ماہر کتابیات و کتابدار ۔اختر ایچ صدیقی سے ایک مکالمہ
(Dr Rais Samdani, Karachi)
سابق چیف لا ئبریری و ڈاکیو
من ٹیشن۔ پاکستان انسٹی ٹیوت آف ڈیولپمنٹ اکنامکس، اسلام آباد
(اختر صدیقی صاحب مئی۲۰۰۵ء میں انتقال کر گئے ، یہ ان کی زندگی کا آخری
انٹر ویو ہے)
( یہ مکالمہ ر اقم الحروف نے اپنی پی ایچ ڈی تحقیق کے لیے کیا گیاجو موضوع
کی تحقیقی ضرورت تھا۔ انٹر ویو مقالے میں شامل ہے۔ مقالے کا عنوان ہے ’’
پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی تر قی میں شہید حکیم
محمد سعید کا کردار ‘‘ ۔ اس تحقیق پر راقم الحروف کو ۲۰۰۹ء میں جامعہ ہمدرد
سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض ہوئی،صدیقی صاحب سے یہ مکالمہ ۱۵ دسمبر ۲۰۰۳ء کو
اس وقت ہوا جب وہ اسلام آباد سے کراچی آئے ہوئے تھے۔ جون ۲۰۰۳ء میں میرا
داخلہ پی ایچ ڈی میں ہوچکا تھا اور میں نے تحقیقی کام کا آغاز کر دیا تھا۔
صدیقی صاحب سے میرے مراسم باوجود عمر کے فرق کے دوستانہ تھے۔ میں نے ان پر
انگریزی میں ایک کتابیات بعنوان Akhtar H. Siddiqui: A Bio-Bibliographical
Study بھی مرتب کی تھی جو ۱۹۹۵ ء میں شائع ہوئی تھی۔ صدیقی صاحب کو پاکستان
میں کتابیات سازی کا ماہر کہا جاسکتا ہے جنہوں نے تن تنہا ۵۰ سے زیادہ
کتابیات مرتب کیں۔ صدیقی صاحب اب ہمارے درمیان نہیں ۔ اﷲ تعالیٰ انہیں اپنے
جوارِ رحمت میں جگہ دے آمین۔ پیش نظر مکالمہ سے ایک ماہر کتابیات اور
کتابدار کے خیالات پیشہ ورانہ موضوعات اور شہید حکیم محمد سعید کی شخصیت
پرسامنے آتے ہیں جن سے نئے لکھنے والے استفادہ کرسکتے ہیں)
تعارف :
اختر ایچ صدیقی پا کستان لا ئبریرین شپ کے سینئر ترین لائبر یرینز ڈاکٹر
عبدالمعید، فضل الٰہی ،سید ولایت حسین شاہ، محمد شفیع، جمیل نقوی، ابن حسن
قیصر، نور محمد خان اور فرحت اﷲ بیگ کے ساتھیوں میں سے ہیں۔کرا چی لائبریری
ایسو سی ایشن ، پاکستان لا ئبریری ایسو سی ایشن اور پاکستان ببلوگرافیکل
ورکنگ گروپ کے بانی رکن ہیں اور ان کی پیشہ ورانہ سر گر میوں میں بڑھ چڑھ
کر حصہ لیتے رہے ہیں ۔ آپ نے ۱۹۴۸ء میں پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز بطور
لائبریرین این ای ڈی گورنمنٹ انجینئرنگ کالج کراچی(اب یہ انجینئر نگ
یونیورسٹی ہے) سے کیا۔ حکومت کے محکمہ ٹیرف کمیشن، پاکستان نیشنل سائنٹیفک
و ٹیکنیکل ڈاکیو من ٹیشن سینٹر میں خدمات انجام دینے کے بعدپاکستان انسٹی
ٹیوٹ آف ڈیولیپمنٹ اکنامکس(PIDE) کے چیف لائبریری و ڈاکیو من ٹیشن آفیسر کی
حیثیت سے ۱۹۸۳ء میں ریٹائر ہوئے۔ اسلامک ڈاکیو من ٹیشن و انفارمیشن سینٹر
کے ڈائریکٹر بھی رہے۔ اختر صدیقی صاحب نے پیشہ ورانہ تعلیم کی ابتدا ۱۹۵۰ء
میں لائبریری سائنس کے سرٹیفیکٹ کورس سے کی ، ۱۹۶۲ء میں آپ نے (Loughborough)
سے ڈاکیو من ٹیشن و انفارمیشن سائنس کا سر ٹیفیکٹ کورس پاس کیا ۔ مصنف کی
حیثیت سے آپ نے متعدد کتابیں اور کئی مضامین تحریر کئے،کتابیات سازی آپ کا
پسندیدہ مشغلہ رہا ہے آپ نے تن تنہا ۵۴ سے زیادہ حوالہ جاتی ماخذ مر تب کئے۔
صدیقی صاحب سے یہ گفتگو آپ کی کراچی آمد کے موقع پر آپ کے بیٹے کی رہائش
گاہ واقع بہادر آباد میں ۱۵ دسمبر ۲۰۰۳ء کو ہو ئی۔
۱ : آپ پاکستان لا ئبریرین شپ کی ان شخصیات میں سے ہیں جو قیام پا کستان کے
فوری بعد ملک میں کتب خانو ں کے قیام و ترقی اور لا ئبریری تحریک کی عملی
جدوجہد میں شریک رہے۔ یہ فرمائیں کہ اس تحریک کا آغاز کیسے ہوا اور فعال کر
دار ادا کرنے والوں میں کون کون لوگ شامل تھے؟
ج : پاکستان میں لا ئبریری تحریک کا آغاز ۱۹۴۸ء میں لا ہور سے ہوا جب پنجاب
لا ئبریری ایسو سی ایشن کا قیام عمل میں آیا۔ ۱۹۴۹ء میں اس کا نام تبدیل کر
کے مغربی پا کستان لا ئبریری ایسو سی ایشن رکھ دیا گیا۔اس ایسو سی ایشن نے
لا ئبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی کے لئے تو کو ئی کام قابل
ذکر نہیں کیا البتہ اس کے تحت اسکول آف لا ئبریرین شپ قائم کیا گیا۔ ڈپلومہ
کی سطح پر ۴۔۶ ما ہ کے دورانیے کا لا ئبریری سائنس کا کورس شروع کیا گیا،
اس کا صرف ایک چھ ماہ کے دورانیے کا سیشن ہوسکا اس کے علاوہ
Correspondenceکے ذریعہ سے بھی تعلیم دی گئی۔اس ایسو سی ایشن کا بنیادی
مقصد شاید یہی تھا۔یہ WPLAکا اسکول ۱۹۵۰ء تک قائم رہا۔ا س کے بانیوں میں
فضل الٰہی مرحوم جو اسکول کے ڈائریکٹر بھی مقرر ہوئے، ڈاکٹر عبدالمعید
مرحوم، خواجہ نور الٰہی مرحوم، ڈکٹر عبداﷲ مرحوم جو پنجاب یونیورسٹی کے
شعبہ اردو کے سر براہ تھے ساتھ ہی یونیورسٹی کے اعزازی لا ئبریرین بھی تھے
اور محمد امین جو لا ہور کے ایک مشہور بک سیلر تھے ان کی دکان کا
نامPublishers United تھاجو اب بھی قائم ہے۔ WPLAاور اس کا اسکول اس وجہ سے
قائم نہ رہ سکے کہ اس کے کر تا دھرتا یعنی فضل الٰہی اورعبدالمعید مرحوم
کراچی آگئے۔ ڈاکٹر عبدالمعید مرحوم سندھ یونیورسٹی کے لا ئبریرین مقرر ہو
ئے( سندھ یونیورسٹی ان دنوں کراچی ہی میں تھی) اس طرح فضل الٰہی مرحوم نے
لا ئبریرین کی حیثیت سے لیاقت پبلک لا ئبریری کا چارج سنبھال لیا، یہ لا
ئبریری نواب زادہ لیاقت علی خان مرحوم کی یاد میں قائم کی گئی۔ یہ لا
ئبریری اس وقت مسلم لیگ ھال میں واقع تھی جو کراچی کے علاقے بولٹن مارکیٹ
کے گھنٹہ گھر کے سامنے ایم اے جناح روڑ(بندر روڈ) پر واقع تھا۔کچھ عرصہ کے
بعد اس لا ئبریری کا نا م تبدیل کر کے لیاقت نیشنل لا ئبریری رکھ دیا گیا
اور کچھ عرصہ کے بعدیہ لا ئبریری پاکستان سیکریٹیریٹ میں منتقل کر دی گئی،
یہ پا کستان میں لا ئبریری تحریک کا پہلا آغاز تھا۔ تین سال بعد یعنی ۱۹۴۹ء
میں دوسری تحریک کا آغاز بھی کراچی میں ہوا جب کراچی لا ئبریری ایسو سی
ایشن قائم کی گئی اس کے تحت بھی ایک لا ئبریری اسکول قائم کیا گیا جس کی
تعلیم کا دورانیہ غالباً چار ماہ کا تھااور یہ سرٹیفیکیٹ کی سطح کا تھا۔
KLAکا بنیادی مقصدلائبریری سائنس کی تعلیم دینا تھا۔ اس ایسو سی ایشن نے کو
ئی خاص کا م نہیں کیا اور صرف اسکول پر ہی قناعت کی، KLAاور اسکول کو قائم
کر نے میں سید ولایت حسین شاہ مرحوم ، مولانا محمد شفیع مرحوم، نور محمد
خان مر حوم اور جمیل نقوی مرحوم نے نمایاں کردار ادا کیا، یہی حضرات اسکول
میں تعلیم دیتے تھے اس کے پہلے صدر حسن علی عبدالرحمٰن تھے جو کراچی کے
مشہور ایڈووکیٹ اور اسلامیہ کا لج کے پرنسپل بھی تھے۔ایک سال بعد ۱۹۵۰ء میں
پاکستان ببلو گرافیکل ورکنگ گروپ اور اس کے تحت اسکول آف لائبریرین شپ بھی
قائم ہوا۔ اس ادارے نے ملک میں لائبریری تحریک کے فروغ میں کلیدی کر دار
ادا کیا۔
پا کستان بننے کے ۱۰ سال بعد یعنی ۱۹۵۷ء میں لا ئبریری تحریک کا تیسرا دور
کراچی سے شروع ہوا۔ پا کستان ببلوگرافیکل ورکنگ گروپ نے اپنی ایک میٹنگ ۶
جو لائی ۱۹۵۴ء میں ایک قرارداد پا س کی جس کے تحت کہا گیا کہ یہ وقت ہے کہ
اب پاکستان لا ئبریری ایسو سی ایشن کو قائم کرنے کے لیے کا م شروع کیا جائے۔
اس مقصد کے لیے جنا ب قاضی حبیب الدین احمد جو گروپ کے نا ئب صدر تھے اور
حکو مت پا کستان کے شعبہ لا ئبریریز و آرکائیوز کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر بھی تھے
ان کو کنوینر مقرر کیا گیا تھا اور ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی تھی جس کے
اراکین میں اختر صدیقی، سید ولایت حسین شاہ مر حوم،خواجہ نورالٰہی مر حوم،
فضل الٰہی مر حوم شامل تھے۔ڈاکٹر عبدالمعیدمر حوم اس وقت امریکہ میں تھے ان
کی واپسی پر انہیں بھی ایڈ ہاک کمیٹی میں شامل کر لیا گیا۔ان کے علاوہ ابن
حسن قیصر، عبیداﷲ سیفی، حامد حسن رضوی اور وکیل احمد جعفری کو بھی ایڈہاک
کمیٹی میں شامل کر لیا گیا۔ پی ایل اے کے قائم کر نے میں جو لا ئبریرینز
حضرات پیش پیش تھے ان میں ڈاکٹر عبدالمعید مرحوم، قاضی حبیب ا لدین احمد،
اخترصدیقی، خواجہ نور الٰہی مرحوم(لاہور)، عبدا لصبوح قاسمی مر حوم(پشاور)،
ڈاکٹر محمد علی قاضی مر حوم (حیدرآباد)، ابن حسن قیصر مر حوم، حامد حسن
رضوی مر حوم(کر چی)، عبیداﷲسیفی(کراچی)، محمد صدیق (سابقہ مشرقی پاکستان)،
احمد حسین(ڈھاکہ)، مطاہر علی خان (ڈھاکہ) اور حمایت علی مرحوم شامل تھے۔
پی ایل اے قائم ہوجانے کے بعد پورے ملک سے ۴۰ لا ئبریرین حضرات نے ممبر شپ
حاصل کی، سالانہ چندہ پانچ روپے مقرر کیا گیا اس طرح کل ۲۰۰ روپے حاصل ہو
ئے یہ رقم الیکشن اور دیگر اخراجات کے لئے بہت کم تھی اس میں مزید اضافہ
چند مقامی بک سیلرز کے مالی تعاون سے ہو سکا۔ ممبر سازی کے بعد الیکشن کا
مر حلہ شروع ہوا، انتخابات ڈاکٹر محمود حسین مر حوم کی سر براہی میں ہو ئے،
الیکشن کے نتیجے میں پی ایل اے کی جومنتظمہ منتخب ہو ئی اس کے عہدیداران
میں نائب صدور، قاضی حبیب الدین احمد(کراچی)، اے رحیم خان(لاہور)، ایم ایس
خان (ڈھاکہ)، سیکریٹری جنرل، ڈاکٹر عبدالمعید، ا سسٹنٹ سیکریٹری، اختر ایچ
صدیقی، خازن، عبیداﷲسیفی،اراکین میں خواجہ نور الٰہی، احمد حسین، ڈبلیو اے
جعفری، ابن حسن قیصر، عبدا لصبوح قاسمی شامل تھے۔ صدارت کے لئے مجلس منتظمہ
نے متفقہ طور پر ڈاکٹر محمود حسین مرحوم کو پی ایل اے کی صدارت کی پیش کش
کی جو ڈاکٹر صاحب نے قبول کر لی، وہ پی ایل اے کے صدر ۱۹۵۷ء ۔ ۱۹۶۱ء اور دو
سری بار ۱۹۷۳ء تک صدر رہے۔
پی ایل اے کی پہلی کانفرنس کراچی میں ۹۔۱۲ جنوری ۱۹۵۸ء میں ڈاکٹر محمودحسین
مرحوم کی صدارت میں ہو ئی جس کا افتتاح اس وقت کے صدر مملکت میجر جنرل
اسکندر مرزانے کیا۔ اس کی سولھویں کانفرنس ۱۹۹۷ء میں اسلام آباد میں منعقد
ہو چکی ہے۔ تیسرا آغاز دیر پا ثابت ہوا ، یہ ایسو سی ایشن اپنی عمر کے ۴۷
سال پورے کر چکی ہے۔ لا ئبریری تحریک کے فروغ ‘کتب خانو ں کی ترقی اور
پروفیشن کی بہتری کے لیے پی ایل اے کا کام جاری وساری ہے۔
۲ : پاکستان میں لا ئبریری تحریک کے فروغ میں اسپل(SPIL)اور حکیم محمد سعید
کے کردار کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
ج : کتب خانوں کے قیام ‘ترقی اور لا ئبریری تحریک میں اسپل(SPIL)اور حکیم
محمد سعیدکا کردار اہم اور بنیادی نوعیت کا ہے۔ آپ کا یہ اقدام تحسین کی
نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
۳ : حکیم محمد سعید شہید کے قائم کر دہ شہر علم مدینتہ الحکمہ کے با رے میں
آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
ج : شہر علم مدینتہ الحکمہ شہید حکم محمد سعید کا ایک عظیم کارنامہ ہے ۔
مدینتہ الحکمہ کا نا م لیتے ہی حکیم محمد سعید شہید کی یاد آئیگی اس علم کے
شہر کے قیام سے حکیم محمد سعید شہید نہ صرف طب اور حکمت کے شعبوں میں بلکہ
علم کی دنیا میں زندہ جاوید رہیں گے۔
۴ : آخر میں کیا آپ اس موضوع کے بارے میں کچھ کہنا چاہیں گے؟
ج : آپ نے جس موضو ع کا انتخاب کیا ہے وہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔پا کستان میں
کتب خانو ں کی تر قی اور لائبریری پروفیشن کے لیے شہید حکیم محمد سعید اور
انجمن فروغ و تر قی کتب خانہ جات کی خدمات ہماری تاریخ کا ایک اہم حصہ ہیں
پاکستان لائبریرن شپ کے کسی بھی پہلو پر تحقیق کر نے والا کوئی بھی مورخ
شہید حکیم محمد سعید اور انجمن فروغ و تر قی کتب خانہ جات کی بے مثال خدمات
کا احاطہ کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پاکستان میں کتب خانو ں کی تر قی اور فروغ
میں حکیم محمد سعید شہیدؒ کے کر دار سے متعلق یہ تحقیقی کارنامہ نہایت ہی
مفید ثابت ہو گا۔ میری رائے میں یہ تحقیق لا ئبریری لٹریچر میں ایک گرانقدر
اضافہ ثابت ہو گی ۔ اس سے نہ صرف پروفیشنل بلکہ وہ حضرات جو اس پروفیشن سے
تعلق نہیں رکھتے ان کے لئے بھی یہ تحقیق مفید ہوگی اور لا ئبریرین حضرات تو
اس تحقیق سے بہت استفادہ کریں گے۔
( یہ انٹر ویو صدیقی صاحب کی کراچی آمد کے موقع پر آپ کے بیٹے کی رہائش گاہ
واقع بہادر آباد میں ۱۵ دسمبر ۲۰۰۳ء کو لیا گیا) |
|