ہوگی بھئی ہوگی اب یہ قوم متحد ہوگی!
(Chohdury Fateh Ullah Nawaz, )
سانحہ واہگہ کے بعد بارڈر پر تعینات فورسز اور دیگر متعلقہ ادارے یہ توقع
کررہے تھے کہ شاید آج (بم دھماکہ کے اگلے روز) پرچم کشائی کی تقریب
کودیکھنے کے لئے (سویلین) نا آئیں یا اگر آئیں گے بھی تو کم تعداد میں مگر
وہ پاکستانی نہیں ہوسکتا جو کہ خطروں سے ڈر گیا یا دہشت گردوں کے مذموم
عظائم کے آگے خود کو سرنڈر کردے اور اپنے گھر تک ہی محدو د ہوکر بیٹھ جائے
آناً فانناً واہگہ بارڈر پر لوگوں کی اتنی بڑی تعداد پہنچ گئی جتنا زیادہ
ہجوم عموماً پاکستان کے خاص قومی و مذہبی ایام میں دیکھنے کو ملتاہے وہ جگہ
یہاں پر چوبیس گھنٹے قبل دہشت گردی کی کاروائی میں 59قیمتی جانیں ضائع
ہوگئیں وہاں ایک بار پھر بغیر کسی خوف وخطر کے لوگ پاکستان زندہ باد افواجِ
پاک زندہ باد کے فلک شگاف نعروں کے ساتھ آگئے جس غیر متوقع ہجوم کو دیکھ کر
بارڈر پر تعینات ہمارے اداروں کے اہلکاروں کے حوصلے مذید مضبوط ہوئے پرچم
کشائی کی اِس منفرد اور تاریخی تقریب کے دوران ہمسایہ ملک ہندوستان کی جانب
جیسے سانپ سونگ چکا تھا صرف بارڈر پر موجود بامجبوری تعینات بھارتی اہلکار
ہی تھے انہیں دیکھنے کے لئے کوئی بھی نہیں تھا گویا کہ بھارتی بھی یہ یقین
کرچکے تھے کہ کل تو یہاں بم دھماکہ ہوا ہے آج اِدھر کون آئے گا مگر بھارتی
شاید 1965ء کے پاکستانیوں کے بے مثال جزبہ وولولہ کو فراموش کرچکے تھے کہ
جب بلا ضرورت بھی عام لوگوں کی اتنی بڑی تعداد بارڈر پر افواجِ پاک کی
امداد کے لئے پہنچ گئی جس کو بڑی مشکل سے افواج نے روکا اِ س یقین دلانے کے
ساتھ کہ اگر آپ( عوام) کی ضرورت محسوس ہوئی تو آپ لوگوں کو ضرور وطن کی
حفاظت کے لئے بلایا جائے گا۔سانحہ واہگہ کی زمہ داری مختلف دہشت گرد تنظیوں
نے قبول کی اور یقیناً دہشت گرد بھی یہ اندازہ کررہے تھے کہ آج کوئی بھی
بارڈر پر پرچم کشائی کی تقریب نہیں دیکھنے آئے گا مگر دہشت گردوں کو شکست
ہوئی اور عوام نے بھرپور جوش وجزبہ کا اظہار کیا اور واہگہ پر پہنچ
گئی۔بابائے قوم نے قوم کو الگ ملک کی افادیت بارے آگاہ کیا تو وہ لوگ جو
بابائے قوم کی باتوں کو محض ایک خواب کا نام دیتے رہے کہ یہ کبھی بھی نہیں
ہوسکتا مگر بابائے قوم ایک قوم بنانے میں کامیاب ہوئے تو الگ ملک کی سوچ
اور کامیابی اِن کے قدم چومتی ہوئی دوڑی آئی کئی اور انتہائی مشکلات کے
باوجود بھی ارضِ پاک کی صورت میں وجود میں آگیا۔ اکثر وبیشتر ایسے واقعات
کا اِس قوم کو سامنا کرنا پڑا کہ جو کسی بڑے امتحان سے کم نا تھے مگر جب جب
اِس ملک کی عوام ایک قوم بنی تو مسائل کو ہی مات ہوئی 1965ء کی پاک بھارت
جنگ ہو یا قیامت خیز زلزلہ ، سیلاب کی بے رحم لہریں ہوں یا بھتہ خوروں کے
مذموم مقاصد یا پھر دہشت گردوں کی پے در پے دہشت گردی کی کاروائیاں کہ عوام
مرنے کے ڈر سے گھروں سے ہی باہر نانکلے مگر جب بھی ملک کی عوام ایک قوم بنی
ہے مسائل کا قوم کے آگے لگ کر بھاگنے کا پتہ ہی نہیں چلا ہمارا المیہ یہ ہے
کہ ہم لوگ کسی امتحان کے سرپر پڑنے سے قبل ایک متحد اور منظم قوم کے سانچے
میں نہیں ڈھلتے یہی وجہ ہے کہ ملک دشمن عناصر ہم پر (ہاوی )ہوتے ہیں مگر
عارضی طور پر ۔کیونکہ جب یہ عوام قوم کے سانچے میں ڈھل جائے تو بس پھر کسی
بھی ملک دشمن کی خیر نہیں اب مسئلہ یہ ہے کہ ایک متحد قوم بنانے کے لئے
ہمارے پاس لیڈر شپ کا فقدان ہے اور ہماری بد قسمتی میں چھپی خوش فہمی بھی
یہ ہے کہ ہم لوگ صرف اور صرف سیاستدانوں کی صورت میں ہی کسی لیڈر کے نمودار
ہونے کی ٹھان چکے ہیں جو کہ سرا سر غلط ترین امر ہے اِس لیئے کہ ہمارے حصہ
جو سیاستدان آئے ہیں وہ سب کے سب ہی مفاد پرست ہیں اور ملکی مفادات پر زاتی
فائدوں کو ناصرف ترجیح دیتے ہیں بلکہ اِس پر کارفرما بھی ہیں اپنے مطالبات
نا مانے جانے پر ڈھائی ماہ تک دھرنا شو کیا جاسکتا ہے مگر ملکی مسائل کے حل
کی طرف کوئی توجہ نہیں ،لمبی چوڑی تقریریں کرنے میں ملک میں انقلاب آنا
چھپا ہے مگر دہشت گردوں کو رائے راست پر لانے اور غیر شرعی و غیر اسلامی
مقاصد کے حصول سے باز رہنے سے بات بھی نہیں کرنا پسند کی اِس ڈر سے کہ دہشت
گرد اِن کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں نالائیں مگر عوام یہ یاد رکھے اور اﷲ
تعالیٰ کے بعد وطنِ عزیز میں رہتے ہوئے افواجِ پا ک اور اِس کے متعلقہ دیگر
اداروں کی مشکور ہونے کے ساتھ ساتھ اِن پر فخر کرے کہ جب بھی ہمیں اِن کی
ضرورت پڑی اِن لوگوں نے اپنے سکون پر عوام کے سکون کو ترجیح دی اور یہ سکون
ہمیں دلوانے کے لئے ہمیشہ خطروں سے کھیلے ،اب بھی اگر ہم مسائل کو حل کرنا
چاہتے ہیں تو آپس کے تمام اختلافات کو پس پشت ڈال کر فرقہ پرستی سے باہر
نکل کر برادریوں کے چنگل سے آزاد ہوکر ایک بٹی ہوئی عوام کی بجائے ایک متحد
قوم بن جائیں تو میں یہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ مسائل اِس ملک کی کبھی راہ
تک نہیں دیکھیں گے مگر عوام کو ایک متحد قوم بننے کی ضرورت ہے مگرجو کوئی
یہ بات کرتا ہے مفاد پرست ایک مخصوص ٹولا اُسے احمق اور بے وقوف تصور کرتا
ہے اور قوم کے اتفاق واتحاد کی باتوں کو محض ہنسی مذاق میں ٹالتا ہے اِس
یقین کے ساتھ کہ ایسا کبھی بھی نہیں ہوسکتا کہ اب یہ عوام ایک قوم بن جائے
کیونکہ مسائل ہی اتنے پیدا ہوچکے ہیں کہ عوام اُن کو حل کرتے کرتے ہی تھک
ہار کر دفن گور ہوجائے گی مگر مفاد پرستوں ،وڈیروں ،جاگیرداروں ،سیاستدانوں
کو یہ کبھی بھی نہیں بھولنا چائیے کہ اب انشاء اﷲ یہ عوام ایک قوم میں ضرور
بدلے گی کیونکہ اِس قوم کا ماضی گواہ ہے کہ جب بھی اِس قوم پر مشکل کی کوئی
گھڑی آئی ہے یہ عوام ایک قوم میں ڈھلی ہے اُس متحد قوم میں کہ جس نے پھر
مسائل کو جڑ ھ سے اکھاڑ باہر کیا ۔اﷲ ہم سب کا حامی وناصر! |
|