اقبالؒ اپنا محرم کوئی نہیں جہاں میں
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
یومِ عاشور ہم نے یزید کو بُرا
بھلا کہتے ہوئے گزار کر گویا’’حقِ حسینیت‘‘ ادا کر دیا۔ اب اگلے سال پھر
انہی دنوں میں ہم تجدیدِ حبّ ِ اہلِ بیت کریں گے تاکہ سند رہے کہ ہم مسلمان
تھے ،ہیں اور رہیں گے۔ دراصل وقت کا گھوڑا اتنی تیزی اور تیز رفتاری سے
سَرپٹ ہے کہ ہم بڑی مشکلوں سے عیدین ،میلاد النبیؐ اور محرم کے مواقع پر
اپنی یادوں کی دھول میں اَٹے’’دین‘‘ کے لیے وقت نکال پاتے ہیں ۔شاید ہم اِن
ایام کو بھی بھول ہی جاتے لیکن یہی تو وہ ایام ہیں جن میں ہم یہ ثابت
کرسکتے ہیں کہ چونکہ ہمارے باپ دادا مسلمان تھے اِس لیے ہم بھی’’بقلم خود‘‘
مسلمان ہیں اوریہی وجہ ہے کہ ہم’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ میں رہ رہے ہیں
۔اگر ایسا نہ ہوتاتو پھر متحدہ ہندوستان کیا بُرا تھا۔ہمارے ہاں کچھ قومی
دِن بھی پائے جاتے ہیں جنہیں ہم بڑے ذوق وشوق سے منا کر یہ ثابت کرنے کی
کوشش کرتے رہتے ہیں کہ ہمیں اپنے وطن کی مٹی سے بہت پیار ہے۔ 23 مارچ اور
14 اگست کو ہم اپنے جذبۂ حب الوطنی کو مہمیز دیتے ہوئے ساری رات سڑکوں اور
چوراہوں پر ہلّا گُلّا کرتے ہیں ،قائدِ اعظم ڈے’’اے قائدِ اعظم تیرا احسان
ہے احسان‘‘ گاتے گزارتے ہیں ،یومِ دفاع کی آمد پر ہمارا جذبۂ جنوں اور شوقِ
شہادت آسمان کی رفعتوں کو چھونے لگتا ہے اور ہم دلّی کے لال قلعے پر سبز
ہلالی پرچم لہرانے کے سندر سَپنے دیکھتے ہوئے’’اے مردِ مجاہد جاگ ذرا اب
وقتِ شہادت ہے آیا‘‘ گاتے رہتے ہیں البتہ 16 دسمبر(سقوطِ ڈھاکہ)ہم خاموشی
سے گزار دیتے ہیں۔دراصل یہ ہماری غیرتوں کو جھنجھوڑنے کا دِن ہے اور چونکہ
ہمارا تعلق’’غیرت بریگیڈ‘‘ سے نہیں اور نہ ہی ہم یہ مانتے ہیں کہ
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ ودَو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سر ِ دارا
اِسی لیے ہم افواجِ پاکستان کے شانہ بشانہ ’’متحدہ پاکستان‘‘ کی جنگ لڑنے
والے بنگلہ دیشیوں کی پھانسی کی سزاؤں کوبنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ قرار
دیتے ہوئے ٹال دیتے ہیں ۔ویسے بھی آجکل ہم خود اتنے’’وَخت‘‘ میں پڑے ہوئے
ہیں کہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنماؤں کی پھانسیوں پر مذمتی
قراردادمنظور کرتے ہوئے بھی خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔۔۔۔کُل ملاکے یہ آٹھ دَس دِن
ہی توہیں جن میں ہم نے یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ہم پشتنی مسلمان اورغیرت
مند پاکستانی ہیں۔ باقی 355 دِن ہمارے اپنے ہوتے ہیں جن میں ہم سیاست سے
ثقافت تک ہرجگہ ملاوٹ کرنے میں آزاد ہوتے ہیں جس کی بنا پر ہر جگہ کثافت ہی
کثافت نظر آنے لگتی ہے لیکن ہم کسی کو ہر گز یہ اجازت نہیں دیتے کہ وہ
ہماری’’کارستانیوں‘‘ پر تنقید کرے۔ارے ! ہم حضرتِ اقبالؒ کا ذکر تو بھول ہی
گئے ۔’’یومِ اقبال‘‘ بھی ہم بڑے ذوق وشوق سے مناتے ہیں حالانکہ ہمیں ایسا
کرنے کی مطلق ضرورت نہیں کیونکہ ہم’’درسِ اقبال‘‘ کو مانتے ہیں نہ اُن
کے’’تصّورِ پاکستان‘‘ کو۔اُنہوں نے جس پاکستان کا خواب دیکھا اور قائدِ
اعظم نے جس خواب کو سچ کر دکھایا وہ تو کچھ اور ہی تھا۔اب جس پاکستان میں
ہم بَس رہے ہیں اُس میں تو ہمیں اقبالؒ کے تصورات کی ہلکی سی جھلک بھی نظر
نہیں آتی ۔ ہمارے سیکولر بھائی کہتے ہیں کہ یہ تصوراتنا رجعت پسندانہ ہے کہ
دَورِ جدید میں کہیں’’فِٹ‘‘ بیٹھتا ہی نہیں۔
تصورِاقبالؒ تو یہ ہے کہ ملوکیت ،جمہوریت ،اشتراکیت اور اشتمالیت سبھی ایسے
نظام ہیں جو جسم کو تو غذا مہیا کرتے ہیں روح کو نہیں جبکہ اسلام ایسا
نظامِ حیات ہے جو جسم اور روح کو یکساں غذا مہیا کرتا ہے ۔اُنہوں نے
لکھا’’مسیحیت نے یہ تعلیم دی کہ دین انفرادی اور پرائیویٹ ہے جس سے بَدبخت
یورپ میں یہ بحث پیدا ہوئی کہ دین چونکہ پرائیویٹ عقائد کا نام ہے اِس لیے
انسانوں کی اجتماعی زندگی کی ضامن صرف سٹیٹ ہے۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے بنی
نوع انسان کو سب سے پہلے یہ پیغام دیا کہ دین نہ قومی ہے نہ نسلی ،انفرادی
ہے نہ پرائیویٹ بلکہ خالصتاََ انسانی ہے اور اِس کا مقصد عالمِ بشریت کو
متحد و منظم کرنا ہے‘‘۔اسی لیے اُنہوں نے فرمایا
نظامِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جُدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اقبالؒ کے تصورِ ریاست کا محورومرکز سوشلزم ہے نہ سرمایہ دارانہ نظام۔ وہ
تو ایسے کسی بھی نظام کی نہ صرف نفی کرتے ہیں بلکہ اُس سے مکمل بیزاری کا
اظہار کرتے ہوئے یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ
دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملّت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کو خسارہ
لیکن ہمارے سیکولر تجزیہ نگار تو یہ کہتے ہیں کہ دین ہمارا ذاتی معاملہ ہے
، اِس کا بھلا سیاست سے کیا تعلق ؟۔اُنہیں یہ خوف دامن گیر ہے کہ اگر دین
کو سیاست سے الگ نہ کیا گیا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ’’مولوی‘‘ حکومت پر قابض
ہوجائیں ۔افغانستان میں جب مُلّا عمر نے اسلامی ریاست قائم کرنا چاہی تو
یہی سیکولر طبقہ اُن کے شدید ترین مخالفین کی صفِ اوّل میں نظر آنے لگا
کیونکہ اِن کے نزدیک اسلامی تعزیرات وحشیانہ ہیں اور شخصی آزادی بھی ایسی
ہونی چاہیے جسے مادرپدر آزادی کہا جاتا ہے ۔جب نائن الیون کے بعد امریکہ نے
افغانستان پر یلغار کی تو سیکولر طبقے کے سینے میں ’’ٹھنڈ‘‘ پڑ گئی اور
امریکی درندگی پر اُن کے قلم خاموش ہی رہے ۔اب بھی وہ اقوامِ مغرب کی
مثالیں دیتے ہوئے یہ سمجھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ جب سے اِن اقوام نے
دیں کو سیاست سے جُدا کیا ہے وہ ترقی کی منازل تیزی سے طے کرتی جا رہی ہیں
جبکہ اقبالؒ تو یہ کہتے ہیں کہ
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ کاری ہے
لیکن کیا کیجئے کہ یہ’’جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ‘‘ ہی ہمارے مَن کو بھاتی
ہے اور ہم اسی تہذیبِ حاضرکے اسیر ہیں جس کی بِنا اقوامِ مغرب نے ڈالی اور
جس کے خلاف حضرتِ اقبالؒ نے ساری زندگی جہاد کیا لیکن اُن کے دردِ نہاں کو
سمجھنے والے شایدبہت کم تھے اسی لیے اُنہوں نے کہا
اقبال اپنا محرم کوئی نہیں جہاں میں
معلوم کیا کسی کو دردِ نہاں ہمارا |
|