اسلام کی انسانیت نوازی
(Moulana Nadeem Ansari, India)
آئے دن اسلام اور اہلِ اسلام کو
دہشت گردی سے جوڑا جاتا ہے، اور وہ کریمانہ اخلاق جن کی اسلام تعلیم دیتا
ہے، انہیں یکسر بھُلا دیا جاتا ہے، یا پردۂ خفا میں رکھنے کی کوشش کی جاتی
ہے، اور یہ سب ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا جارہا ہے۔ خیال رکھنا چاہیے
کہ دینِ اسلام چونکہ دینِ فطرت ہے اس لیے اس کی تعلیمات عین فطرت کے مطابق
وموافق ہیں۔ اسلام نہ تو اپنے پیروکاروں پر اتنی سختی کا قائل ہے کہ ہر چیز
کو حرام قرار دے کر انہیں دنیا سے کنارہ کش کردے اور نہ ہی ایسی آزادی کا
عَلم بردار ہے کہ انسان کو تمام تر قیود سے آزاد کردے کہ جو چاہے کرتا
پھرے۔
اسلام کُل انسانیت کے ساتھ حسنِ سلوک ورواداری کا پیغام دیتا ہے۔ اﷲ سبحانہ
وتعالیٰ کا ارشاد ہے: اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد (باپ) اور ایک عورت
(ماں) سے پیدا کیا ہے۔ (سورۃ الحجرات، آیت: ۱۳) یعنی اس کائنات میں بسنے
والے تمام انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں، خواہ عرب میں رہنے والا ہو یا
عجم میں، شہر میں رہنے و الا ہو یا دیہات میں، بنگلے میں رہنے والا ہو یا
جھونپڑی میں۔ الغرض! کسی نسل وخاندان سے تعلق رکھنے والا ہو اور کسی بھی
زبان کا بولنے والا ہو، گورا ہو یا کالا، ہیں سب آپس میں بھائی بھائی۔ اور
بھائی بھی کیسے؟ ماں جائے اور باپ جائے بھائی، جن میں کوئی امتیاز نہیں
ہوتا۔
اسلام نے آج سے تقریباً ساڑھے چودہ سو سال قبل اپنی ان ’’انسانیت نواز‘‘
تعلیمات کو عام کیا، جبکہ انسان، انسان کے خون کا پیاسا تھا۔ پر افسوس صد
افسوس! موجودہ زمانے میں اس سلسلے میں نت نئی غلط فہمیاں پھیلائی جارہی
ہیں، اور اسلام دشمن پروپیگنڈے بڑا واویلا کررہے ہیں کہ اسلام نفرت ودشمنی
کی تبلیغ کرنے والا دین ہے، اس کی کتاب ’’قرآن کریم‘‘ امنِ عالم کے لیے
خطرہ ہے، جب تک وہ دنیا میں موجود ہے، دنیا امن سے محروم رہے گی۔ انہوں نے
اپنے اس پروپیگنڈے کی ترویج واشاعت کے لیے قرآن کریم کی بعض آیات کے مفہوم
کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے اور حقیقت سے ناواقف لوگوں کے لیے تلبیس کا
سامان فراہم کیا ہے۔ ذرائع ابلاغ نے بھی اس پروپیگنڈے کے تلاطم خیز سمندر
کو وسعت دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے، مگر ساتھ ہی ساتھ ہمیں یہ اعتراف
بھی ہے کہ خود مسلمانوں کی ایک معتد بہ تعداد اس سلسلہ میں بعض غلط فہمیوں
اور غلو آمیز تصورات کا شکار ہے، اس لیے ضروری ہے کہ علمِ صحیح کے ذریعہ ان
تلبیسات کا پردہ چاک کیا جائے اور غلط فہمیوں اور غلو آمیز نظریات کی بنیاد
شکنی کی جائے۔
یہ صحیح ہے کہ اسلام کی یہ تاکید ہے کہ مسلمان اپنے دینی مزاج وخصوصیات اور
اخلاقی صفات میں غیر مسلموں سے واضح طور پر ممتاز رہیں، ان کی نقالی سے
پرہیز کریں اور خاص طور پر ان کی مذہبی نشانیوں اور رسومات سے اجتناب کریں
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام ہر ذی روح کے ساتھ حسنِ سلوک کی تاکید کرتا
ہے، اور انسان تو کجا، اسلام جانوروں تک سے سنگ دلانہ برتاؤ کو ناپسند کرتا
ہے۔
رحمتِ عالم حضرت محمد ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ: ایک عورت کو اس وجہ سے آگ
میں داخل کردیا گیا کہ اس نے ایک بلی کو باندھ رکھا تھا، نہ خود اسے کچھ
کھلاتی تھی اور نہ اس کو چھوڑتی تھی کہ وہ زمین کے کیڑیح مکوڑے کھا کر
(اپنا پیٹ بھرلے)۔ (بخاری: ۲۳۶۵، مسلم: ۲۲۴۲) ایک حدیث میں ہے کہ ایک گدھا
آپ ﷺ کے سامنے سے گزرا، جس کے چہرے پر داغ دیا گیا تھا، آپ ﷺ نے ارشاد
فرمایا: کیا تم نہیں جانتے کہ میں نے ایسے شخص پر لعنت کی ہے جو جانورکے
چہرے پر داغ دے یا اس کے چہرے پر مارے؟ (ابوداؤد: ۲۵۶۴)ایک مرتبہ حضرت ابن
عمر رضی اﷲ عنہما نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ انہوں نے تیر اندازی سیکھنے کے
لیے مرغی کو ہدف بنایا ہے، تو آپ رضی اﷲ عنہما نے ارشاد فرمایا: حضرت نبی
کریم ﷺ نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے، جو کسی ذی روح کو ہدف بنائے۔ (بخاری:
۵۵۱۵) نیز آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کو ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ: ایک شخص
نے ایک کتے کو دیکھا، جو شدتِ پیاس کی وجہ سے سے بے دم ہورہا تھا، تو وہ
کنویں میں اترا اور اپنے چمڑے کے موزے میں پانی لاکر اس کتے کو پلایا، حتی
کہ وہ کتا سیراب ہوگیا۔ آپ ﷺ آگے فرماتے ہیں کہ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے اس
شخص کی اس خدمت کی قدر کی اور اس کی مغفرت فرمادی۔ صحابہ نے عرض کیا: اے اﷲ
کے رسول! کیا جانوروں کے ساتھ حسنِ سلوک میں بھی ہمارے لیے اجر ہے؟ آپ ﷺ نے
ارشاد فرمایا: فی کل کبد رطبۃ اجر یعنی ہر جاندار کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا
باعثِ اجر ہے۔ (بخاری: ۲۳۶۳، مسلم: ۲۲۴۴)مقامِ غور ہے کہ جس اسلام کی
جانوروں تک پر اس درجہ عنایات ہیں، جس کی مثال پیش کرنے سے دنیا قاصر ہے۔
ایسے مذہب میں انسانیت کا کیا مقام ومرتبہ ہوگا! اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کا
ارشاد ہے: فتنہ وفساد پھیلانا اﷲ کے نزدیک قتل سے بڑا گناہ ہے۔ (سورۃ
البقرۃ: ۱۹۱) اور دوسرے مقام پر فرمایا: جو شخص کسی دوسرے شخص کو بلا
معاوضہ یا بدون کسی فساد کے (جو زمین پر اس نے پھیلایا ہو) قتل کرڈالے، تو
گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کرڈالا۔ (سورۃ المائدۃ: ۳۲) یعنی کسی انسان
کا قتل دو ہی صورتوں میں جائز قرار دیا گیا ہے یا تو اس نے بھی کسی انسان
کا قتل کیا ہو اور ایسا فساد پھیلایا ہو جس کی سزا قتل ہے۔ اسی طرح حدیث
پاک میں جو کہ قرآن کریم کی گویا عملی تفسیر ہے۔ فرمایا گیا کہ: اﷲ سبحانہ
وتعالیٰ بھی اس شخص پر رحم نہیں فرماتے، جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔ (ادب
المفرد: ۱۰۵) ایک حدیث میں رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں بہتر دوست اﷲ
کے نزدیک وہ ہے جو اپنے دوستوں کے ساتھ اچھا ہو اور اﷲ کے نزدیک بہتر پڑوسی
وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لیے بہتر ہو۔ (ترمذی: ۱۹۴۴) ایک حدیث میں آپ ﷺ نے
ارشاد فرمایا: وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا، جس کا پڑوسی اس کی ایذاء
رسانیوں سے (نہ صرف محفوظ بلکہ) مامون نہ ہو۔ (مسلم: ۷۳) یہ بھی خیال رہے
کہ ان احادیث میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تخصیص نہیں۔ البتہ فنی امور،
جو کہ دین سے متعلق نہیں، مثلاً: صنعت، زراعت وطباعت وغیرہ میں غیر مسلموں
سے تعاون حاصل کرنا جائز ہے، اگرچہ اہل اسلام کے حق میں بہتر یہی ہے کہ وہ
ان تمام امور میں خود کفیل ہوں۔
سیرتِ نبویﷺ میں ایک نہایت اہم واقعہ ہے کہ رسول اﷲ ﷺ اور یارِ غار حضرت
ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے ہجرت کے موقعہ پر ایک مشرک عبداﷲ بن اریقط کی
خدمات ایک رہبرِ راہ کی حیثیت سے قبول فرمائی تھیں (بخاری: ۳۹۰۵) جب کہ آپ
ﷺ کی ہجرت کا مرحلہ نہایت ہی نازک ترین تھا۔ ایک مرتبہ رسول اﷲ ﷺ کے سامنے
سے ایک جنازہ گزرا، تو آپ کھڑے ہوگئے، آپ کی خدمت میں عرض کیا گیا: اے اﷲ
کے رسول! یہ تو ایک یہودی کا جنازہ ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا وہ انسان
نہیں ہے؟ (بخاری: ۱۳۱۲)معلوم ہوا کہ اسلام انسانیت کے ناطے سب کا خیال
رکھتا ہے اور اگر کوئی ہمارا پڑوسی ہے یا دیگر کوئی ایسا متعلق ہے، تو وہ
مزید توجہات کا مستحق ہے۔ اصالۃً اسلام کی نظر میں ہر انسان قابل احترام ہے
اور ہر ایک کا اپنا ایک خاص مقام ہے۔ آئیے ہم اسلامی تعلیمات کو عام کریں
اور اپنے وطن بلکہ دنیا سے نفرتوں کو مٹاکر راہِ ہدایت آسان کریں۔ وما
توفیقی الا باللّٰہ |
|