ماحولیاتی آلودگی کے بد اثرات
(Lala Sana Ullah Bhatti, )
انسانی صحت اور بقاء کیلئے کھلی فضاء اور صاف ہوا میں سانس لینا بہت ضروری
ہے لیکن اس ترقی یافتہ اور سائنٹیفک دور میں انسان کو نہ تو صاف ہوا میسر
ہے اور نہ ہی کھلی فضاء میسر ہے۔ اس جدید ترین دور میں بنی نوعِ انسان
آلودہ ہوا میں سانس لینے اور آلودہ پانی پینے پر مجبور ہے۔ اس آلودہ ہوا
اور آلودہ پانی کی وجہ سے انسانی جسم بیشمار بیماریوں کا شکار ہورہا ہے۔
بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ فضائی آلودگی ہے جو ایک صحت
مند معاشرے کی تشکیل میں بڑی رکاوٹ بن رہی ہے۔
جب مختلف اقسام کی اشیاء اور کچرے کوتلف کرنے کی نیت سے جلایا جاتا ہے تو
ان سے خارج ہونے والے دھویں کی وجہ سے فضائی آلودگی پیدا ہوتی ہے۔ اس دھویں
میں شامل زہریلی گیسیں اور ذرات فضاء میں شامل ہوکر فضائی آلودگی کا سبب
بنتے ہیں جس سے کینسرجیسی موذی بیماریاں اور پھیپھڑوں اور گلے کی پیچیدہ
بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ ماہرینِ ماحولیات نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے
انکشاف کیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے، کی بڑی
آبادی کوڑے کرکٹ کے ڈھیر کے پاس رہتی ہے جسکی وجہ سے مختلف اقسام کی ذہنی و
جسمانی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ تحقیق کے مطابق کچرے کے ڈھیروں سے بھی
انسانی صحت کیلئے مضر زہریلی گیسوں کا اخراج ہوتا ہے۔ پاکستان کی اکثر
آبادیاں بھی ان کچرے کے ڈھیروں کے قریب بسنے کی وجہ سے کافی متاثر ہورہی
ہیں۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں سڑکوں پر دوڑتی دھواں اڑاتی گاڑیاں بھی فضائی
آلودگی میں اضافے کا بڑا سبب ہیں۔ علاوہ ازیں موزوں مینٹیننس سے محروم
گاڑیاں بھی ماحولیاتی آلودگی کا بڑا سبب بنتی ہیں۔ پاکستان میں اکثریتی
سڑکوں کے ارد گرد اور درمیان میں سبزہ اور ماحول دوست پودوں کی کمی ہے،
جسکی وجہ سے پاکستان کا ماحول بھی بری طرح سے فضائی آلودگی کا شکار ہے۔
میسا چوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے وابستہ ماہرِ ماحولیات سٹیون بیرٹ کا
کہنا ہے کہ گذشتہ 5سے10برسوں کے اعدادوشمار سے ثابت ہے کہ شرح اموات میں
اضافے کی بڑی وجہ فضائی آلودگی ہے۔ دوسری جانب صنعتی پیداوار بھی متاثر
ہورہی ہے کیونکہ اکثر اشیاء کی تیاری میں مطلوب خام مال، زرعی شعبے سے حاصل
ہوتا ہے۔ آب و ہوا میں تبدیلی اور آلودگی کی وجہ سے دنیاء کی مجموعی
اقتصادی پیداوار میں بھی کافی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ مختلف صنعتوں اور
ٹرانسپورٹ سے خارج والے نائٹروجن اور کاربن کے مرکبات کے اخراج سے بھی
فضائی آلودگی میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق
موجودہ دور کی فضاء میں 1750ء کے نسبت 31%زیادہ کاربن ڈائی آکسائید جیسی
مہلک گیسیں موجود ہیں۔آلودگی کی اس خطرناک صورتحال کی وجہ سے انسانوں میں
پھیپھڑوں کی بیماریوں دمہ، ٹی بی اور الرجی میں اضافہ دیکھا رہا ہے۔
بجلی کی پیداوار کے چند ذرائع بھی فضائی آلودگی میں اہم کردار ادا کرہے
ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بجلی کی پیداوار کیلئے قدرتی ذرائع استعمال کیے
جائیں ۔ دنیا بھر میں دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اس حوالے سے
اقدامات کیے جارہے ہیں۔ امریکی ادارے اوپیک کے تعاون سے سندھ میں جھمپیر
جھیل کے مقام پر ہوا سے بجلی پیدا کرنیوالے منصوبے پر کام کیا جارہا ہے۔
اسکے علاوہ پاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں گومل زاں ڈیم کے
ذریعے بجلی کی پیداوار پر بھی غور کیا جارہا ہے جو ماحول دوست اقدامات کی
کڑی ہے۔
آلودگی کی وجہ سے زراعت بھی متاثر ہورہی ہے اور خوراک کی قلت بھی روز بروز
بڑھتی جارہی ہے۔ فصلوں میں استعمال ہونیوالی کیڑے مار ادویات کی وجہ سے
زمینی پانی کے ساتھ ساتھ پینے کا پانی بھی آلودہ ہورہاہے۔کیمیائی کھادوں کے
استعمال کی وجہ سے زمینی پانی اور فصلوں میں جذب ہونیوالے نائٹریٹس ،
شیرخوار بچوں میں خون کی کمی کی مہلک بیماری(Methemoglobinemia)کا سبب بن
رہے ہیں۔ اس بیماری کو عام طور پر (Blue Baby Syndrome)بھی کہا جاتا ہے۔
کیڑے مارادویات اور کھادوں کے علاوہ مختلف انڈسٹریز کے فضلے میں شامل بھاری
دھاتیں مثلاََلیڈ، کیڈمیم ، سلینیم ، مرکری وغیرہ اور سیوریج کا گندہ پانی
بھی زیرِ زمین پانی میں شامل ہوکر نہ صرف اسے آلودہ بنا رہا ہے بلکہ ہماری
فصلوں اورزراعت کی صنعت کو بھی بھاری نقصان پہنچارہا ہے۔ اسکے علاوہ ان
فصلوں سے حاصل شدہ اناج بھوک مٹانے کی غرض سے جب انسانی معدے میں جاتا ہے
تو اس اناج میں شامل دھاتی اجزاء انسانی معدے، جگر اور گردوں کو شدید نقصان
دیتے ہیں۔ انسانی جسم میں ان اجزاء کی زیادتی کی وجہ سے قوتِ مدافعت بھی
شدید متاثر ہوتی ہے جسکی وجہ سے انسانوں میں بیشمار مختلف بیماریاں پھیلنے
کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ یہ خطرناک دھاتی ذرات انسانی دماغ کو بھی بری طرح
متاثر کرتے ہیں مثلاََ آلودہ پانی کے ذرات بچوں میں Mental Retardationکی
بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔
یو این او کے ایک ذیلی ادارے کے تحقیقی سروے کے مطابق دنیا میں ہر سال تیس
ملین افراد صرف فضائی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونیوالی بیماریوں کی وجہ سے
مرجاتے ہیں۔ اسکے علاوہ فضائی آلودگی کے سبب پیدا ہونیوالی تیزابی بارشوں
کی وجہ سے انسانوں ، جانوروں اور پودوں کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ
رہا ہے۔ ماہرین ِ ماحولیات کا کہنا ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی وجہ
سے گلوبل وارمنگ میں اضافہ ہورہا ہے جسکی وجہ سے روئے زمین پر پائے
جانیوالے تمام جانداروں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ عام تاثر ہے کہ گلوبل
وارمنگ کا بم ، جوہری بم سے بھی کئی گنا زیادہ خطرناک ہے۔ دیکھنے میں آیا
ہے کہ ماضی کی نسبت اب موسمِ گرما میں گرمی کی عمومی صورتحال شدید ہورہی ہے
جبکہ موسمِ سرما سکڑتا جا رہا ہے۔ موسمی تغیر کے باعث مختلف ممالک میں
طوفانی بارشوں ، سیلابی ریلوں اور سمندری طوفانوں سے ہونیوالے نقصانات میں
اضافہ ہورہا ہے۔ دنیا بھر میں کہیں قحط سالی سے لوگوں کا جینا حوام ہے اور
کہیں طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں نے انسانی زندگی کو خطرات میں گھیر
رکھا ہے۔ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج اور ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے عالمی
درجہء حرارت میں گذشتہ چند دہائیوں سے تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ناسا
انسٹیٹیوٹ آف سپیس سٹڈیز (Nasa Goddard Institute of Space Studies)کے
سربراہ James E Hansenکی دسمبر 2005ء میں شائع ہونیوالی تحقیقی رپورٹ کے
مطابق پچھلے تیس سال میں دنیا بھر کے درجہء حرارت میں ایک ڈگری فارن ہائیٹ
کا اضافہ ہوا ہے اور اگلی صدی تک یہ اضافہ مزید 4درجے تک بڑھ جائے گا۔ درجہ
ء حرارت میں اضافے کی وجہ سے قطبین پر موجود برف کی چوٹیاں اور گلیشیئرز
پگھل جائیں گے۔ ماہرین کے اندازے کے مطابق 2100ء تک سمندر کا لیول
9سے100سینٹی میٹر تک بڑھ جائے گا جس سے ساحلی شہر ڈوب جائیں گے۔
یہ سب حالات دراصل گلوبل وارمنگ کا نتیجہ ہیں۔ ماہرینِ ماحولیات کے مطابق
گرین ہاؤس گیسوں میتھین، نائٹرس آکسائیڈ، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور
کلوروفلورو کاربنز کے اخراج کی وجہ سے اوزون کی حفاظتی تہہ کو بھی شدید
نقصان پہنچ رہا ہے۔ اوزون کی حفاظتی تہہ سورج کی نقصان دہ شعاعوں کو زمین
پر پہنچنے روکنے کیلئے قدرت ڈھال کا کام کرتی ہے۔ فضائی آلودگی میں اضافے
کی وجہ سے اوزون کی حفاظتی تہہ کونقصان پہنچنے کے سبب مختلف تباہ کن شعاعیں
زمین پر پہنچتی ہیں جسکی وجہ سے خوفناک بیماریاں ، جن میں سکن کینسر بھی
شامل ہے، جنم لیتی ہیں۔ پاکستان میں پہلے ماحولیاتی ادارے ای ڈبلیو ٹی
(Environmental Watch Trust)کی کوششیں قابلِ تعریف ہیں۔ ای ڈبلیو ٹی نے سو
فیصد ماحول دوست سرگرمیوں، اقدامات اور منصوبوں کے ذریعے ماحولیاتی آلودگی
میں کمی کیلئے قابلِ تقلید پراجیکٹس کا آغاز بھی کیا ہے جوکہ عالمی سوچ کے
عین مطابق ہیں۔ |
|