کوئلے ، چائناکلے، کرینٹ پتھر
اور نمک کے ذخائر سے بھر پور صحرائی علاقے تھر میں ایک بار بھر قحط سالی
اور خوراک کی کمی کے باعث کے ان دنوں موت کا راج ہے۔قطرے قطرے کو ترسے
صحرائے تھر کے باشندوں پر بھوک و افلاس نے ڈیرے ڈال دیے ہیں ۔تھر کی پیاسی
زمین سے پرندوں نے تو ہجرت کرلی لیکن بڑی تعداد میں مال مویشیوں کی ہلاکت
کے بعد انسان بھی مرنے لگے ہیں اور اب سینکڑوں بچوں اور افراد کی ہلاکت اور
میڈیا کی صداؤں پر بالآخر حکومت جاگ گئی ہے۔سندھ کے چوتھے بڑے شہر
میرپورخاص سے چار گھنٹے کے فاصلے پر دنیا کے نویں بڑے صحرائے تھر کی شروعات
ہوتی ہے۔اس صحراء کا ہیڈ کواٹر مٹھی شہر ہے۔ چاروں طرف ریت کے ہیبت ناک
ٹیلوں سے گھر اہوا یہ شہر آج کل افریکا کا بھوک اور افلاس زدہ علاقہ محسوس
ہو رہا ہے۔ ریت کے بڑے بڑے خوفناک ٹیلے دیکھتے ہی انسان کے جسم میں کپکپی
طاری کردیتے ہیں،دور دور انسان تو درکنار جاندار نام کی کوئی چیز بھی نظر
نہیں آتی۔ کمزور دل انسان کو اگر اس صحراء کے سناٹے میں کھڑا کردیا جائے تو
تیز ہواؤں کی خوفناک آواز سے اس کا دل پھٹ جائے ،اور وہ ہمیشہ کے لیے ان
خوفناک آوازوں سے چھٹکارہ حاصل کرلے گا۔ کسی مجرم کو اگر سخت اذیت ناک سزا
دی جائے اور اسے عبرت کا نشان بنانا مقصود ہو تو اسے تھرپارکر کی ریت پر
چھوڑ دیا جائے، وہ مجرم سسک سسک کر اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دے دے گا،
لیکن اسے مدد کے لیے کوئی ذی روح نہیں ملے گا۔ اس صحرا ء میں زہریلے بچھو
اور انتہائی خطرناک سانپ بلوں میں چھپے رہتے ہیں۔ جو اپنے شکارکو آسانی سے
نشانہ بنا کر اپنے بل میں دوبارہ سکون سے جا کرآرام کرتے ہیں۔
پاکستان تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی کا حامل ہوچکا ہے اور یہاں بسنے والے
لوگ آج بھی گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی کے لیے لالٹین کا سہارا لینے پر
مجبور ہیں۔ اس ہیبت ناک اور پراسرار صحرائے تھر میں کچھ بھوکے اور پیاسے
لوگ آج بھی زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم، زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے
ہیں،یہاں بسنے والے لوگوں کا ذریعہ معاش بارش ہے یا پھر مال مویشی ہیں۔
یہاں کے مرد سخت قحط سالی میں اپنے مویشی لے کر سرسبز وشاداب علاقوں کی طرف
نکل جاتے ہیں ،تاکہ ان کی زندگی کا متاع بچ جائے چاہے وہ خود موت کا شکار
ہی کیوں نہ ہوجائیں۔ باقی رہی عورتیں اور بچے تو وہ جانیں اور ان کا خدا
جانے۔ ننگر پار کر سے لے کر عمر کوٹ تک کا سفر ابھی چند سال ہوئے ہیں کہ
تین گھنٹوں میں طے ہونے لگا ہے۔ورنہ یہ تین گھنٹوں کا سفر یہاں بسنے والے
لوگ تین دنوں میں طے کرتے تھے۔
یہاں رہنے والوں کے لیے سب سے بڑی نعمت میٹھا پانی ہے۔یہاں پانی میلوں سفر
کر کے حاصل کیا جاتا ہے۔ میٹھے پانی کا حصول ان کے لیے آج بھی شیر کے منہ
سے نوالہ نکالنے کے مترادف ہے۔ دو سو فٹ گہرا کنواں کھود کر نکالا جانے
والا پانی سمندر کے پانی سے بھی زیادہ کڑوا ہوتا ہے۔یہاں پانی کا کنواں
کھودنا آسان کام نہیں۔ریت ہونے کی وجہ سے کئی لوگ کنواں کھودتے ہوئے ریت
تلے دب کرپانی کی تلاش میں اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔آپ آج بھی
تھرپارکر کے چیلہار شہر میں چلے جائیں،آپ کو سمندر سے زیادہ کڑوا پانی پینے
کو ملے گا۔یہاں بسنے والوں کو آٹے اور سالن میں نمک ملانے کی ضرورت ہی
نہیں۔آٹے میں نمک کی کہاوت آپ نے سنی ہوگی ،اور ہوسکتا ہے عمل بھی کیا
ہو۔لیکن یہاں کے تھری باشندوں نے یہ کہاوت توسنی ضرور ہوگی ،اس پر عمل کرنے
کا اتفاق کاش ہی انہیں پیش آیا ہو۔
یہاں بسنے والے لوگ آج آسمان کی طرف دیکھتے ہیں اور رب کے حضور ہاتھ پھیلا
کر صرف بارش کی دعا مانگتے ہیں، اور اگر اﷲ رب العزت ان پر رحم فرماکر بارش
برسا دے تو یہ سندھ کے کسی بھی علاقے میں بکھرے موتیوں کی طرح ہوں ،سمٹتے
ہوئے اپنے دیس کی طرف چلے آتے ہیں۔بارشوں میں یہ لوگ باجرہ اور مکئی بوتے
ہیں، اور یہی فصل سال کے لیے ان کی خوراک ہوتی ہے، اور اسی پر ان کی زندگی
کا دارو مدار ہے۔
اب آئیں اس علاقے میں ملنے والی قدرتی معدنیات کے بارے میں جانتے ہیں کہ اﷲ
تعالیٰ نے اس خشک صحراء میں کیا کیا چیزیں چھپا رکھی ہیں۔اس علاقے میں سفید
چینی مٹی ملتی ہے،جس سے مہنگے ہوٹلوں اور مالدار گھرانوں میں بنے ہوئے چینی
کے برتن استعمال ہوتے ہیں،اس علاقے میں کئی کلو میٹر تک پھیلے ہوئے کوئلوں
کے ذخائردریافت ہوئے ہیں، جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے حکمران بجلی پیدا
کرنے کی بجائے سیاست چمکا رہے ہیں۔ننگر پارکر میں گرینائیٹ پتھر ملتا ہے،
جو دنیا کا قیمتی اور مہنگا ترین پتھر ہے۔یہاں بارش کے موسم میں قدرتی جڑی
بوٹیاں کثیر تعداد میں ملتی ہیں چالاک حکیم بارش کے موسم میں اس علاقے کا
رخ کرکے ان بھولے بھالے لوگوں سے سستے داموں وہ جڑی بوٹیاں خرید کر،دنیا کو
مہنگے داموں دوائیاں بنا کر دیتے ہیں۔
اس علاقے میں ملتان کے مشہور پیر اور رکن قومی اسمبلی کے مرید کثیر تعداد
میں رہتے ہیں۔اسی طرح یہاں سندھ کے ایک مشہور پیر صاحب کے بھی بہت سے مرید
رہتے ہیں۔ جبکہ یہ لوگ یہاں صرف الیکشن کے دنوں میں ووٹ لینے کے لیے آتے
ہیں اور اس کے بعد دیکھنے کو نہیں ملتے۔دنیا کی کئی این جی اوز اس صحراء
میں موجود ہیں۔ یہ این جی اوز فنڈ دینے والے ممالک کو ان کی غربت دکھا کر
فنڈ اکٹھا کرتی ہیں اور پھر مزے لے لے کر سیون اسٹار ہوٹلوں میں بیٹھ کر
کھاجاتی ہیں، اور اس علاقے کے لوگوں کو فنڈز کے بارے میں پتا ہی نہیں
چلتا۔ستم در ستم تو یہ ہے کہ بعض لوگ ان کی مفلسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان
کے ایمان پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔جن میں سر فہرست قادیانی کی ارتدادی سرگرمیاں
ہیں۔
آج کل یہ علاقہ بچوں کے لیے موت کا سبب بنا ہوا ہے۔ مائیں بچے جننے سے نہیں
ڈرتیں، بلکہ بچہ جننے کے بعد اس کی موت سے ڈرتی ہیں۔ مائیں نو ماہ بچے کو
پیٹ میں اٹھا کر تکلیف تو برداشت کررہی ہیں لیکن بچے کا جنازہ اٹھتا دیکھ
کر دھاڑیں مار مار کر روتی ہیں۔انکی چیخیں ریت کے پہاڑوں میں گم ہوجاتی ہیں
اور ایوان بالا تک پہنچنے سے پہلے ختم ہوجاتی ہیں۔
میڈیا میں بچوں کی اموات کی خبریں منظر عام پر آنے کے بعد،حکومتی مشینری نے
اس علاقے کا رخ کیا۔ کئی فلاحی ٹرسٹ لوگوں کی امداد کے لیے دوڑے جا رہے
ہیں۔وزیر اعلیٰ بھی یہاں کے دورے پر پہنچے مگر ان مفلوک الحال لوگوں کے
غموں سے لاپرواہ سوتے رہے ہیں ، بعد ازاں ان کے لیے فنڈز کا اعلان بھی کیا،
لیکن یہ سب عارضی ہے، یہ سب وقتی ہے۔ آپ خود سوچیں کنویں کھود کر دینے کے
بجائے منرل واٹر کی بوتل تھما دینا۔ گندم کی بوری دینے کے بجائے ،ڈبل روٹی
کا پیکٹ دے دینا۔ ان کی بھوک کا مستقل حل نہیں۔بلکہ مستقل حل ان کابنیادی
قانونی حق دے دینا ہے۔ حکومت کو صحرائے تھر سے مستقل طور پر قحط سالی اور
خوراک کی کمی کے خاتمے کے لیے ٹھوس بنیادوں اقدامات بروئے کار لانا چاہیے۔
٭٭٭ |