جب کسی شخص کے بارے میں کہا جاتا
ہے کہ وہ کامیاب شخص ہے تواس سے عموماً یہی مراد ہوتی ہے کہ وہ دولت مندہے۔
چنانچہ دولت کو لازماً اچھا ہونا چاہیے۔دولت مند لوگ قابل قدر مقاصدکے لیے
ہر سال اربوں روپے خرچ کرتے ہیںچنانچہ دولت اچھی ہے۔ تا ہم کیا ہم نے یہ
نہیں سنا کہ پیسہ تمام برائیوں کی جڑ ہے؟اس تناظر میں پیسہ برا ہے۔ جو لوگ
امیر نہیں ہیں، وہ ان لوگوں پر تنقید کرتے ہیں، جو امیر ہیں۔ اس کے ساتھ ہی
وہ خود بھی امیر ہو جانا بے حد پسند کرتے ہیں۔ چنانچہ سوال وہی ہے کہ پیسہ
اچھا ہے یا برا؟ پیسہ نہ اچھا ہے، نہ برا۔ تاہم چونکہ ہم ایک ایسے معاشرے
میں جی رہے ہیں جہاں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ پیسے کو کامیابی کے برابر قرار
دیا جاتا ہے۔ ضروری ہے کہ اس حوالے سے چند خیالی باتوں کی وضاحت کر دی
جائے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ اسے درست تناظر میں دیکھا جائے۔ میں پیسے کے
حوالے سے 2نکات درج کرنا چاہوں گا: 1۔ پیسہ بُرا نہیں ہے ۔کہاجاتا ہے کہ
پیسہ تمام برائیوںکی جڑ ہے؟ نہیں بلکہ پیسے کی محبت تمام برائیوں کی جڑ ہے۔
دونوں بیانات میں واضح فرق ہے۔ پیسے میں کوئی برائی نہیں ہے، خواہ پیسہ بہت
زیادہ مقدار میں کیوں نہ ہو۔کلیدی بات یہ ہے کہ ہم اسے کس طرح کماتے اور اس
سے کیا کرتے ہیں۔ اگر پیسہ دیانت داری سے کمایا اور اچھی طرح خرچ کیا جائے
تو یہ اچھائی کا سرچشمہ بن جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پیسہ ایک خوشی خرید
سکتا ہے؟ جو شخص کہتا ہے کہ پیسہ خوشی نہیں خریدسکتا، اس کے پاس زیادہ پیسہ
نہیں ہوگا۔ درحقیقت پیسہ غربت کی نسبت زیادہ خوشی خرید سکتا ہے۔میرا خیال
ہے پرل بیلی نے اس بات کو بہترین انداز میں بیان کیا ہے: ’’ ہنی! میں غریب
رہا ہوںاور میں امیر بھی رہا ہوں۔ میں تمھیں بتاتا ہوں کہ امیر ہونا بہتر
ہے۔‘‘ شایدپیسہ بیشتر معاملات میں بہتر ہوتا ہے۔ امیر ہونا نہ توغیر قانونی
ہے، اور نہ غیر مذہبی،تاہم یہ بھی سچ ہے کہ پیسہ سب کچھ نہیں ہے۔ 2۔
کامیابی کے لیے صرف پیسہ ہی ضروری نہیں ہے،ہم جس دنیا میں جی رہے ہیں، اس
میں ہمیشہ سے زیادہ امیر لوگ موجود ہیں۔ان امیر لوگوں میں بے شمار لوگ کروڑ
پتی ہیںاور بہت سے کروڑ پتی لوگ ارب پتی بن رہے ہیں۔ مورخین نے بیسویں صدی
کی نویں دہائی کو ’’لالچ کی دہائی‘‘ قرار دیا تھا۔ اس دور میں دولت کے ایک
پجاری نے تویہاں تک کہہ دیا تھا کہ ’’لالچ اچھا ہے۔‘‘ تاہم یہ بھی حقیقت ہے
کہ جس شخص نے یہ بیان دیا تھا، چند ماہ بعد وہ کسی جرم میں عدالت کے کٹہرے
میں کھڑا تھا۔ ایسا تب ہوتا ہے جب ہم پیسے کے حوالے سے درست نقطۂ نظر کھو
بیٹھتے ہیں۔ اس طرح زندگی مسخ ہو کر رہ جاتی ہے،تاہم صرف وہ لوگ جیل نہیں
جاتے جو روپے کی ہوس میں اپنے آپ کو گنوا دیتے ہیں۔ میں نے حال ہی میں ایک
کتاب پڑھی ہے، جس کا موضوع ایسے لوگ ہیں جو بظاہر کامیاب دکھائی دیتے
ہیں۔ان کے پاس پیسہ ہے، جائیداد، طاقت اور سماجی مقام و مرتبہ ہے، تاہم وہ
لوگ مایوس ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ کامیاب لوگ ہیں تو مایوس کیوں ہیں؟ وہ
خوش کیوں نہیں ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ خوش ہونا اور کامیاب ہونا، دو یکساں
باتیں نہیں ہیں۔یہ لوگ ایسے ہیںجن کے پاس بظاہر سب کچھ ہوتا ہے لیکن وہ
بنیادی اہمیت کی چیزوں کو نظروں سے اوجھل کر چکے ہوتے ہیں۔ وہ نشئی بن گئے
ہیں۔وہ پیسے اور اس سے حاصل ہونیوالی چیزوں کے غلام بن چکے ہیں۔ اس دوران
انھوں نے نہ صرف دوسروں کو نقصان پہنچایا بلکہ اپنی زندگیاں بھی تباہ کر لی
ہیں۔ کامیابی پیسہ کمانے سے سوا کچھ اور بھی ہے۔ پیسے کی اہمیت پر ضرورت سے
زیادہ زور دینا اپنے آپ کو دھوکا دینا ہے۔ پیسے کے علاوہ ایسی بہت سی چیزیں
ہیںجو زندگی کو زیادہ دلچسپ، زیادہ بامعنی اور زیادہ ثمر آور بنا دیتی ہیں۔
کامیاب ہونے کے کیا معانی ہیں؟ عظیم فلسفی تھامس کارلائل نے ایک بار لکھا
تھا: ’’آئو ہم سب وہ بنیں، جس کی اہلیت کے ساتھ ہمیں تخلیق کیا گیا ہے۔‘‘
میں کامیابی کی اس سے بہتر تعریف نہیں سوچ سکتا۔ زندگی ہمیں ہر روزچیلنج
دیتی ہے کہ ہم اپنی صلاحیتوں کومکمل طور پر استعمال کریں۔ ہم تب کامیاب
ہوتے ہیں جب اپنے اندر موجود صلاحیتوں کو اعلیٰ ترین سطح پر استعمال کرنے
لگتے ہیں۔ ہم تب کامیاب ہوتے ہیں جب اپنے پاس موجود بہترین چیز دیتے ہیں۔
اس باب کے آغاز میں درج قول میں کہا گیا ہے کہ کامیابی ’’حاصل کرنے‘‘ میں
نہیں بلکہ ’’کام کرنے‘‘ میں ہے۔ میں اس نکتے پر زیادہ زور نہیں دے سکتا۔
زندگی ہمیشہ ہم سے یہ نہیں چاہتی کہ ہم سب سے اوپر ہوں۔زندگی صرف اتنا
تقاضا کرتی ہے کہ ہم ہرشعبے میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔ زندگی کے
چند اہم شعبوں کے کامیاب لوگ ایسا ہی کرتے ہیں: ٭ کامیاب لوگ زندگی کوویسا
ہی قبول کرتے ہیں، جیسی کہ وہ ہوتی ہے۔ وہ زندگی کو اس کی ساری دشواریوں
اور چیلنجوں سمیت قبول کرتے ہیں۔ وہ اس کے بارے میں شکایتیں نہیں کرتے بلکہ
وہ اسے اپنا لیتے ہیں۔ وہ دوسروں پر الزام دھرنے اور بہانے بنانے کے بجائے
اپنی زندگیوں کی ذمے داری قبول کرتے ہیں۔وہ زندگی کے منفی عناصر کے باوجود
اسے ’’ہاں‘‘ کہتے اور حالات جیسے بھی ہوں، اس کو بھرپور انداز میںبسر کرتے
ہیں۔ ٭ کامیاب لوگ زندگی کے حوالے سے مثبت رویہ اپناتے اور اسے برقرار
رکھتے ہیں۔ وہ لوگوں میں اور دنیا میں اچھائی ڈھونڈتے اور عموماً اسے پا
لیتے ہیں۔وہ زندگی کو مواقع اورامکانات کا ایک سلسلہ تصور کرتے اورہمیشہ
مواقع اور امکانات پا لیتے ہیں۔ ٭کامیاب لوگ سمت کے شعور اور مقصد کے حامل
ہوتے ہیں۔ اْنھیں علم ہے کہ وہ کہاں جا رہے ہیں۔ وہ اہداف کا تعین کرتے،
اْنھیں حاصل کرتے اور پھر نئے اہداف کا تعین کرتے ہیں۔ وہ چیلنج قبول کرتے
اور ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ٭کامیاب لوگ عمل کرنے والے لوگ ہوتے ہیں۔
عمل ان کی زندگیوں کی بنیاد ہوتا ہے۔ وہ محنت سے ڈرتے نہیں، اس لیے ہر کام
سر انجام دیتے ہیں۔ وہ وقت ضائع نہیں کرتے۔ وہ اپنے وقت کو تعمیری انداز
میں استعمال کرتے ہیں۔ وہ اکتاہٹ کا شکار نہیںہوتے کیونکہ وہ نئے نئے
تجربوں کو ڈھونڈنے میں لگے رہتے ہیں۔ اسی لیے وہ یکسانیت کا بھی شکار نہیں
ہوتے۔ ٭ کامیاب لوگ اپنے شخصی طرزِ عمل میں اعلیٰ معیارات برقرار رکھتے
ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ دیانت داری اچھے شخص کے کردار کے بنیادی اوصاف میں سے
ایک وصف ہے۔ ٭کامیاب لوگ زندہ رہنے اورجینے میںفرق کو سمجھتے ہیں وہ ہمیشہ
مؤخر الذکر کا انتخاب کرتے ہیں۔ وہ زندگی سے بہت کچھ حاصل کرتے ہیں۔ اس کی
وجہ یہ ہے کہ وہ زندگی کو بہت کچھ دیتے ہیں۔ وہ جو کچھ بوتے، وہی کاٹتے اور
زندگی سے مکمل طورپر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ (این لینڈرز،ہال اربن کی کتاب سے
ماخوذ) |