مثبت رویوں سے دوسروں کے دل جیت لیں
(Jaleel Ahmed, Hyderabad)
ہم خود کبھی کسی کو یہ احساس نہ
دلائیں کہ وہ ہمارے نزدیک ایک کم تر شخصیت ہے بلکہ اپنے رویے اور اپنی
باتوں سے ہمیشہ دوسروں کی خوبیوں کو اجاگر کریں ان کو وہی عزت دیں جو ہم
اپنے لیے دوسروں سے توقع کرتے ہیں۔
ہمارے معاشرے کا شمار یوں تو مہذب معاشروں میں ہوتا ہے لیکن کچھ پہلو ایسے
ہیں جن کا موازنہ قدیم تہذیبوں سے کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ معاشرہ ایک
ایسے سیٹ اپ کو کہتے ہیں جس میں رہنے کے کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں اور ان
اصولوں سے انحراف کرنے والوں کیلئے کچھ سزاؤں کا اعادہ کیا جاتا ہے جس کی
وجہ سے معاشرہ عدم توازن کا شکار ہونے سے بچ جاتا ہے لیکن اب ہم جس قسم کے
ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اس کو کم از کم مہذب معاشرہ نہیں
کہاجاسکتا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ہنگامہ آرائیوں
نے لوگوں کے ذہن پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں جس کی وجہ سے رشتوں ناطوں میں
تلخی کا عنصر غالب آنے لگا ہے لوگ ایک دوسرے سے دور ہونے لگے ہیں اور ایک
دوسرے پر الزام تراشیاں کرکے دراصل اپنے اس ڈیپریشن کو کم کرنے کی کوشش
کرتے ہیں جو حالات کا عنایت کردہ ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ کیا ماحول میں تلخی گھول کر ہم سب کو سکون مل جاتا
ہے؟ یا ہمارے حالات بدل جاتے ہیں یاہم ایک پرسکون اور مطمئن زندگی گزارنے
کے اہل ہوجاتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔۔۔! بلکہ مہنگائی کے ساتھ ایک اور پریشانی
بھی خود پر سوار کرلیتے ہیں کہ کس طرح سے رشتوں میں دراڑ آنے سے بچاجاسکے۔
تلخ کلامی کرکے تھوڑی دیر کیلئے اپنی ٹینشن تو کم کرلی جاتی ہے لیکن
بعدازاں اپنے روئیے پر پیشمانی الگ ہوتی ہے۔ خوشی کے لمحات کے کھوجانے کا
دُکھ الگ ہے اپنی بے عزتی پر پچھتاوا اور غصہ الگ ہے اگر ایک دوسرے کی
تضحیک ہی ہمارے مسائل کا حل ہوسکتا ہے تو ہر شخص بدزبانی کرے‘ بات بے بات
طعنے دے‘ اٹھتے بیٹھتے ایک دوسرے کو برے القاب سے نوازے لیکن اس طرح ہماری
روزمرہ کی ٹینشن اور دوسرے معمولات زندگی دشواریوں کا شکار ہیں اور ہم کوئی
کام مکمل ذہنی یکسوئی کے ساتھ انجام نہیں دے سکتے۔
درحقیقت ایسا ہوتا نہیں ہے اور اسی وجہ سے اور بھی افسوس ہوتا ہے کہ ایک تو
اپنے آپ کو ہلکا بھی کیا‘ دوسروں کی نظر سے گرایا بھی اور پریشانی وہیں کی
وہیں۔ تو کیا فائدہ ایسی باتوں سے جس سے نہ خود کو فیض حاصل ہوا نہ دوسروں
کو‘ تو اب کیا کیا جائے؟ اس مشکل ترین معاشی اور معاشرتی بحران کے دور میں
خود کو کیسے نارمل رکھا جائے۔ کیا اس طرح کے لوگ ہمیں باتیں سنا کر چلے
جائیں اور ہم چپ چاپ درگزر کردیں یا کوئی طنزیہ فقروں کا نشانہ بنائے تو ہم
اپنےا ٓپ کو اس کے آگے سرنڈر کردیں۔ نہیں! بلکہ اس طرح کا رویہ اپنانے سے
ہمارا شمار بھی انہی لوگوں میں ہونے لگے گا جو کہ معاشرے میں رہتے تو ہیں
مگر ان کا ہونا نہ ہونا ایک برابر ہے کسی کو ان کے وجود کی اہمیت کا احساس
نہیں ہے اور نہ ہی کوئی فرق پڑتا ہے ان کے برا ماننے سے۔۔۔ کیونکہ وہ اس
بات کا کبھی احساس نہیں دلاتے کہ ان کو کسی کی کوئی بات بری لگتی ہے اور یہ
رویہ بھی معاشرے کو اتنا ہی نقصان پہنچا رہا ہے جتنا کہ برا رویہ کیونکہ اس
رویے کی وجہ سے لوگ دوسروں پر پاؤں رکھ کر کھڑے ہونے کے عادی ہوتے جارہے
ہیں اور اس بات میں کوئی عار بھی محسوس نہیں کرتے کہ وہ دوسروں کو اپنی
کہنیوں سے پیچھے دھکیلتے ہی جارہے ہیں کیونکہ پیچھے ہونے والوں کو جب کوئی
اعتراض نہیں تو ہٹانے والے کیوں نہ ہٹائیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سب سے پہلے ہم اپنا رول مثبت بنائیں خود کو اتنا
مضبوط بنائیں کہ کوئی ہم پر انگلی اٹھانے سے پہلے ہزار دفعہ سوچے اور لوگ
بجائے ہمارا مضحکہ اڑانے کےہمیں قابل تقلید سمجھیں اور ہماری روش کو اپنانے
کی کوشش کریں۔ سب سے پہلے تو ہمیں خود کو اس بات کایقین دلانا ہے کہ ہم سب
اپنے اعمال کیلئے جواب دہ ہیں اس معبود کے سامنے جس نے تمام انسانوں کو
تخلیق کیا ہے اور وہ سب کا رب ہے‘ سب کا رازق ہے ان کا بھی جو اس کو مانتے
ہیں اور ان کا بھی جو اس کے وجود کے (نعوذباللہ) منکر ہیں۔ اس کے بندے اس
کے اپنے تخلیق کردہ انسان کیسے کیسے کاموں کے مرتکب ہوتے ہیں پھر بھی وہ ان
سے منہ نہیں پھیرتا ان کا رزق بند نہیں کرتا تو پھر ہم جو خاک سے سے بنے
پتلے ہیں جن کی کوئی وقعت نہیں کیونکر ایسے لوگوں سے متنفر ہوجاتے ہیں جن
سے ہمارا رشتہ وقتی ہے جن سے ہمارا واسطہ بھی صرف اس دنیا تک ہے۔ اگر ہم سب
یہ سوچ لیں کہ ہم اپنے اللہ کیلئے کوئی کام کررہے ہیں پھر کسی بھی کام کو
کرنے میں کوئی مشکل نہیں رہے گی۔
اگر ہم اپنے رویے میں مثبت تبدیلی کے خواہاں ہیں تو اس کیلئے کیا کرنا ہوگا
یا اپنی سوچ کو مثبت طرز فکر دینے سے کیا مراد ہے؟ اس سے مراد یہی ہے ہم
خود اپنی طرف سے کسی کا کوئی ایسا پہلو تلاش نہ کریں جو لائق تضحیک ہو یا
خود کسی حرکت سے کسی کی دل آزاری نہ کریں۔ ہم خود کبھی کسی کو یہ احساس نہ
دلائیں کہ وہ ہمارے نزدیک ایک کم تر شخصیت ہے بلکہ اپنے رویے اور اپنی
باتوں سے ہمیشہ دوسروں کی خوبیوں کو اجاگر کریں ان کو وہی عزت دیں جو ہم
اپنے لیے دوسروں سے توقع کرتے ہیں۔
عبقری سے اقتباس |
|