حکیم محمد سعید پر تحقیق کے حوالے سے ڈاکٹرسیدجلال الدین حیدرسے مکالمہ

(ڈاکٹر حیدر جامعہ کراچی کے شعبہ لائبریری وانفارمیشن سا ئنس استاد اور صدر شعبہ رہے۔ یہ مکالمہ ر اقم الحروف نے اپنی پی ایچ ڈی تحقیق کے لیے کیا جو موضوع کی تحقیقی ضرورت تھا۔یہ گفتگو مقالے میں شامل ہے۔ مقالے کا عنوان ہے ’’ پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی تر قی میں شہید حکیم محمد سعید کا کردار ‘‘ ۔ اس تحقیق پر راقم الحروف کو ۲۰۰۹ء میں جامعہ ہمدرد سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض ہوئی۔ ڈاکٹر حیدر اب اس دنیا میں نہیں ۔اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین)

تعارف:
پاکستان لائبریرین شپ کی ایک محترم ومعتبر شخصیت۔جامعہ کراچی سے ۱۹۶۰ ء میں لائبریری سائنس میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ اور۱۹۶۴ء میں رٹگرس ،اسٹیٹ یونیورسٹی آف نیوجرسی(Rutgers,The State University, NJ) امریکہ سے ایم ایل ایس اور ۱۹۹۴ء میں لفبرویونیورسٹی (Loughborough University, UK)سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔آپ کے مقالہ کاعنوان ہے (Acquiring Foreign Materials for Pakistani Libraries: A Study) ،۱۹۶۰ میں جامعہ کراچی کے کتب خانے سے پیشہ ورانہ زندگی کا آغازکیا۔۱۹۷۰ء میں جامعہ کراچی کے شعبہ لائبریری وانفارمیشن سائنس میں استاد کی حیثیت سے تقررہوا،صدر شعبہ کی حیثیت سے ۱۹۹۸ء میں ریٹائر ہوئے۔آپ کی پیشہ ورانہ خدمات ۳۸ برس پرمحیط ہیں۔آپ کو پاکستان لائبریرین شپ میں ایک مستند اورمعروف مصنف کی حیثیت حاصل ہے،آپ کے تحریر کردہ مضامین پاکستان اوربیرون ملک معیاری رسائل میں شائع ہوچکے ہیں۔آ پ کا تحریری سرمایہ لائبریرین شپ کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔آپ سے یہ گفتگو ۱۲مارچ ۲۰۰۴ء بروز جمعہ آپ ہی کی قیام گاہ پرہوئی۔

۱ : آپ نے لائبریرین شپ کا پیشہ کب اورکیسے اختیارکیا؟
ج : ۱۹۵۹ء میں شعبہ لائبریری سائنس ،جامعہ کراچی میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کورس میں داخلہ لیا۔کورس پاس کرنے سے قبل ہی کراچی یونیورسٹی لائبریری میں ملازمت مل گئی۔

۲ : قیام پاکستان کے فوراً بعدکتب خانوں کی کیاصورت حال تھی اس میں بہتری کی ابتداکیسے عمل میں آئی یعنی پاکستان میں لائبریری تحریک کاآغازکب اورکس طرح ہوا؟
ج : زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح کتب خانوں کی بھی حالت کچھ اچھی نہ تھی۔اس علاقہ میں جواب پاکستان کہلاتاہے ماسوائے چند کتب خانوں کے کوئی کتب خانہ موجود نہ تھا۔موجود کتب خانوں کی حالت کچھ اچھی نہ تھی کیوں کہ ان کے اسٹاف میں زیادہ تر ہندو تھے جو تقسیم کے بعدہندوستان چلے گئے لہٰذا ایک بہت بڑا خلا پید اہوگیا۔قابل ذکرکتب خانوں میں پنجاب یونیورسٹی لائبریری،پنجاب پبلک لائبریری لاہور،فریئرہال لائبریری کراچی،دیال سنگھ لائبریری لاہور، فورٹ سینڈیمن لائبریری کوئٹہ کاشمار کیاجاسکتاہے۔

سب سے پہلے ۱۹۴۸ء میں چندلائبریرینز نے ایک میٹنگ منعقدکی ان لائبریرینزمیں عبدالمعید،فضلِ الٰہی،خواجہ نورالٰہی کے نام خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔یہ میٹنگ اسلامیہ کالج لاہور میں ہوئی تھی اور کہا جاتاہے کہ اس میں پی ایل اے قائم ہوئی(اس کا ذکر ماڈرن لائبریرین کے شمارہ اول میں ہے)اور بعدمیں اسے پنجاب لائبریری ایسوسی ایشن میں بدل دیاگیا اس نے ایک ڈپلومہ کورس کا اعلان بھی کیا،کچھ لوگوں کوسرٹیفکیٹ بھی دئیے گئے اگرچہ عملی طورپرکورس کاانعقاد نہیں ہواتھا،اس بات کاذکر معیدصاحب نے مجھ سے کیاتھا۔اس وقت کی یہ روایت تھی دوسرے سبجیکٹ والے بھی ایسا ہی کیاکرتے تھے۔صحیح معنوں میں لائبریری تحریک کا آغاز۱۹۵۶ء میں اس وقت ہوا جب کراچی یونیورسٹی نے لائبریری سائنس ڈپلومہ کورس قائم کیا اور اس کے فارغ التحصیل طلبہ پورے ملک میں پھیل گئے۔اس سے قبل کراچی لائبریری ایسوسی ایشن سرٹیفکیٹ کورس شروع ہوچکاتھا اور یہی کورس پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کورس کی بنیادبنا۔

۳ : ۱۹۸۱ء میں اسپل کے (Board of Directors)میں آپ ایک رکن کی حیثیت سے شامل ہوئے۔یہ بتائیں کہ اسپل نے ایک (Citizens Committee)کے طورپر ملک میں کتب خانوں کی ترقی اور فروغ میں کیا نمایاں کردار اداکیا؟
ج : اسپل نے کتب خانوں سے متعلق عمومی طورپر اورعوامی کتب خانوں سے متعلق خصوصی طورپر شعور (Awareness) پیدا کیا لیکن یہ شعور ایک خاص طبقہ تک محدود تھا جو کہ شاید اس وقت کی ضرور ت تھی۔اس بات کاپتہ ہمیں اسپل (SPIL) کے سیمینار ورکشاپ اور کانفرنسیز کی پرویسڈنگ میں شرکاء کی فہرست سے پتہ چلتاہے۔شرکاء میں اکثرصاحب اقتدار یا بااثرلوگوں کے نام ملتے ہیں۔بہت کم عام لائبریرین حضرات کوان سیمینار اور کانفرنسیز میں فعال پایاگیا،انھیں صرف سامعین میں رکھا جاتاتھا،لہٰذا انھیں صرف نشستاً گفتاً اور برخاستاً تک دلچسپی رہتی تھی۔

۴ : پاکستان میں لائبریری سائنس کی تعلیم کا نقطہ آغاز کیاتھا۔پوسٹ گریجویشن سے پی ایچ ڈی تک تعلیم کے مراحل کیسے طے ہوئے؟
ج : کراچی لائبریری ایسوسی ایشن(KLA) نے اپنے سرٹیفکیٹ کورس سے لائبریری سائنس کی تعلیم کاآغاز کیااور اس کورس کے فارغ التحصیل لائبریرینز میں انیس خورشید اورعادل عثمانی کانام بھی شامل ہے جوبعدمیں کراچی یونیورسٹی کے قائم کردہ کورس کے اساتذہ کے طورپر عبدالمعید کے ساتھی تھے۔علاوہ ازیں دونوں حضرات نے کتب خانوں کی ترویج اور ترقی میں نمایاں کرداراداکیالیکن صحیح معنوں میں لائبریری سائنس کی تعلیم کی ابتدا۱۹۵۶ء میں کراچی یونیورسٹی میں لائبریری سائنس کے پوسٹ گریجویٹ ڈپلو مہ کورس تھا ۔اس کے ابتدائی طلبہ میں انیس خورشید،عادل عثمانی،عبید اﷲ سیفی، سجاد ساجد
صادق علی خان خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔۱۹۶۲ء میں ایم اے (M.A) پروگرام کی ابتدا بھی کراچی یونیورسٹی نے کی۔

اسی ڈیپارٹمنٹ نے ۱۹۶۷ میں (Ph.D) پروگرام شروع کیا اور سب سے پہلے عادل عثمانی کارجسٹریشن ہوا اس کے بعدچھ دیگرلائبریرینز نے اس پروگرام میں داخلہ لیا لیکن افسو س کی بات یہ ہے کہ ابتدائی سالوں کے پی ایچ ڈی کے طلبہ میں سے صرف عبدالحلیم چشتی صاحب نے اپنا مقالہ مکمل کیا اور ڈاکٹریٹ کی سند۱۹۸۱ء میں حاصل کی ان کے گائیڈ ڈاکٹر عبدالمعیدصاحب تھے۔

۱۹۸۵ء میں بہت سے لائبریرینز کے اسرار پرجامعہ کراچی نے ایک ایم فل(M.Phil) پروگرام شروع کیا جوکہ کورس ورک اورمقالہ(Thesis)پرمبنی تھا لیکن یہ پروگرام ناکام رہا اور کسی ایک شخص نے بھی پروگرام میں داخلہ نہیں لیا۔۱۹۸۷ء میں پی ایچ ڈی پروگرام دوبارہ شروع کیاگیا جب کہ نسیم فاطمہ کارجسٹریشن اس پروگرام میں ہوااورانھیں ۱۹۹۲ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری ملی،ڈاکٹرجمیل جالبی ان کے تھیسس سپروائیزرتھے۔

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپورمیں ۱۹۸۶ء میں پی ایچ ڈی پروگرام شروع ہوا،۱۹۹۱ء میں محمد فاضل خان بلوچ جوکہ شعبہ کے چیر مین بھی تھے کوپہلی ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی گئی ان کی تھیسس سپروائزر ڈاکٹر رفیعہ احمدشیخ تھیں ۔اب اس شعبہ میں کچھ اور لوگ بھی ڈاکٹریٹ میں رجسٹرڈ ہیں۔۱۹۹۹ء میں پنجاب یونیورسٹی نے بھی پی ایچ ڈی پروگرام شروع کیا اور اس کے اولین طلبہ اسی شعبہ کے استاد خالد محمود اورکنول امین شامل ہیں،دونوں کا سپروائزرمیں خود ہوں۔۲۰۰۳ء میں بلوچستان یونیورسٹی نے پی ایچ ڈی پروگرام شروع کیا اس کے اولین طلبہ میں خورشید اختر انصاری جو اس وقت شعبہ کے انچارج بھی ہیں اورمحمد الیاس شامل ہیں۔ ڈاکٹر سیکنہ ملک ،خورشید انصاری کی اورڈاکٹر افتخارخواجہ ،محمد الیاس کے تھیسس سپروائزرہیں۔ہمدرد یونیورسٹی نے ہمدرد انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانسڈ اسٹیڈیز اینڈریسرچ کے تحت مختلف مضامین میں ایم فل اور پی ایچ ڈی پروگرام شروع کیا۔اب تک آٹھ طالب علم رجسٹرہوچکے ہیں ان میں سے لائبریری سائنس کے اولین طالب علم آپ خودہیں۔غالباً آپ کاداخلہ ۲۰۰۳ء میں ہوا۔

۵ : آپ کے خیال میں اسپل(SPIL) نے پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں کیا کرداراداکیا۔نیز اسکے منعقدکردہ سیمینار،ورکشاپ اور کانفرنسیز کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟
ج : سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اسپل(SPIL)وجود میں کیوں آئی،اس کا پس منظر کیاہے،اس کے مقاصدکیاتھے اور پھر یہ دیکھنا ہے کہ ان مقاصد کے حصول کے لیے سوسائٹی نے کیا طریقے بشمول سیمینار،ورکشاپ اورکانفرنسیز اپنائے۔

اسپل(SPIL)۱۹۶۰ء میں وجود میں آئی یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن (PLA) اپنے شباب پر تھی لیکن ایسوسی ایشن میں سیاست زوروں پر تھی،واضح طورپر دوگروپ تھے ایک گرو پ اقتدارمیں تھا دوسرا حزبِ مخالف کا کردار اداکررہاتھا لیکن دونوں جانب بہ صلاحیت اور فعال لوگ موجودتھے۔حزب اختلاف کے حضرات نے جب یہ دیکھا کہ انہیں پی ایل اے میں جائز مقام نہیں مل رہاہے اور نہ مل سکتاہے تو انھوں نے اپنے لیے ایک الگ پلیٹ فارم کاانتخاب کیا جسے اسپل(SPIL)کہتے ہیں۔چونکہ پی ایل اے کی تشکیل اور ترقی میں ایک بڑا نام ڈاکٹر محمود حسین کا شامل تھا لہٰذا اسپل کو بھی ایسا ہی شخض چاہیے تھا جو انھیں حکیم صاحب کی شخصیت میں مل گیا۔

اس سوسائٹی میں شروع میں صرف ایک لائبریرین صحیح معنوں میں شامل تھا،کچھ لوگ پس پردہ تھے جوبعدمیں سوسائٹی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ممبرکی حیثیت سے شامل ہوئے۔بہ حیثیت ایک سٹیزن کمیٹی کے اسپل نے شروع میں اپنے مقاصد میں کراچی میں ایک پبلک لائبریری کا قیام شامل کیا،اس سلسلے میں ایک جامع اسکیم بھی تیار کی لیکن ہنوز عمل درآمدنہ ہوسکا۔اسپل نے کتب خانوں کے سلسلے میں عوام میں شعور بیدار کرنے کی بھی پلاننگ کی اوراس مقصد کے لیے سوسائٹی نے کانفرنسیز اورسیمینار کا ایک سلسلہ شروع کیا جو ملک کے مختلف شہروں میں منعقد کئے گئے ان سے کتب خانوں کی تحریک کو تقویت ملی ان سیمینار،ورکشاپ اور کانفرنسوں کی رودادیں باقاعدہ شائع ہوتی رہیں جولائبریرین شپ کے لٹریچر میں احترام کی نظرسے دیکھی جاتی ہیں ۔ اسپل (SPIL)نے اسکول کے کتب خانوں کی ترقی کے لیے بھی جدوجہد کی،اس سلسلے میں سوسائٹی کے زیر اہتمام مختلف سرٹیفکیٹ کورسز کا اہتمام کیاگیا،ساتھ ہی ساتھ اسکول کے کتب خانوں سے متعلق ایک ہینڈبک بھی شائع ہوئی۔مختصریہ کہا جاسکتاہے کہ سوسائٹی نے کتب خانوں سے متعلق لائبریری شعور(Library Awareness) پیدا کرنے میں قابل تعریف کارنامہ انجام دیا لیکن یہ شعور صرفElite Classتک محدود رہا ۔

۶ : اسپل گولڈ میڈل کے پاکستان لائبریرین شپ پرکیا اثرات پڑے؟
ج : اس گولڈ میڈل کے بارے میں طلبہ کو علم نہیں ہوتا،انھیں اس وقت اس کا پتہ چلتاہے جب پوزیشن کا اعلان ہوجاتاہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کی باقاعدہ تشہیر کی جائے تاکہ طلبہ ابتداہی سے اس کے حصول کے لیے محنت کریں۔

۷ : اسپل کی مطبوعات لائبریری لٹریچرمیں کس حدتک مفید ثابت ہوئیں۔
ج : ان مطبوعات کو اہم خدمات میں شامل کیاجاسکتاہے اور طلبہ اساتذہ اور محققین کے لیے یہ بے حد مفیدہیں۔

۸ : بیت الحکمہ(ہمدرد یونیورسٹی لائبریری)اور ہمدرد کے دیگر تعلیمی اداروں کے کتب خانوں کوآپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
ج : تعلیمی اداروں کے ساتھ کتب خانوں کا وجود لازمی امر ہے۔بیت الحکمہ اور دیگر کتب خانوں کے قیام میں حکیم صاحب کی دلچسپی کو اہمیت حاصل ہے۔اس کا کریڈٹ حکیم صاحب کوجاتاہے۔

۹ : لائبریری تحریک کے فروغ اورکتب خانوں کی ترقی میں ڈاکٹر محمود حسین مرحوم اورحکیم محمد سعید شہید خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔ یہ فر مائیں کہ آپ لائبریری تحریک ،اسپل اورحکیم محمد سعید شہید کے کردارکوکس نظرسے دیکھتے ہیں؟
ج : حکیم صاحب نے لائبریری تحریک کی سرپرستی کی،کتب خانوں کے قیام اور فروغ کے لیے ان کا نام اور وسائل استعمال ہوئے ڈاکٹر محمود حسین ماہر تعلیم تھے میرے خیال میں دونوں کاتقابل نہیں کیاجاسکتا۔لائبریری تحریک کے فروغ اور ملک میں کتب خانوں کی ترویج وترقی میں دونوں شخصیات کی خدمات لائق تحسین ہیں۔

۱۰ : ڈاکٹر عبدالمعید کے علاوہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی،ڈاکٹر محمود حسین اورحکیم محمد سعید شہید کو پاکستان میں لائبریری تحریک کا Pioneersتصورکیاجاتاہے آپ اس سلسلے میں کیاکہنا چاہیں گے؟
ج : میں صرف ڈاکٹرعبدالمعید کو پاکستان میں لائبریرین شپ کابانی تصور کرتاہوں۔اس وجہ سے میں اس مفروضہ سے اتفاق نہیں کرتا اس میں کوئی شک نہیں کہ دیگرمحترم شخصیات ملک میں لائبریری تحریک کے بڑے سرپرست اورSupporters رہے ہیں۔

۱۱ : لائبریری سائنس میں پی ایچ ڈی کی تعلیم کا آغاز ۱۹۶۷ء میں شروع ہوچکاتھا۔اب تک صرف ۲ جامعہ کراچی اور ایک اسلامیہ یونیورسٹی،بہاولپور سے یہ سند حاصل کرسکے۔یعنی ۳۶ سال میں تین،آپ کے خیال میں اس کی وجہ اپنے مضمون سے عدم دلچسپی رہی یا کوئی اوررکاوٹ؟
ج : سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ لوگ پی ایچ ڈی کیوں کریں؟جب کہ انھیں بغیر پی ایچ ڈی کے وہ مراعات مل جاتی ہیں جنھیں پی ایچ ڈی کرنے کے بعدبھی لوگ مدتوں تک ان کے لیے ترستے ہیں۔علاوہ ازیں لوگ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ پی ایچ ڈی کرنے کے بعداس نے کیا کچھ حاصل کیا جواُسے پہلے حاصل نہیں تھا۔

پی ایچ ڈی میں داخلہ ایک مشکل امر بنادیاگیاہے،جوخود پی ایچ ڈی نہیں تھے وہ نہیں چاہتے تھے کہ دوسرا شخص بھی پی ایچ ڈی ہو لہٰذا وہ ہمیشہ ایسی مشکلات پید اکرتے رہے جس سے لوگ ناامید ہوجائیں،پی ایچ ڈی کو ایک ہوا بنادیاگیا جب کہ دوسرے شعبوں میں اس سلسلہ میں کافی حوصلہ افزائی کی گئی۔پڑوسی ملک ہندوستان میں تقریباً ۴۰۰ لوگ لائبریری سائنس کے موضوع پر پی ایچ ڈی کرچکے ہیں۔ایک بات اور سمجھ میں آتی ہے کہ ہمارے ملک میں جو پی ایچ ڈی تھے وہ ملک سے باہر رہ کر اپنا مستقبل روشن رکھنا چاہتے تھے،ملک سے متعلق صرف اپنی ذات تک دلچسپی رہی،یہاں کی ہرچیز ان کو بری لگتی تھی۔ایسے حالات میں پی ایچ ڈی پروگرام کا قیام اور اس کی کامیابی کیسے ممکن ہوسکتی تھی۔

۱۲ : آپ کے خیال میں تحقیق میں کن امور کوسب سے زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے؟
ج : اب تک ملک میں جو پی ایچ ڈی کے مقالات تحریرکیے گئے ان کا تعلق کتب خانوں کے مسائل سے قطعی نہیں تھا۔ان کا مقصد صرف پی ایچ ڈی کاحصول تھا۔اسی طریقہ سے ہمارے اکثر حضرات جنھوں نے بیرون ملک سے پی ایچ ڈی حاصل کیا وہ بھی Problem Orientedتحقیق سے بہت دور نظرآتے ہیں،ان تمام مقالات کا لائبریرین شپ پرکوئی اثرنظر نہیں آتا۔لوگ انفرادی طور پر تو ضرور مستفیض ہوئے لیکن ملک اور پروفیشن کوکوئی قابل ذکر فائدہ نہ ہوا۔ بات یہ ہے کہ تحقیق ان مسائل پرہوجن سے آج پاکستان لائبریرین شپ دوچارہے۔
(یہ انٹر ویو ۱۲مارچ ۲۰۰۴ء کو ڈاکٹر حیدر کی رہائش گاہ واقع نارتھ ناظم آباد میں لیا گیا)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 866 Articles with 1440424 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More