بچوں کو بات چیت کا سلیقہ دیجئے
(Jaleel Ahmed, Hyderabad)
بچوں کی گفتگو ان کے ماحول اور
اردگرد موجود لوگوں‘ والدین یا بڑوں کی گفتگوکے برعکس ہوتی ہے بچے اس تناظر
میں توجہ حاصل کرنے کیلئے بھی ان جملوں کا استعمال کرتے ہیں۔ جو بڑے اکثر
بولتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ والدین انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں
بچہ والدین کی پرچھائی ہوتا ہے۔ وہ زندگی کا ہر بنیادی طرز عمل گھر سے
سیکھتا ہے۔ ہمارے مذہب میں بچے کے پیدا ہونے پر اس کے کان میں اذان یعنی
اللہ کا نام پکارا جاتا ہے تاکہ بچہ زندگی کا پہلا لفظ سنے تو اپنے تخلیق
کرنے والے کو یاد رکھے اس کے کان میں والدین کے جملے‘ باتیں اور گالم گلوچ
بھی پڑتی ہیں۔ یہ سب ان پٹ اور آؤٹ پٹ کا معاملہ ہے جو کچھ بچے کے کان میں
ان پٹ ہوگا اس کے ہونٹوں سے آؤٹ پٹ کی صورت سے باہر نکل آئے گا۔ بچہ جو کچھ
اپنے بڑوں سے سنتا ہے اس کے ذہن پر نقش ہوجاتا ہے اور پھر موقع محل ہو یا
نہ ہو وہ انہی الفاظ کو دہرا دیتا ہے۔
خوف انسان کی جبلت میں شامل ہے‘ بچے کی بری باتوں اور برے کاموں سے روکنے
کیلئے اوائل عمر سے اسے ڈرایا جاتا ہے ’’یہ نہ کرو ورنہ اللہ تعالیٰ آجائے
گا… یا اگر تم یہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ ماریں گے…‘‘ اسی طرح بچے سے کوئی
سچ اگلوانا ہو تو اسے اللہ کی قسم دلوانا بھی بڑے یا والدین سکھاتے ہیں؟بچہ
جوں جوں بڑا ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے خوف کو بھولتا جاتا ہے کیونکہ وہ
سمجھتا ہے کہ اس کی کی گئی غلطیوں پر کبھی اللہ تعالی نہیں آئیں گے۔
لیکن وہ اللہ کی قسم کو اپنی حفاظت یا بچت کیلئے استعمال کرتا ہے۔ چھوٹی
عمر میں بچے کوجھوٹ کے نقصان سمجھانا ایسا ہی جیسا ہمالیہ کی چوٹی سر کرنا…
لہٰذا کوئی بھی شرارت جب بچہ کرتا ہے وہ قسم کھا کر اس سے انکار کرتا اور
جھوٹ کا سہارا لیتا ہے۔گھر میں اگر زائد بچے ہوں اور ان کے درمیان عمر کا
فرق کم ہو تو ان کی آپس کی لڑائی اور گالم گلوچ کا طرزعمل ان کے والدین کا
عکس بن کر سامنے آتا ہے اور جب والدین اپنے چار سے دس برس کے بچوں کے منہ
سے گالیاں قسمیں اور معیوب زبان سنتے ہیں تو انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی
بے خیالی یا نظراندازی نے پانی سر سے اونچا کردیا ہے ’’اب پچھتائے کیا ہوت
جب چڑیاں چگ گئیں کھیت‘‘ کی مصداق اپنے بچوں کو بدگوئی سے بچانا عقدہ
لاینحل ہوتا ہے اور پھر یہ سوچ کر اس کی تربیت پر گامزن ہوجاتے ہیں جس میں
دیر تو ہوگئی ہے لیکن بہت زیادہ دیر نہیں ہوئی۔ کیا آپ والدین نے اس رخ
پرسوچا ہے کبھی یا نہیں!اگر نہیں… تو آج ہی سے اپنے بچوں پر نظر رکھئے اور
مشاہدہ کیجئے کہ آپ سے کوتاہی کہاں ہوئی۔ کیا آپ کے بچے نے یہ بدگوئی آپ سے
سیکھی ہے یا…
بچوں کی گفتگو جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ان کے ماحول اور اردگرد موجود لوگوں‘
والدین یا بڑوں کی گفتگوکا عکس ہوتی ہے بچے اس تناظر میں توجہ حاصل کرنے
کیلئے بھی ان جملوں کا استعمال کرتے ہیں جو بڑے اکثر بولتے ہیں۔ اس سلسلے
میں وہ والدین انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کی تربیت کے معاملے
میں بہت فکرمند اور ذمہ دار ہو تے ہیں۔ ان والدین کے پاس اس کے سوا کوئی
چارہ نہیں ہوتا کہ وہ کسی ماہر نفسیات سے پیشہ ورانہ مدد لے سکیں۔ والدین
کے آپس میں نوک جھونک‘ طعنہ زنی‘ گالم گلوچ یا غصے کی حالت میں برا بھلا
کہنا‘ بچوںکو نہ صرف سراسیمہ کرتا ہے بلکہ وہ دماغی تناؤ کی صورت میں
لاشعوری طور پر ان الفاظ کو دوھراتے ہیں اور جب وہ کسی بات پر غصہ کرتے ہیں
تو ان الفاظ کو دوہرا دیتے ہیں۔ اس قسم کے روئیے کو ماہر نفسیات Conduct
Disorderکہتے ہیں۔
ذہنی دباؤ بچوں کو تنگ نظر بناتا ہے:خراب رویے اور خراب زبان کا استعمال
بچے‘ والدین یا اساتذہ کے بھرپور کنٹرول کے باوجود بھی کرتے ہیں اور کرسکتے
ہیں۔ اس قسم کے کیس میں بچہ گالم گلوچ کے علاوہ دوسری خراب عادتیںبھی
سیکھتا ہے۔ ریسرچ بتاتی ہے کہ اس قسم کے بچوں میں نیوکیمیکل کی سطح کم ہوتی
ہے جو ان مسائل کو پیدا کرتی ہے۔ ذہنی دباؤ‘ اداسی اور عدم تحفظ بچوں کو
تنگ مزاج بنادیتا ہے۔ماہر نفسیات کے مطابق بچے کا یہ رویہ غیرصحتمندانہ
ہوتا ہے جو وہ کسی صورتحال سے نمٹنے کیلئے استعمال کرتے ہیں جو ان کی شخصیت
کو بگاڑنے میں معاون ثابت ہوتا ہے وہ شخصیت کے اس بگاڑ کو Tic Discorder
کہتے ہیں۔
اس کی دو علیحدہ علیحدہ علامات ہیں۔ پہلی علامت میں بچہ جسمانی ردعمل کا
تیز رفتاری سے مظاہرہ کرتا ہے یعنی ٹکر مارنا‘ تھپڑ مارنا وغیرہ اور دوسرا
Vocalticsہے جس میں بچہ ان باتوں کو بار بار دوہراتا ہے جس کا مطلب اسے
معلوم بھی نہیں ہوتا۔ ان علامات کا سدباب والدین کے بس کی بات نہیں ہے۔
انہیں لازمی امر کے طور پر بچے کو ماہر نفسیات یا مشورہ ساز کو دکھانا
ہوگا۔وہ والدین جن میںماہر نفسیات یا مشورہ سازوں کو بھاری بھرکم معاوضے
دینے کی سکت نہیں ہوتی ان کیلئے کچھ ہدایات ہیں لیکن پہلے بچوں میں بری
عادات پر نظر دوڑائیے آپ کو میڈیا کے برے اثرات کا بچے کے ذہن پر پڑنے کا
بخوبی ادراک ہونا چاہیے۔ بچوں میں بڑوں کا یا اپنے پسندیدہ ہیروز کی نقل
کرنے کا رجحان ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے پسندیدہ کارٹون کرداروں کی نقل
کرنا بھی پسند کرتے ہیں۔٭ بچے گفتگو کا بہت سا حصہ اپنی آیاؤں‘ سکول بس
ڈرائیور‘ گھرمیں کام کاج کرنے والی نوکرانیوں یا ماسیوں سے سیکھتے ہیں اور
اس طرح اپنے پڑوس یا پڑوسیوں سے بھی خراب الفاظ سیکھتے ہیں۔
تہذیب یافتہ والدین بھی منہ پھٹ ہوتے ہیں: بہت سے تہذیب یافتہ والدین بھی
منہ پھٹ ہوتے ہیں۔ وہ نوکروں یا ڈرائیوروں کو گالم گلوچ سے نوازتے ہیں۔ جس
سے بچے بھی ان الفاظ کا استعمال سیکھتے ہیں۔
٭ اس کے سدباب کیلئے سب سے پہلے آپ کو اس خراب زبان کو روکنا ہوگا جو آپ
دوسرے لوگوں کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ یعنی ڈرائیور‘ نوکروں یا اپنے
پڑوسیوں سے بھی۔٭ سب سے پہلے تو ان الفاظ کے معنی بچوں کو سمجھائیے انہیں
بتائیے کہ یہ بہت غلط الفاظ ہیں۔ آئندہ اگر انہوں نے یہ الفاظ کہے تو ان کو
قرار واقعی سزا دی جائے گی۔
٭ بچے کو محسوس کروائیے کہ غصہ کرنا چاہیے لیکن غصے کی حالت میں گالی یا
دوسرے کو برے الفاظ یا القاب سے پکارنا نہیں چاہیے اس تناظر میں بچوں کو
غصے کی حالت میں خود بھی عمل کرکے دکھانا چاہیے۔اسے بتائیے کہ اس حالت میں
بھی اچھی طرح صورتحال کو کیسے قابو کیا جاسکتا ہے۔ اسے بھی یہ بتائیے کہ
بری باتوں اور برے الفاظ سے دوسروں کا دل ٹوٹتا ہے۔
٭ اچھے اور پیار بھرے الفاظ خود بھی استعمال کیجئے‘ بچوں کو بھی سکھائیے
بچے اگر کوئی خراب لفظ غصے کی حالت میں بول رہے ہیں تو آپ ٹھنڈے مزاج سے
اسے روکیے اور سمجھائیے اسے پہلے پانی کا گلاس دیجئے اور سکون سے بٹھائیے
اس سے اسے غصہ کنٹرول کرنے میں بھی مدد ملے گی اور پھر آہستہ آہستہ اس کے
الفاظ پر اسے سرزش کیجئے۔
٭بچے کو اچھی کتابیں پڑھنے کو دیجئے‘ نصیحت آموز کہانیاں اور قصے‘ بچوں کو
بہت ساری اچھی باتیں سکھانے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ بچوں کو اچھے رول
ماڈل دیجئے وہ ان کی تقلید میں خود بھی اچھے رول ماڈل بننے کی کوشش کریں
گے۔
عبقری سے اقتباس |
|