بے سہارا لڑکی
(Nazia Sher, Gilgit Baltistan)
یہ کہانی ایک بے سہارا
لڑکی کی ہے جس کو اس کے اپنے رشتہ دار بہت تنگ کیا کرتے تھے-وہ ہمیشہ روتی
رہتی تھی نہ باپ کے گھر میں اس کے لیے جگہ تھی نہ بھائیوں کے گھر پے-اللہ
ایسے باپ اوربھائی کسی کو نہ دے(آمین) آئیے اس کی دکھ بھری کہانی اسی کی
زبابی سنتے ہے-
میرا نام زہرہ ہے میری پیدائیش ایک درمیانی درجے کے خاندان میں ہوئی،مجھ سے
بڑے ایک بہن اور پانچ بھائی تھے جن کو میرے ماں باپ سکول نہیں بھیج رہے تھے
-گھر کا ماحول بہت برا ہوتا تھا،امی ابو کے درمیان ہمیشہ لڑائی جھگڑاہوتی
تھی حالانکہ ان لوگوں نے اپنے پسندکی شادی کی تھی۔اوراسی طرح مجھے بھی سکول
نہیں بھیجاگیاحالانکہ میرے والد ملازمت پیشہ تھا،پھر بھی ہمیں سکول نہیں
بھیجا گیا-میں جب دو سال کی ہوئی تب میرا ایک اور بھائی پیداہوا،اور جب
میرا چھوٹا بھائی پانچ مہینے کا ہوا تب جیسے ہمارے گھر میں قیامت سی
آگئی-میرے امی اور ابو ہمیشہ لڑتے رہتے تھے پر اس بار لڑائی کی شدت زیادہ
تھی،میری امی شاید اپنے غصہ کو کنٹرول نہیں کر سکی اور پھر ا نھوں نے زہر
پی لی۔۔۔۔۔امی کوبچانے کی بہت کوشش کی گئی پر وہ نہیں بچ سکی،شاید ہماری
قسمت میں ماں نہیں تھی،اور اللہ کو بھی شاید یہی منظور تھا۔۔۔امی ہمیں اس
بے رحم دنیا میں تنہا چھوڑ کر چلی گئی۔۔۔۔۔
ماں جتنی بھی بری کیوں نہ ہو ماں،ماں ہوتی ہے۔ماں کے جانے کے بعد
ہماراپوراگھربکھرگیا۔۔ جب ماں نہیں رہی تب سب سوتیلے ہو جاتے ہیں،نہ بھائی
اپنے رہتے ہیں نہ باپ،سب بیگانے ہوجاتے ہیں۔میری بہن اوربڑے بھائی کی شادی
میری امی کی زندگی میں ہوئی تھی۔۔جب باپ اور بھائی بیگانے ہوگئے تو بھابھی
کہاں اپنے ہوتی ہے وہ تو ہوتی ہی غیرہے۔ بھابھی ہمیں بہت ڈانٹتی تھی اور
مارتی بھی تھی،گھر کا سارا کام ہم سے کراتی تھی۔ان کو اگر ہماری ضرورت ہوتی
تو وہ ہمیں اپنے گھر میں رکھتی اور اگر ہماری ضرورت نہیں رہتی تو وہ اپنے
گھر سے ہمیں نکال دیتی تھی۔
ابو نے میری امی کے گزر جانے کے تھوڑے ہی عرصے بعد دوسری شادی کر لی
تھی۔۔اور وہ اپنی بیوی کو لے کردوسرے گھر میں چلے گئے۔۔جب بھائی کے گھر سے
ہمیں نکال دیا جاتا تو ہم ابو کے گھر چلے جاتے تھے اور وہاں کچھ مہینے رہنے
کے بعد ہمیں وہاں سے بھی نکال دیتے تھے۔ میری سوتیلی ماں ہمیں کھانا بھی
نہیں دیتی تھی خود چھپ کر کھاتی تھی۔۔جب ابو کے گھر سے ہمیں نکال دیتے تو
ہم۔اپنے بہن کے گھر رہنے چلے جاتے۔۔۔اوریہ سلسلہ جاری رہتا۔۔۔اور جب تک کہ
میری شادی نہیں ہوجاتی۔۔۔
میرے ایک بھائی ہوٹل میں کام کیا کرتاتھا۔۔۔۔ ہوٹل کے مالک نے میرے بھائی
کو شکار پے بھیجا تب وہ پانی میں ڈوب گیا اور ان کی فوت ہوگیا-میں دس سال
کی تھی جب یہ حادثہ ہمارے ساتھ ہوا تھا-دس سال کی عمر میں میں نے اتنے غم
دیکھے اللہ کسی دشمن کے ساتھ بھی ایسا نہ کرے۔۔ میرے کھیل کودنے کے دن تھے
پر مجھے نصیب نہیں تھی کچھ بھی۔۔میرے یہ بھائی دوسرے بھائیوں کی نسبت بہت
اچھے تھے۔گفتگوں بڑی شائستگی سے کرتا تھا۔۔بہت ہی عزت تمیز والا تھا۔۔پر وہ
ہمارے قسمت میں نہیں تھا۔۔ہم نے اسکو ہمیشہ کے لیے کھو دیا تھا۔۔ گھرکا
سارا خرچہ یہی اٹھاتا تھا اور ہماری ضرورت بھی پورا کرتا تھا۔۔ پر اب وہ
ہمارے ساتھ نہیں تھے۔۔۔۔وہ کہتے ہیں نا کہ اچھے لوگوں کے لیے یہ دنیا نہیں
ہے صیح کہتے ہیں۔۔۔
میرے ابو کے د وسری شادی سے ان کے دو بیٹے اور پیدا ہوگئے تھے۔۔میرے دوسرے
بھائی لوگ ہوٹلوں میں کام کیا کرتے تھے،ابو نے کسی کو بھی تعلیم نہیں دلایا
تھا اس لیے کوئی اور نوکری نہیں کرسکتے تھے۔جب بھائی کمانے لگے اور گھر میں
خرچہ پانی لانے لگے تو بھابھی ہمیں اپنے گھر میں رہنے دینے لگی۔۔مطلبی لوگ
جو تھے،آج کل کی دنیا میں کون کس کا ہے بس سب اپنے اپنے مطلب کے لیے کرتے
ہے۔۔
کچھ سالوں بعد ہمارے گھر میں پھر سے ماتم ہوئی۔۔ یا میرے اللہ کسی دشمن کے
ساتھ بھی ایسا نہ کرنا۔۔اس وقت میرے ایک سوتیلے بھائی کے ساتھ حادثہ پیش
آیا تھا۔۔۔ میری سوتیلی ماں اورمیری دونوں سوتیلے بھائی مال مویشیوں کو
چرانے لے گئے تھے اور واپسی پر کسی نے انکو اپنے گاڑی میں بیٹھالیا تھا۔
میرے بھائی گاڑی میں لٹک گیا اور اللہ کو پیارے ہو گئے۔۔ میں بہت روئی اور
اللہ سے شکوہ کی کہ
یا اللہ یہ سارے غم ہمارے حصہ میں کیوں ڈال دیا ہیں؟۔۔ کیا ہم اس دنیا میں
صرف دکھ دیکھنے کے لیے آئے ہیں؟ہمارے حصے میں خوشی کب آئے گی؟
میں نے اپنی زندگی میں دکھ،درد،غم،نفرت،لڑائی،زیادتی کے سوا کچھ دیکھا ہی
نہیں۔۔خوشی سے ہمارے دور تک کوئی رشتہ نہ تھا۔۔ہمارے اندر بھی یہ سب بھر
گیا تھا،غلطی ہماری تو نہیں تھی۔۔ میرے سب بھائی نشے کرتے تھے اور کرتے ہیں
ان میں سے ایک بھی ایسا نہ تھااور نہ ہے جو نشہ نہ کرتا ہو۔۔۔میں سوچتی ہوں
کہ ان کو ایسا ہونا ہی تھا تربیت جو صیح نہیں ہوئی تھی،اس میں ان کا کوئی
قصور نہیں تھا۔۔ میرے بھائیوں میں کوئی بھی ایک دوسرے کے ساتھ سیدھے منہ
بات نہیں کرتے تھے عجیب تلخی تھی ان کے زبان پر۔۔۔أف میریاللہ۔۔۔اب سب بڑے
ہوگئے ہیں پر پھر بھی عادتیں سب کی وہی ہیں۔۔ان میں کچھ بھی نہیں بدلا۔۔
آہستہ آہستہ ہم غم بھلاتے گئے۔۔ کچھ سال بعد میرے ایک اور بھائی کی شادی
ہوگئی۔۔ بڑے بھائی کے ماشااللہ سے پانچ بچے ہوگئے تھے،ان کے دو بیٹے اور
تین بیٹیاں تھے۔۔۔ کچھ عرصے بعد ہی بھابھیوں میں لڑائی جھگڑا شروع ہو گئی
تھی۔۔۔ اور پھر سے گھر جہنم بن گیا۔ تین،چارمہینے بعد بھائی لوگ الگ
ہوگئے۔۔ بڑے بھائی کے اپنے گھر نہیں تھے ۔اسی لیے بھائی اپنے بیوی بچوں کے
ساتھ ہمارے چچاکے گھر پہ رہنے لگے جو کہ خالی پڑا تھا۔۔میں بھی بڑے بھائی
کے گھر پے رہنے لگی اور میرا چھوٹا بھائی دوسرے بھائی کے گھرپے رہنے
لگا۔۔۔دو سالوں کے دوران بڑے بھائی نے اپنا گھر بنا لیا۔۔پھر اپنے گھر میں
رہنے لگے۔۔
دکھ اور درد نے شاید میرے ساتھ رہنے کی قسم کھائی تھی۔۔اور پھرمجھے اسد
نامی لڑکے سے پیار ہوگئی جو کہ ہمارے قعبے میں تعلیم کی وجہ سے آیا تھا۔۔
تب مجھے لگا کہ میری زندگی خوش گوار ہوگئی، جیسے کہ مجھے جینے کی وجہ مل
گئی،لمبے عرصے کے بعد میری زندگی میں بہار آئی تھی،میرے دکھ درد تھوڑا کم
ہونے لگا۔۔ اس وقت موبائل کا دور نہیں تھا اس لیے ہمارے بہت کم ملاقات ہوتی
تھی۔۔۔ میں اس کو بہت چاہنے لگی تھی بس اسی کے لیے خوش رہنے لگی تھی،میری
ہر خوشی اب اس سے وابسطہ تھی۔۔ پر کیا پتہ تھا کہ وہ بھی مجھے دھوکہ دے
کرچلا جائے گااک دن۔یہ تو کبھی میں نے سوچا نہ تھا۔۔۔ پروہ بھی مجھے چھوڑ
گیا۔۔جب مجھے اس کے چھوڑ جانے کا علم ہوا تو میں بہت دکھی ہوگئی اور بہت
روئی۔۔اور کیا کرتی میری قسمت میں رونا ہی تھا۔۔۔۔مجھے دو دن کی خوشی ملی
اور پھر غموں کا سلسلہ شروع ہوا۔۔ اور پتہ نہیں پھر کب میرے آنگن میں خوشی
آئے گی۔۔۔۔یہ اللہ ہی بہتر جاننے والا ہے۔۔۔
پھر ایک دن ہمارے گھر مہمان آگئے،تو پتہ چلا کی وہ میری منگنی کے لیے آئے
تھے۔۔۔میں بہت خوش ہوگئی کیونکہ لڑکا اچھا تھا۔وہ ہمارے رشتہ دار تھے،گھر
والے بھی خوش ہوگئے اور جلدی سے میری منگنی کرادی گئی۔۔میری زندگی میں پھر
سے بہار آگئی میں نے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا۔۔۔اللہ نے میری جولی
خوشیوں سے بھر دیا تھا،میرے اجڑی ہوئی آنگن میں پھر سے بہار آئی تھی۔۔۔میں
سوچنے لگی کیاب اس ذلت بھری زندگی سے نجات ملے گی۔۔
آخر کار وہ دن آہی گئی۔۔میری شادی بڑے دھوم دھام سے ہوئی۔۔ اورمیں سسرال
چلی گئی۔۔ سسرال میں میرے ساس،سسر،میرے میاں،دو دیور اور ایک نند تھے۔۔دو
نندوں کی شادی ہوچکی تھی۔۔شادی کے کچھ عرصے بعد میرے میاں کراچی چلا گیا
کیونکہ وہ وہاں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔۔تھوڑے ہی عرصے بعد سسرال والوں نے
بھی مجھے تنگ کرنا شروع کیا۔پہلے میرے چھوٹے دیور نے مجھے تنگ کرنا شروع
کیا اور پھر ساس کے تانے بھی شروع ہوئے۔۔میرے میاں چھٹیوں پے ایک دو مہینے
کے لیے آتا اور پھر چلا جاتا۔۔۔اس دوران اللہ نے میری گود بھری کر دی اور
میں دو بیٹوں کی ماں بن گئی۔۔
میری اور ساس کی لڑائی ہمیشہ ہونے لگی تھی۔۔ایک دن لڑائی کی شدت زیادہ تھی
بہت تنگ آئی میں،مجھ سے برداشت نہیں ہوا اور میں نے اپنے میاں کو فون
کردی۔۔اور سب کچھ بتا دیا اس کو۔۔دوسری طرف سے میری ساس نے بھی اسکو فون
کیاتھا شاید۔۔۔۔۔۔ہم نے زیادہ پریشان کیا اسکواور پھر وہ یہ صدمہ برداشت
نہیں کر سکا۔۔۔اور وہ کومہ میں چلا گیا۔۔تب جیسے میرے آنکھوں کے سامنے
اندھیرہ چھا گیا۔سب نے مجھے قصور وارٹھہرایا۔۔ایک تو میں اپنے میاں کی وجہ
سے صدمے میں تھی اور دوسری طرف لوگوں کے تانے نے زندگی عذاب کردیے تھے۔۔
میں نے لوگوں کوزیادہ منہ نہیں لگائی،اور بس اللہ سے اپنے میاں کی صحت یابی
کے لیے دعا کرتی رہی۔ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں تھے جس سے میرے میاں کا علاج
کرتے۔۔۔یہ تو اس کے کزن کا احسان ہے ہم پر کی اس نے میرے میاں کے علاج
کرادیا۔۔۔پیسے تو ہم ان کے نہیں لٹا سکتے،صرف ان کے لیے دعا ہی کر سکتے
ہیں۔۔اللہ انکو اور ترقی دے،عزت دے شہرت دے اور ہمیشہ ان کو خوش
رکھے(آمین)۔۔
چند مہینوں بعد میرے میاں صحت یاب ہونے لگا اور اللہ کا شکر کہ وہ کھومہ سے
نکل گیا۔۔ اب بھی پوری طرح سے ٹھیک نہیں ہوا ہے،چل پھر سکتا ہے،باتیں بھی
تھوڑی بہت کر لیتا ہے۔۔پر وہ کوئی نوکری وغیرہ نہیں کرسکتا۔۔اسلیئے اب میں
سکول میں ڈیوٹی دیتی ہوں (صفائی وغیرہ کرتی ہوں)جس سے گھر کا خرچہ بامشکل
نکل جاتا ہے۔۔اپنے بچوں کے تعلیم کے لیے کیا کروں مجھے کچھ سمجھ نہیں
آراہا۔۔
میں اللہ سے دعاگوہوں کہ وہ میرے میاں کو پوری طرح سے ٹھیک کردے اورہمارے
گھر سے پریشانی،دکھ،درد دورکر دے اور ہمارے گھر کو بھی خوشیوں سے بھر
دے(آمین) |
|