وہ جو بہت رحیم ہے
(Muhammad Asif, Faisalabad)
اپنے بندے سے ستر ماؤں سے زیادہ
محبت کرنے والا اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ:’’ اے میرے بندے میری محبت تو
معاف ہو سکتی ہے لیکن میرے بندوں سے نفرت میں معاف نہیں کروں گا‘‘ وہ جو
بہت رحیم ہے اس کی رحمت کو جوش آتا ہے جب انسان میں احترام آدمیت پیداا ہو
تا ہے اسی لیے تو فرمایا کہ:
’’ کعبہ سے زیادہ اپنے مومن بھائی کے عزت کرو‘‘۔
ہر مسلمان دوسرے مسلمان کو اپنا بھائی سمجھے اس کے دکھ کو اپنا دکھ اور اس
کی خوشی کواپنی خوشی جانے۔مولانا طاہر القادری لکھتے ہیں کہ حضرت محمد ﷺ نے
اپنے چچا حضرت حمزہ ؒ کے قاتل کو معاف کر دینے کے بعد فرمایا کہ:
’’ میرے سامنے نہ آیا کرو‘‘۔
مولانا صاحب کے مطابق اس کی وجہ یہ تھی کہ اگر وہ شخص آپ ﷺ کے سامنے آتا تو
آپ ﷺکو اپنے چچا کی یاد آتی اور آپﷺ کو تکلیف ہوتی۔لیکن اسی بات کی وضاحت
انور مسعود انے یوں کی ہے کہ:
’’ آپ ﷺ نے اس شخص کو سامنے آنے سے اس لیے منع فرمایا کہ جب بھی سامنے آئے
گا شرمندگی محسوس کرئے گا‘‘۔
خیر یہ درددل کے دو مختلف زاویے ہیں بہت سارے واقعات ہمیں درس دیتے ہیں کہ
انسان کا دل دُکھانا اللہ رب العزت کی ناراضگی کا باعث بنتاہے اور انسانوں
سے محبت درحقیقت اپنے رب سے محبت کا دوسرا نام ہے ۔لیکن یہ کیا؟ہمارے
مسلمان معاشرے میں تو منظر ہی الٹا دکھائی دیتا ہے ہم پبلک ٹرانسپورٹ میں
سفر کرتے ہیں تو دس پندرہ سال کا لڑکا پچاس سالہ بزرگ کا گریبان پکٹرے ملتا
ہے۔ہمارے رویوں میں نفرت اور منافقت نظر آتی ہے ہم کتنی آسانی سے اپنے فرقہ
کو پورا اسلام سمجھتے ہوئے دوسرے مسلمان کو واجب القتل اور کافر قرار دیتے
ہیں۔لیکن ہمیں یہ لائسنس دیا کس نے ہے؟ہم آج کسی کام میں محنت بھی کرتے ہیں
تو اس کا مقصد دوسروں کو نیچا دکھانا ہوتا ہے ہمارے ان نفرت پر مبنی رویوں
پر بہت سی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں مگر ہمارا مقصدصرف اتنا ہے کہ انسان حقوق
العباد کی روح کو سمجھے اور دوسرے انسانوں سے محبت کرے۔میرا دعویٰ ہے کہ
اپنے ذہن سے بغض، حسد، کینہ اورنفرت ان بیماریوں کو نکال دیں اورپھر دیکھیں
کہ آپ کی زندگی میں کتنی بڑی تبدیلی آتی ہے ۔لیکن سب برا ہی نہیں ہے یہاں
سیلانی سہارا، ایدھی فاؤنڈیشن ہمیں اس اندھیری نگری میں روشنی کی کرنیں نظر
آتی ہیں۔ہم تھوڑے راستے سے بھٹکے ضرور ہیں مگر ابھی مکمل مردہ دل نہیں
ہوئے۔صفدر اعوان لکھتے ہیں کہ انسان اپنا پیرومرشد اپنے اچھے ٹیچرز کو بنا
لے تو بہت بڑی تبدیلی آسکتی ہے سو فی صددرست بات ہے۔اور اس کی زندہ مثال یہ
ناچیز ہے جس نے اپنے ایک ٹیچر کو رول ماڈل بنایا اور دوسروں میں عیب
ڈھونڈنے والا آج لوگوں کی خوبیاں تلاش کرتا ہے اور آج اس کی زندگی میں محبت
ہی محبت ہے۔ |
|