پولیس کی مہربانی

تقریباً ہر پاکستانی کے مزاج میں منفی رجحانات در آئے ہیں۔ بات بات پر اختلاف کرنا فطرتِ ثانیہ کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پورا ملک اختلافات کی دلدل میں دھنس کر رہ گیا ہے۔ بیڈ لک کا نصیب بلندی پر ہے! سونے کی ڈلی کو ہاتھ لگائیے تو مِٹّی کے ڈھیر میں تبدیل ہونے لگتی ہے۔

صورتِ حال ایسی گنجلک ہوگئی ہے کہ اب نجات کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ ’’جو ذرّہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے‘‘ کے مصداق کوئی بھی اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ کہیں پسپائی ناگزیر ہو تو بھی کوئی پسپا نہیں ہوتا۔ کوئی اپنے ’’اسٹیک‘‘ میں سے ذرّہ بھر بھی داؤ پر لگانے کا روادار نہیں۔ ہر گزرتا ہوا دن عوام میں اِس یقین کو پُختہ تر کر رہا ہے کہ کسی پر بھروسہ کرنے کا مطلب ہے گئے کام سے۔ بے یقینی یُوں بڑھتی جاتی ہے کہ دل بیٹھا جاتا ہے۔ آنے والے دنوں کا سوچ سوچ کر من میں ہَول سا اُٹھتا ہے کہ یہ سلسلہ کہاں رُکے گا۔

مرزا تنقید بیگ کو ہم نے ہر طرح کے ماحول میں زندہ دل پایا ہے۔ اِس پر ہم اُنہیں حیرت نہیں، رشک سے دیکھتے ہیں۔ حیرت اِس لیے نہیں ہوتی کہ مرزا کسی بھی بات کو دل پر لینے کے قائل نہیں۔ جب کچھ محسوس ہی نہیں ہوگا تو تکلیف بھی نہیں ہوگی۔ اُنہیں ’’ٹپیکل‘‘ پاکستانی قرار دیا جاسکتا ہے۔

گزشتہ روز معمول کی ڈرائنگ روم ملاقات میں ہم نے مرزا کی توجہ معاشرے کی عمومی روش یعنی بے چینی اور افسردگی کی طرف دلائی تو اُنہوں نے حسبِ عادت پہلے تو ہماری سوچ کو ’’خراجِ عقیدت‘‘ پیش کیا۔ اِس ’’نیکی‘‘ سے فراغت پاکر کہنے لگے۔ ’’مایوس ہونا تو اب ہمارے لیے آپشنل معاملہ ہوگیا ہے۔ یعنی جب جی چاہے، مایوسی کے گڑھے میں گِر جائیے۔ خواہ مخواہ مایوس ہونے اور دل مَسُوس کر رہ جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ابھی ایسا بہت کچھ ہے جو دل بہلانے کے لیے انتہائی کافی ہے۔‘‘

ہم حیران ہوئے کہ ایسا کیا ہے جو دل بہلانے کے لیے انتہائی کافی ہے۔ وضاحت چاہی تو مرزا نے بات آگے بڑھائی۔ ’’پورا کا پورا سیاسی عمل کامیڈی تھیٹر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اور کیا چاہتے ہو؟ ایسے میں یہ غم کیوں پالا جائے کہ دل کیسے بہلے گا؟ دل بہلانے والے موجود ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ دل کو بہلنا آتا بھی ہے یا نہیں۔‘‘

ہم نے مرزا کو یاد دلایا کہ آپ دل کو بہلانے کی بات کرتے ہیں، اب تو دل ہی نہیں رہے! یہ سن کر مرزا نے ایک بار پھر ’’عزت افزائی‘‘ کے طور پر ہماری ’’بصیرت‘‘ کے حوالے سے چند ’’توصیفی‘‘ کلمات ادا کئے! پھر کہنے لگے۔ ’’اب اِس قدر بھی مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ ابھی اﷲ کے ایسے بندے ہیں جو دُکھی دلوں کو راحت اور بے قرار روحوں کو سُکون پہنچانے کا بیڑا اُٹھائے ہوئے ہیں۔‘‘

ہم نے وضاحت چاہی کہ ایسے بندے ہیں کہاں، ذرا ہمیں تو درشن کرائیے۔ مرزا نے پولیس کے محکمے کا نام لے دیا۔ ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ ہم سوچنے لگے یہ محکمہ تو خود سِتم ظریفی کا شکار ہے۔ ایک طرف تو اِس میں طرح طرح کے کرپٹ لوگ بھرے ہوئے ہیں اور جو کرپٹ نہیں ہیں اُنہیں عوام مطعون کرتے رہتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پولیس والے گھر کے رہے ہیں نہ گھاٹ کے۔ سیاست دان اِنہیں ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتے ہیں اور عوام موقع ملتے ہی سارا غُصّہ اِن پر اُتار بیٹھتے ہیں۔ جو خود مذاق بن کر رہ گئے ہیں وہ بے چارے کسی کو کیا ہنسائیں گے، کسی کا دل کیا بہلائیں گے؟

ہمیں سوچوں میں گم دیکھ کر مرزا نے کہا۔ ’’پولیس میں ایک شعبہ ایسا ہے جو اپنے ’حسنِ کارکردگی‘ کی بنیاد پر عوام کی تفریحِ طبع کا سامان کرتا رہتا ہے۔ ہم شعبۂ تفتیش کی بات کر رہے ہیں۔ اِس شعبے کے کِھلائے ہوئے گُل ہر مشامِ جاں کو معطّر کردیتے ہیں۔ تفتیش کے نام پر جو طبع آزمائی کی جاتی ہے وہ اگر پوری توجہ اور ڈھنگ سے ضبطِ تحریر میں لائی جائے تو لافانی اور کلاسک قسم کا مزاح اہلِ ذوق کو میسر ہو!‘‘

ہم نے مرزا کی بات پر غور کیا تو اندازہ ہوا کہ ہم تفنّن طبع کے کتنے عظیم مآخذ کو مِس کر رہے تھے! کم ہی لوگ اِس نُکتے پر غور کرتے ہیں کہ پولیس کے تفتیشی افسران خاطر خواہ ٹی اے ڈی اے پائے بغیر پتا نہیں کہاں کہاں جاکر یعنی بہت دُور کی کوڑیاں لاتے ہیں! کسی بھی کیس میں بظاہر باہم کوئی مطابقت نہ رکھنے والی باتوں کو وہ کڑیوں کی شکل میں جس طور ملاتے ہیں وہ فن کچھ اُنہی پر ختم ہے! ایسی ایسی تھیوریز لاتے ہیں کہ مجرم بھی پڑھتے ہوں گے تو اُن کے سَر چکرا جاتے ہوں گے۔ یہی سبب ہے کہ اخبارات میں بھی لوگ جرائم اور اُن کی تفتیش سے متعلق خبریں بہت شوق سے پڑھتے ہیں۔ سوچنے والے سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ پولیس کے تفتیش کاروں کو ایسے عظیم نُکات سُوجھتے کیسے ہیں۔ ع
یہ اُس کی ’’دَین ہے، جسے پرودگار دے!

مرزا نے مزید وضاحت فرمائی۔ ’’عوام کو ہنسانے کے معاملے میں یُوں تو پولیس کا خفیہ اطلاعات کا شعبہ بھی کسی سے کم نہیں مگر تفتیشی شعبہ بازی لے جاچکا ہے۔ اور اِس شعبے میں بھی چند ماہرین ایسے ہیں جو اپنے فن میں انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں۔ اِن کی مہارت نے قومی ہم آہنگی کو فروغ دینے اور تمام پاکستانیوں کو ایک ’مرکز‘ پر لانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔‘‘

پولیس کے ماہرین اور قومی ہم آہنگی کا فروغ؟ یہ بات اول تو ہمارے حلق سے اُتری نہیں۔ اور بمشکل اُتار پائے تو ہضم نہ کرپائے۔ وضاحت چاہی تو مرزا نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سلسلۂ کلام جاری رکھا۔ ’’پولیس کے شعبۂ تفتیش میں کام کرنے والے ماہرین نے ایک ایسا آئینہ بنایا ہے جس میں ہر پاکستانی دکھائی دیتا ہے۔ کوئی اگر خود کو کہیں نہیں پاتا تو اِس آئینے میں جھانک لے، اپنے آپ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوجائے گا۔‘‘

ہم نے کہا مرزا! یُوں پہیلیاں نہ بُجھواؤ۔ ہمارے تجسّس اور اضطراب کی آگ بھڑکتی جارہی ہے۔ اِس سے پہلے کہ ہم اِس آگ میں بھسم ہوجائیں، دیگ پر سے ڈھکّن ہٹادو اور سب کچھ صاف صاف بتادو۔

مرزا نے ہماری حالت دیکھی تو تمہید و پیش لفظ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کہا۔ ’’ہم ملزمان کے اُن خاکوں کی بات کر رہے ہیں جو کسی بھی واردات کے عینی شاہدین کے بیانات کی روشنی میں تیار کئے جاتے ہیں! ماہرین کا کمال یہ ہے کہ اِن خاکوں میں مُلک کے ہر حصے کی نمائندگی ممکن بناتے ہیں۔ کسی بھی ملزم کے خاکے کو ذرا انہماک سے دیکھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ چہرے کے مرکز سے ہر صوبے کو ایک راستہ جارہا ہے۔ بسا اوقات خد و خال میں آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور قبائلی علاقوں کی بھی خوب نمائندگی ہورہی ہوتی ہے! عینی شاہدین جو کچھ بیان کرتے ہیں وہ سب کا سب ماہرین اِن خاکوں میں سَجا دیتے ہیں۔ رپورٹ میں درج ہوتا ہے کہ عینی شاہد کے مطابق ملزم کا رنگ خاصا کُھلا ہوا یعنی سفید تھا۔ مگر خاکے میں بال گھنگھریالے دکھائے جاتے ہیں اور چہرے کے نقوش بھی خاصے ’حبشیانہ‘ ہوتے ہیں۔ عینی شاہد کے بیان کے مطابق ملزم دیہاتی یا مزدور قسم کا تھا مگر خاکہ دیکھیے تو پیشانی اور آنکھوں سے دانشوری جھلک رہی ہوتی ہے۔ ایک ہی خاکے میں چار پانچ نسلوں کے نقوش براجمان ملتے ہیں! کبھی عینی شاہدین کو حُسن بیان کی داد دینے کو جی چاہتا ہے اور کبھی خیال آتا ہے کہ بیان کردہ ’حقائق‘ کی بنیاد پر خاکے بنانے والوں کے ہاتھ چُوم لیے جائیں!‘‘

مرزا کی بات میں دم ہے۔ جب بھی پولیس کے تیار کردہ ملزمان کے خاکے اخبارات میں شائع ہوئے ہیں، ہم نے خاصے دھڑکتے دل کے ساتھ اُن پر نظر ڈالی ہے! نقوش کچھ اِس طرح کے بنائے جاتے ہیں کہ ہر دیکھنے والے کو خاکے میں اپنی ہی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ کبھی کبھی تو یوں بھی ہوا ہے کہ ملزمان کے خاکوں والا اخبار مرزا گھر اور مُحلّے والوں سے چُھپاتے پِھرے ہیں! یعنی پولیس کے شعبۂ تفتیش کی مہربانی سے کم از کم ایک نقطہ تو ایسا ہے جس پر تمام پاکستانی جمع دکھائی دیتے ہیں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 480742 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More