بہتر ہے ستا روں پر نہ ڈالو کمندیں
انسان کی خبر لو کہ وہ دم توڑ رہا ہے
عوام ، ہمارے ملک میں عوام سے مراد وہ عام لوگ ہیں جن کے نصیب میں بم
دھماکوں میں ٹکڑے ٹکڑ ے ہو کر بکھر جانا ہے جن کو بچانے والے ادارے انٹیلی
جنس کی روپورٹ کے باوجود ان کی حفاظت کے لیے اقداات نہیں کرتے ۔ اور کسی
بھی دہشت گردی کے واقع کے بعد اظہارِ افسوس کر کہ انھیں مطمئن کر دیا جاتا
ہے ۔ اگر کسی وی آئی پی کو کسی سڑک سے گزرنا ہو توانھیں کیڑے مکوڑوں کی طرح
سڑکوں پر روک دیا جا تا ہے اور اس وقت تک یہ لوگ اس سڑک پر سفر نہیں کر
سکتے جب تک کہ وہ وی آئی پی اس سڑک سے گزر نہ جائے۔چاہے اس میں آدھا گھنٹہ
گزر جائے یا ایک یا اس سے زیادہ ۔کوئی مریض ہو یا کوئی بزرگ ہر ایک کو
گھنٹوں ان وی آئی پیز کے گزر جانے کا انتظار کرنا پڑھتا ہے ۔اگر احتجاج کی
غرض سے ایوان ِاقتدار کا رخ کریں تو انھیں مویشیوں کی طرح ہانکا جاتا ہے
اور ان پر گولیا ں چلائی جاتی ہیں ۔ وہ اپنے مطالبات پورے کروانے کے لیے
جتنے دن مرضی احتجاج کرتے رہیں اہل ِاقتدار کے کانوں پر جوں تک نہیں
رینگتی۔سیاست دانوں کے فارم ہاؤس کو بچانے کی خاطر سیلاب کا رخ ان کی
بستیوں کی طرف موڑ کر بستیوں کی بستیاں تباہ کر دی جاتی ہیں ۔ ان کی فصلیں
، مویشی ، گھر سب تباہ ہو جائیں یا وہ جان سے جائیں ان کا کوئی پرسان ِ حال
نہیں ہے ۔یہ بھوک اور افلاس سے مر رہے ہوتے ہیں تو ان کا کوئی پرسانِحال
نہیں ہوتا ۔کوئی منتخب نمائندہ ان کی مدد کو نہیں پہنچتا ۔ جب ان پر
ہندوستان کی جانب سے گولیوں کی بوچھاڑ کی جاتی ہے اور بلا اشتعال بارود کا
استعمال کیا جاتا ہے تو ان کے منتخب کردہ سیاست دان خاموش رہتے ہیں اور ان
کے وزیر اعظم خیر سگالی کے طور پر آموں اور ساڑھیوں کی پیٹیاں بھجتے ہیں ۔جن
کی حیثیت یہ ہی کہ سیاست دان ان کی آنکھوں پر وعدوں کی پٹی باندھ کر جلسے
جلسوں میں انھی کے بل بوتے پر کامیابیاں حاصل کرتے ہیں ، انھیں اپنے مفاد
کے لیے استعمال کرتے ہیں لیکن جب یہی سیاست دان ایوانِاقتدار میں پہنچ جاتے
ہیں تو پلٹ کر اپنے جلسوں میں شامل ووٹروں کا حال تک پوچھنا گوارا نہیں
کرتے ۔
جبکہ اہل اقتدار اپنے مفاد اور شہرت کی خاطر میٹرو بس پر اربوں روپیہ لگا
دیتے ہیں لیکن اس پیسے سے کوئی نیا ڈیم نہیں بنایا جاتا ، نہ ہی کوئی
انڈسڑی لگائی جاتی ہے کہجو پڑھے لکھے نوجوان وہ بے روزگار ہیں ان کو روزگار
مل سکے ۔میٹرو بس ہی کی سڑکوں پر بھیک مانگتے لوگ شاید نسلوں سے اس ابن ِ
مریم کے انتظار میں ہیں جو آئے گا اور انھیں روزگار کا کوئی موقع مل سکے گا
۔ یہ اہل ِاقتدار پڑھے لکھے نوجوانوں میں اربوں روپے کے لیپ ٹاپ بانٹے ہیں
کیا یہ لیپ ٹاپ ان کو روزی کمانے کا ذریعہ دے سکتے ہیں یا الٹا ان کی
اخلاقیات کا جنازہ نکالنے میں مددگا ر ہے ۔یہ اہل اقتدار پڑھے لکھے
نوجوانوں کے لیے لاکھوں روپے کی قرضہ سکیم شروع کرتے ہیں تو اس کی شرائط اس
قدر سخت اور اس طرح کی ہیں کہ کوئی غریب اور مجبور پڑھا لکھا نوجوان ان
شرائط کو پورا کر ہی نہیں سکتا۔اور یہ قرضے کس کو دئے گئے ؟ دئے گئے بھی یا
نہیں ؟ یہ پوچھنے والا کوئی نہیں ہے ۔
تھر میں پھر سے موت نے اپنے پنچے گاڑھنا شروع کر دیئے ہیں ۔ چند ماہ پہلے
بھی اس علاقے میں موت کے مہیب سائے چھائے ہوئے تھے اور اب پھر سے بھوگ،
پیاس تھر کے لوگوں کی زندگی کے دن ختم کرنے لگی ہے ۔ تھر کی سسکتی زندگیاں
، اربابِ اختیار کی جانب مدد طلب نظروں سے دیکھ رہی ہیں ۔ روزانہ مرتے ہوئے
بچوں کی آنکھیں کسی موسی ٰ کے انتظار میں ہیں ۔ لیکن ان کی مدد کرنا ، ان
کے لیے عملی اقدام کرنا تو درکنار کوئی ان کی مدد کی ذمہ داری لینے کو بھی
تیار نہیں ۔نہ صوبائی حکومت ، نہ وفاقی حکومت ۔ ہر روز ایک کے بعد دوسری
رپورٹ بنتی ہے ۔ ٹاک شوز میں بیٹھ کرایک دوسر ے کو موردِالزام ٹھہرانے والے
مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی نمائندے گھنٹوں اس بات پر بحث کرتے
ہیں کہ اس کی وجوہات کیا ہیں ؟ یہ اموات کیوں ہو رہی ہیں ؟ ایک کے بعد
دوسری روپورٹ کو رد کیا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کو موردِالزام ٹھہرایا جاتا ہے
لیکن عملا ان کی مدد کرنے کو کوئی نہیں پہنچتا ۔ نہ ہی ان کے مسائل کا حل
نکالا گیا ہے ۔ تھر پاکستان کا صحرائی علاقہ ہے اور یہاں کے رہنے والوں کی
گزر بسر مویشیوں پر ہے ۔اس علاقے میں پینے کے صاف پانی کو جمع کرنے کا نہ
تو کوئی ذخیرہ ہے اور نہ ہی کوئی زیرِز مین واٹر سپلائی کا انتظام ہے ۔ اس
علاقے میں بارش کا پانی قدرتی جوہڑوں میں جمع ہوتا ہے اور مویشی اور انسان
دونوں ایک ہی جگہ سے پانی پیتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے اس علاقے میں بیماری عام
ہے اورخشک سالی میں یہاں پانی کی قلت ہو جاتی ہے ۔ اس قلت کی وجہ سے انسان
اور مویشی دونوں ہی مرنے لگتے ہیں ۔
ان مسائل کے حل کا آج تک کوئی عملی اقدام نہیں کیا گیا ۔یہاں تک کہ بارش کا
پانی جمع کرنے کے لیے ان قدررتی جوہڑوں کو بھی پکا نہیں کیا گیا جس کی وجہ
سے بارش کا پانی ریت میں جذب ہو کر ضائع ہو جاتا ہے ۔
ان سسکتے بلکتے ، اور جان کی بازی ہارتے بچوں کی آنکھیں ان مسیحاؤں کی تلاش
میں ہیں جو نہ جانے کب اس پکار کو سنیں گے ، سنیں گے بھی یا نہیں ۔ تھر کے
لوگوں کا صرف اور صرف ایک مطالبہ ہے کہ ان کی زندگیوں اور ان کی معدوم ہوتی
ہوئی نسلوں کو پچایا جائے ۔ وہ کسی پارٹی ، حکومت یا اپوزیشن کے ساتھی نہیں
ہیں انھیں اس سے بھی کوئی غرض نہیں کہ مرسڈیز میں گاڑوں کی فوج لے کے سفر
کرنے والوں کے اخراجات کہاں سے پورے ہوتے ہیں ؟ ان کو اس سے بھی کوئی غرض
نہیں ہے کہ کون الیکشن جیتتاہے اور کون ہارتا ہے ۔ انھیں غرض ہے تو صرف یہ
کہ ان کے لیے پینے کا صاف پانی مہیاکیا جائے ۔
اہل اقتدار سے یہ لوگ گذارش کرتے ہیں کہ یہ مرتے ہوئے بچے بھی تو آپ کے
بچوں کی طرح ہیں ۔یہ مائیں بہیں بھی اسی ملک کا حصہ ہیں ۔یہ بوڑھے بھی آپ
کے بزرگوں کی طرح ہیں ۔ ان کی سسکیوں اور آہوں کو سنیں۔ اور اس علاقے میں
پینے کے صاف پانی کا انتظام کردیں ۔اس میں کچھ بہت اخراجات بھی نہیں آنے ۔
بس وفاقی یا صوبائی حکومت میں سے کسی ایک کو یہ ذمہ داری اپنے سر لینا ہوگا
۔ جتنی جلدی ممکن ہو سکے اس علاقے میں پینے کے صاف پانی کے ذخیرے بنا کر
تھے کے لوگوں کی نسلوں کو مرنے سے بچائیں - |