قومیت اتنی رچ بس چکی ہے کہ کوئی ان حدود سے باہر آنے کو تیار نہیں۔اور ان تمام عوامل میں انتہا پسندی لازمی امر ہو چکا ہے کوئی مذہبی ہے تو انتہا کا مذہبی اور کوئی لبرل ہے تو انتہا کا لبرل۔لبرل ادارے مسٹر پیدا کر رہے ہیں اور مذہبی ادارے مولوی۔ پھراپنے اپنے اداروں کی بھٹی میں پک کر یہ افراد اتنے راسخ العقیدہ بنا دیے جاتے ہیں یا انکی ذہن سازی اس طریقے سے کی جاتی ہے کہ مسٹر اپنے حریف مولوی کو قبول نہیں کرتا اور مولوی مسٹر کو برداشت نہیں کرپاتے۔ یہی حال قومیت کا ہے۔سندھی، پنجابی، سرائیکی،ہزارہ، پشتون اور اْردو بولنے سب علیحدہ علیحدہ پہچان کو قابل فخر جانتے ہیں۔ کوئی خود کو مہاجر کہتا ہے تو کوئی مقامی۔ ہر قوم دوسری قومیت سے نہ صرف فاصلہ رکھتی ہے بلکہ ایک دوسرے کے خلاف سوچتے ہیں۔
اور یہ سب کچھ ان مذہبی و سیاسی جماعتوں کی مہربانی ہے جنکا وجود افراد کے درمیان اسی فرق سے قائم ہے اور یہی فرق ان جماعتوں کے زندہ رہنے کی بڑی وجہ ہے۔کیو نکہ یہ فرق اگر ختم ہو جاتا ہے تو اس کی بنیاد پر سانس لینے والے تمام جماعتیں دم توڑ دیں گی جوکہ ایسا وہ کبھی ہونے نہیں دیتیں۔بظاہر یہ تمام جماعتیں اپنے آپکو قومی دھارے کی جماعتیں گردانتی ہیں جبکہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ جب کبھی بھی ان جماعتوں پر کوئی مشکل وقت آتا ہے یا کسی مسئلے کا شکار ہوتی ہیں تو یہ تمام جماعتیں نام نہاد قومی جماعت کے خول سے فوری باہر نکل آتی ہیں اور اپنا اصلی مذہبی یا لسانی کارڈ بھر پور طریقے سے استعمال کرتی ہیں۔اوراس میں دو رائے نہیں کہ جس دن ان جماعتوں کا عوام میں قائم کردہ یہ فرق ختم ہوگا اس دن کوئی کوئی مولوی اور کوئی مسٹر باقی نہیں بچے گا۔ کوئی سندھی اور کوئی اردو اسپیکنگ نہیں رہے گا۔ کوئی پنجابی اورسرائیکی نہیں ہوگا اور کوئی ہزارہ یا پشتون نہیں رہے گا،بلکہ اس دن انکی پہچان صرف اور صرف ایک پاکستانی کی حیثیت سے ہوگی۔

عوام کے درمیان قائم کردہ اسی فرق کی بنا پر آج ملک کا ہر فرد دوسرے فرد سے کھچاؤ میں مبتلاہے۔ ایک علاقہ یا قبیلہ دوسرے علاقے یا قبیلے سے الجھا ہوا ہے اور ایک دوسرے کیخلاف اپنا حق چھینے جانے کا شکوہ کرتے ہیں۔دوسری جانب ہر شہری کو حکومت و حکومتی اداروں سے اورحکومت و حکومتی اداروں کو شہریوں سے، عو ام کو پولیس سے اور پولیس کو عوام سے کسی نہ کسی مسئلے پرایک دوسرے سے زیادتی کی شکایت رہتی ہے۔ ریاستی ادارے حکومت سے نالاں ہیں تو حکومت اداروں کی حدود کا شکوہ کرتی ہے۔ یعنی ہر کوئی تناؤکی سی کیفیت سے دوچار ہے۔کرپشن کا یہ حال ہے کہ ملک کے چپڑاسی سے لیکر اقتدار عالیٰ تک سب کرپشن کے بیمار نظر آتے ہیں۔ سرکاری دفاتر میں چپڑاسی سے لیکر افسران تک اول تو آفس آنا گوارہ نہیں کرتے اگر آ بھی جائیں تو محنت اور زمہ داری سے کام نہیں کرتے۔ اگر کسی کا کام کرنا بھی پڑتا ہے تو اسکے الگ سے پیسے ہوتے ہیں کیونکہ تنخواہ تو صرف آفس آنے کی ہوتی ہے کام کرنے کی نہیں۔ صحت جیسے حساس شعبے کی یہ حالت ہے کہ ڈاکٹرز اسپتالوں میں کم اپنی پرئیویٹ کلینکس میں زیادہ دستیاب ہوتے ہیں اور میڈیسنز ان کمپنیوں کی تجویز کرتے ہیں جوگاڑی سے لیکر بیرون ملک کی سیر تک کا انکے لئے انتظام کرتی ہیں۔ اسطرح انہیں دوائیوں کی معیار اوراثرات کے برعکس اپنے کمیشن سے غرض ہوتا ہے۔ تعلیمی اداروں کا یہ حال ہے کہ یہاں اساتذہ کی عدم دستیابی کی بنا پرپڑھائی کم شادی بیاہ کی تقریبات زیادہ ہوتی ہیں۔سرکاری صحت اور تعلیم کی اسی زبوں حالی کی بنا پر ہر شخص پرائیویٹ تعلیمی اداروں اور اسپتالوں پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔

حکومت کا کام ملک کیلئے سود مند قوانین بنانا اور ابلاغ کا کام قوم کی ذہن سازی کرنا اور غلط صحیح کی نشاندہی کرنا ہے۔آغاز ہی میں اقتدار کی بجائے قوم بنائی گئی ہوتی تو ملک صحیح سمت میں گامزن ہوتا اور ملکی ادارے مظبوط ہوتے۔قوانین پر عمل درآمد ہوتا اور مہذب معاشرہ بنتا۔طالبان کا خاتمہ ہو یا دہشتگردی کی روک تھام۔ کرپشن سے چھٹکارہ ہو یا اخلاقیات کا تحفظ، کتنے ہی طاقتور آپریشن کر لیں یا جدید قوانین ہی کیوں نہ بنالیے جائیں، قوم کو سمیٹے بغیر اور اسکی راہ کا صحیح تعین کئے بغیر ان کا تدارک کسی طور ممکن نہیں۔ اسکے لئے ضروری ہے کہ حکمران اور آج کی اثر انگیز طاقت ا بلاغ باہمی سوچ کے ساتھ ملک و قوم کو اپنی پہلی ترجیح سمجھ کر اپنا بھر پور کردار ادا کرتے ہوئے معاشرے کی از سر نو نشودنماء کریں۔اسطر ح سے قوم بھی بن جائے گی ،ملک بھی بچ جائے گا اور تہذیب بھی رہ جائے گی اور اگرملک میں پائی جانے والی تمام تر خرافات پر حکومت کی عدم توجہی اور میڈیا کی لاتعلقی جاری رہی تو ہم اسی حال میں رہیں گے۔بلا شبہ پاکستان کا مضبوط ترین چوتھا ستون میڈیا پاکستان اور پاکستان کے عوام کی اخلاقی تربیت کا فریضہ سرانجام دے کر ان کو درست سمت پر گامزن کر سکتا ہے۔
Rana Aijaz Hussain
About the Author: Rana Aijaz Hussain Read More Articles by Rana Aijaz Hussain: 1004 Articles with 816768 views Journalist and Columnist.. View More