وہ اماں
(malik sheraz khan, Baghdada,Maradn)
اسے کيا کہيں۔ مجبوری يا بے حسی
يا پھر کچھ اور ؟
"اماں کس کے گھر جائیں گی؟" تینوں بیٹوں اور دونوں بیٹیوں کے چہرے پر ایک
ہی سوال تھا اور وہ سب کے سب گزشتہ ایک گھنٹے سے ہسپتال کے برآمدے میں ٹہل
ٹہل کر اس سوال کا جواب سوچ رہے تھے.
"میرا خیال ہے ..... اظفر بھائی سب سے بڑے ہیں ..... ان کا فرض ہے ... کہ
وہ اماں کو .... اپنے گھر لے جائیں" صائمہ نے بڑی دیر کے بعد اٹکتے ہوئے
کہا.
اظفر نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا جو مسلسل تسبیح کے دانے رول رہی تھی اور
اماں کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہی تھی.
"میں اپنے فرض سے انکار نہیں کرتا ، لیکن تم سب جانتے ہو حرا سروس کرتی ہے
اور اماں کیلئے اب فل ٹائم عورت کی ضرورت ہے . میرا خیال ہے تم گھر پر رہتی
ہو . تم اماں کی دیکھ بھال اچھی طرح کر لو گی. خرچے کی فکر نہ کرنا ، وہ
میں دوں گا." اظفر نے خرچے پر زرو دے کر کہا.
"میری تو بڑی خواہش ہے کہ میں اپنی اماں کی خدمت کروں ، مگر آپ تو جانتے
ہیں کہ میرے ساس سسر کس طرح کے ہیں اور میں یہ سب برداشت نہیں کر سکتی کہ
میرے بھائیوں کو کوئی برا کہے."
"پھر" ...... کچھ لمحوں کیلئے پھر سکوت چھا گیا.
"میرا خیال ہے ، ظفر بھائی ..... کے پاس .... اماں ... زیادہ آرام سے ....
رہ سکتی ہیں." سائرہ نے ہکلاتے ہوئے منجھلے بھائی کی طرف دیکھا.
"میرا بھی یہی خیال ہے " اظفر نے فورا چھوٹی بہن کی تائید کی.
ظفر اور اسکی بیوی نے آنکھوں میں ایک دوسرے سے کچھ کہا. "اصل اماں کاکبھی
بھی ہمارے گھر میں دل نہیں لگا. وہ تو ہمارے گھر دو دن سے زیادہ رہتی ہی
نہیں...." "بیماری میں تو ویسے بھی انسان تنہائی سے گھبراتا ہے." شاہینہ نے
شوہر کے کچھ کہنے سے قبل ہی صفائی پیش کردی.
"پھر ..... اب..... کیا ہوگا؟"
"میری تو مجبوری ہے ...... میری آمدنی بھی کم ہے ..... پھر میرے گھر .....
میں تو بالکل .... جگہ ہی نہیں ہے ." اظہر نے منمنا کر کہا.
"پھر ..... پھر .... اماں کس کے گھر جائیں گی؟"
سب مجبور تھے اور سوچوں میں غرق تھے.
"آپ سب وارڈ نمبر ۲ کی مریضہ کے رشتہ دار ہیں؟"
نرس کی پھٹی ہوئی آواز پر ان سب نے گھبرا کر سر اٹھایا.
"جی .... جی....."
"آپ کو وارڈ میں ڈاکٹر بلارہے ہیں" اس نے غصے سے کہا اور تیزی سے پلٹ گئی.
"خدا خیر کرے" وہ سب تیزی سے وارڈ میں داخل ہوئے.
"I am sorry. She is expired"
ڈاکٹر نے اظفر کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا.
سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا. سب کے چہروں پر ظاہری غم کے ساتھ ہی ایک
کمینی خوشی کا عکس بھی تھا. |
|