مہاتما گاندھی اور سردار پٹیل کے تعلقات

گزشتہ ہفتے اندرا گاندھی کے یوم وفات کو پس منظر میں ڈالنے یا ساری دنیا نے جس ہستی کو ’’آہنی خاتون‘‘ تسلیم کیا ہے اس کی اہمیت کو کم کرنے کے لئے ہندوستان کے ایک مخصوص اور محدود حلقہ میں ’’مرد آہن‘‘ کہلانے والے سردار ولبھ بھائی پٹیل کا جنم دن سرکاری طور پر منایا گیا جس کے سنگھ پریوار اور اس کے زر خرید میڈیا میں اس قدر چرچے رہے گویا ملک کی تاریخ کی اہم ترین شخصیت سردار ولبھ بھائی پٹیل ہی رہے ہوں ملک کو متحد رکھنے اور یکجہتی کے سب سے بڑے علمبردار پٹیل ہی تھے۔ سردار پٹیل کے یہ چرچے ان کا احترام اور اہمیت صرف اس وجہ سے ہے کہ تحریک آزادی کے تمام کانگریسی رہنماؤں میں سردار پٹیل ہی کا سیکولرازم سب سے زیادہ کمزور اور مشکوک تھا۔ سردار پٹیل مسلمانوں سے بھلے ہی نفرت نہ کرتے ہوں لیکن مسلمانوں سے سردار پٹیل کو کوئی خاص دلچسپی یا ہمدردی نہیں تھی جس کو ناپسندیدگی بھی کہا جاسکتا ہے۔

مسلمانوں سے ہی نہیں بلکہ مسلمانوں سے ہمدردی یا مسلم نوازی کی وجہ پٹیل کے مہاتما گاندھی سے تعلقات نہ صرف کشیدہ تھے بلکہ 1948ء میں وزیر داخلہ کی حیثیت سے گاندھی کی حفاظت کا مناسب انتظام نہ کرنے کے سلسلے میں پٹیل پر زبردست تنقید ہوئی تھی کیونکہ مہاتما گاندھی کے قتل سے چند دن قبل ان پر ہندو انتہاء پسندوں نے بم پھینکا تھا۔ مولانا آزاد (انڈیا ونس فریڈم ص؍241) نے لکھا ہے گوکہ مہاتما گاندھی یا کوئی اور اس بم اندازی سے زخمی نہ ہوا تھا تا ہم مہاتما گاندھی کی حفاظت کے اس کے بعد بھی درکار احتیاطی اقدامات نہیں کئے گئے تھے۔ نہ ہی پولیس اور سی آئی ڈی کو پتہ چلا کہ بم اندازی کرنے والے کون تھے؟ وہ کس طرح بم لیکر گاندھی جی کے گھر میں داخل ہوسکے تھے۔ یہ ثابت ہونے کے بعد بھی کچھ لوک گاندھی جی کوقتل کرنا چاہتے تھے دہلی کے امن و قانون کی ذمہ دار مرکزی وزارت داخلہ (جس کے وزیر سردار پٹیل تھے) نے کچھ نہیں کیا تھا!

مہاتما گاندھی سے پٹیل کے شدید اختلافات گاندھی جی کے قتل اور قتل کے بعد ردِعمل کی تفصیلات (انڈیا ونس فریڈم)نامی مولانا آزاد کی کتاب کے آخری باب Divided India اور اختتامیہ Epilogueمیں دیکھی جاسکتی ہیں۔

مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد پٹیل پر زبردست تنقیدیں ہوئیں ۔ گاندھی جی حفاظت میں عدم دلچسپی، غفلت ،لاپرواہی اور نا اہلی کے الزامات لگائے گئے۔ گاندھی جی سے پٹیل کے کشیدہ تعلقات کے پس منظر میں دیکھا جائے تو بہت کچھ سمجھ میں آتا ہے۔ آج جن پٹیل کی اعلیٰ کارکردگی کا چرچا ہے ان ہی پٹیل پر مہاتما گاندھی کی حفاظت میں غفلت، لاپرواہی اور نااہلی کا الزام جئے پرکاش نارائن نے بھی لگایا تھا اور حکومت (وزارت داخلہ) کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ مہاتما گاندھی کے قتل کی ذمہ داری سے حکومت بچ نہیں سکتی ہے۔

سردار پٹیل کو آگے بڑھانے میں سب سے اہم کردار مہاتما گاندھی نے ہی ادا کیا تھا۔ سردار پٹیل کی بے جا تائید کرنے میں بھی گاندھی جی کو عارنہ تھا۔ اگر مہاتما گاندھی ہر موقع پر سردار کی حمایت و تائید نہ کرتے تو پٹیل آزادی سے پہلے اتنی زیادہ اہمیت حاصل نہ کرسکتے تھے۔ مہاتما گاندھی کی پٹیل کی حمایت کے سلسلہ میں یوں تو بے شمار کہانیاں ہیں لیکن ہم صرف دو بیا ن کریں گے۔ ایک تو اس وقت کی بات ہے جب 1935ء کے قانون ہند کے تحت داخلی خود مختاری کے ساتھ برطانوی ہند کے صوبوں میں حکومتیں قائم ہوئی تھیں تو ممبئی (موجودہ مہاراشٹرا) کے وزیر اعلیٰ کا عہدہ بمبئی کے پارسی قائد کے ایف نریمان کو ملنا یقینی تھا جو سرار پٹیل اور ان کے فرقہ پرست ساتھیوں کو پسند نہ تھا۔ پٹیل اور ان کے ساتھیوں کی سازش سے نریمان کی جگہ بی جے کھیر کو وزیر اعلیٰ بنایا تو نریمان نے اس کے خلاف اپیل کی اور پٹیل پر الزامات لگائے (جو بقول مولانا آزاد (صحیح تھے) لیکن مہاتما گاندھی نے پٹیل ی مدد کرتے ہوئے پٹیل کے خلاف تمام الزامات مسترد کردئے۔

جب لارڈ ماونٹ بیٹن نے اپنے طور پر ملک کی تقسیم کا فیصلہ کرلیا تو انہوں نے پنڈت جواہر لال نہرو سے پہلے سردار پٹیل کو راضی کیا تھا۔ اس کے بعد سردار پٹیل نے مہاتما گاندھی کو راضی کرلیا۔ اگر مہاتما گاندھی پٹیل کی بات ماننے سے انکار کردیتے تو پنڈت نہرو بھی پٹیل کا ساتھ نہ دیتے! پٹیل کیوں کہ ملک کی تقسیم چاہتے تھے یہ ایک الگ مسئلہ ہے جو طواطت کا طالب ہے۔ نہ صرف مولانا ابوالکلام آزاد بلکہ کئی اور اصحاب نے بھی کئی جگہ لکھا ہے کہ مہاتما گاندھی کو تقسیم ہند کے لئے راضی کرنے میں صرف پٹیل کی کوشش کا دخل ہے۔ ورنہ گاندھی جی آخر تک کہتے رہے تھے کہ ’’اگر کانگریس ملک کی تقسیم کے لئے راضی ہو بھی جائے تو ایسا میری لاش پر ہوگا۔ میں زندگی میں ملک کی تقسیم پر راضی نہ ہوں گا۔ لیکن گاندھی جی کو پٹیل نے راضی کرلیا۔ اپنی مندرجہ بالا کتاب میں مولانا آزاد نے لکھا ہے کہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ملک کی تقسیم کے بانی سردار پٹیل ہی ہیں (ص؍199) اگر جناح نے پاکستان کا علم اٹھایا تھا تو پٹیل اس کے علمبردار ہوگئے تھے (ص؍201)

جب تقسیم کے بعد دہلی میں مسلم کش فسادات ہورہے تھے تو مسلمانوں کے قتل عام اور ان کے گھروں کی لوٹ مار اور غاصبانہ قبصوں کا زور تھا تو ان فسادات کو روکنے میں دہلی کا انتظامیہ (جس کے سربراہ سردار پٹیل تھے) نے فسادات کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔ مہاتما گاندھی کے لئے بہ صورت حال بے حد تکلیف دہ تھی۔ سردار پٹیل کچھ کرنے کی جگہ یہی کہتے تھے کہ ’’مسلمانوں کو شکایت کرنے یا ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ‘‘۔ ایک جگہ کہا کہ جواہر لال نہرو کا یہ کہنا کہ دہلی میں مسلمان گاجر مولی کی طرح کاٹے جارہے ہیں صرف مبالغہ ہے ۔ مسلمانوں کی جان و مال کی حفاظت کے لئے حکومت جو بھی کررہی ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتی ہے۔ گاندھی جی کے اصرار پر پٹیل نے کہا کہ مسلمانوں نے خطرناک ہتھیار ہندووں اور سکھوں پر حملے کے لئے جمع کررکھے تھے۔ ان ہتھیاروں کا پٹیل نے معائنہ بھی کروایا ان ہتھیاروں میں باورچی خانے کے چاقو چھری وغیرہ جن میں کئی زنگ آلودہ تھے اور بغیر دستے کے تھے۔ جیبی (پاکٹ) چاقو، گھروں کی چھتوں میں لگائی جانے والی لوہے کی سلاخیں اور زنگ آلودہ پائپ وغیرہ شامل تھے۔ دہلی میں مسلمانوں کی حفاظت کرنے میں پٹیل کی عدم دلچسپی کی وجہ سے فسادات کو روکنے کیلئے مہاتما گاندھی 12؍جنوری 1948ء کو مرن برت شروع کیا۔ اس کے باوجود بھی پٹیل نے اپنا رویہ نہیں بدلا اور نہ ہی مرن برت سے گاندھی جی کو روکا تھا اس کے برخلاف پٹیل کہتے رہے کہ ’’ میں کیا کروں گاندھی جی میری بات مانتے نہیں ہیں ان کا خیال ہے کہ دہلی میں مسلمانوں کے قتل عام کا میں ہی ذمہ دار ہوں‘‘ ایک موقع پر پٹیل نے تلخ و ترش لہجہ میں چیخ کر کہا کہ ’’گاندھی جی نے ہندووں کے نام کو بٹہ لگانے کا عزم کررکھا ہے تو میں کیا کرسکتا ہوں‘‘۔

کسی نہ کسی طرح گاندھی جی کا مرن برت ختم ہوا ۔ ان پر بم کے ناکام حملے کے باوجود پٹیل نے مہاتماگاندھی کی حفاظت کے خصوصی تو دور رہے معمولی سے بھی انتظامات نہیں کئے اور پٹیل کو سردار کہنے والے کو مرد آہن قتل ہونے سے نہیں بچاسکے!۔
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 163868 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.