علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور میڈیا کا شر
(Shakeel Rasheed , mumbai )
اِن دنوں مسلم بچیوں کے ’حقوق‘
چھین لیے جانے کا غم دانشوران اور انگریزی میڈیا کو کھائے جارہا ہے۔ علی
گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے وائس چانسلر ضمیرالدین شاہ نے اپنے ایک بیان
سے کہ ’یونیورسٹی کی مسلم طالبات یونیورسٹی کی مرکزی مولانا آزاد لائبریری
سے استفادہ حاصل نہیں کرسکیں گی‘گویا کہ بھڑکے چھتّے کو لکڑی دکھادی ہے۔
بیان کے پس پشت جو اسباب ہیں انہیں سننے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔
ضمیرالدین شاہ لاکھ شور مچائیں کہ مرکزی لائبریری میں جگہ کی قلت ہے،
لڑکیوں کادور سے لائبریری آنا ان کی سیکوریٹی کے نقطۂ نظر سے مناسب نہیں
ہے، عبداللہ گرلز کالج میں جو یونیورسٹی کا خواتین کے لیے مختص کالج ہے خود
ایک شاندار لائبریری موجود ہے، وہ میڈیا اور وہ دانشوران جو خود کو ’حقوق
نسواں ‘ کے علمبردار اور ٹھیکیدار سمجھتے ہیں، ان کی سننے کو تیار نہیں
ہیں۔
گزشتہ روز ٹی وی پر کرن تھاپر، اس موضوع پر ضمیرالدین شاہ سے ’حساب کتاب‘
لے رہے تھے۔ سوالات کچھ یوں دریافت کیے جارہے تھے جیسے کہ ضمیرالدین شاہ نے
انسانیت کا سب سے بڑا جرم کردیا ہے۔ یہ وہی دِن تھا جس دِن یونیورسٹی کی
طالبات نے میڈیا کی توڑ مروڑ کر پیش کی گئی رپورٹنگ کے خلاف شدید احتجاج
کیاتھا۔ کرن تھاپر کو اس احتجاج کی کوئی پرواہ نہیں تھی او رنہ ہی وہ یہ
جاننے کے خواہش مند تھے کہ میڈیا نے کس طرح کی غلط بیانی کی ہے، اور یہ
بچیاں کیوں احتجاج کررہی ہیں، وہ بس یہ چاہتے تھے کہ کسی طرح مسلم طالبات
بھی مولانا آزاد لائبریری پہنچیں او رجنس مخالف کے ساتھ بیٹھ کر لائبریری
سے استفادہ کریں۔ ایسا نہیں ہے کہ یونیورسٹی کی لائبریری کے دروازے طالبات
پر بند ہیں جیسا کہ میڈیا تاثر دے رہا ہے، طالبات لائبریری آتی ہیں مگر ان
کے لیے وہاں بیٹھنے کی سیٹیں کم ہیں… اور یہ ایسا مسئلہ ہے جس کا صرف ایک
حل ہے کہ لڑکیاں اسی لائبریری سے فائدہ اٹھائیں جو ان کے لیے مختص ہے اور
اگر مرکزی لائبریری سے کتابیں منگوانی ہوں تو ’آن لائن‘ منگوائیں، کتابیں
ان تک پہنچ جائیں گی۔ یونیورسٹی یہ سہولت فراہم کرتی ہے۔
ہوناتو یہ چاہیے تھا کہ ’میڈیا‘ مولانا آزاد لائبریری میں جگہ کی قلت کے
مسئلے کے حل کے لیے آواز اٹھاتا، حکومت اورانسانی وسائل کی وزیر اسمرتی
ایرانی پر دبائو ڈالتا کہ وہ لائبریری کی توسیع کے لیے گرانٹ دیں، یہ آواز
اٹھاتا کہ طالبات کی لائبریری کو اَپ گریڈ کرنے کے لیے حکومت گرانٹ دے، مگر
وہ ان مسائل کے حل کے لیے آواز نہ اٹھاکر سارے مسئلے کو ’حقوق نسواں‘ سے
جوڑ کر یہ تاثر دیناچاہتا ہے کہ مسلمان تنگ نظر ہیں وہ اپنی بچیوں کو نہ
تعلیمی نہ سماجی، کسی بھی طرح کی آزادی دینا نہیں چاہتے… حالانکہ مسلم
یونیورسٹی علی گڑھ میں ہزاروں کی تعداد میں طالبات کا وجود خود اس بات کا
ثبوت ہے کہ مسلمان تنگ نظر نہیں ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ میڈیا اوردانشور
جس آزادی کی بات کرتے ہیں وہ مہذب سماج میں ’بے حیائی‘ کہلاتی ہے اور
یونیورسٹی کسی کو بھی بے حیائی کی اجازت نہیں دیتی… وہ والدین جو یہاں اپنی
بچیوں کو بھیجتے ہیں خوب جانتے ہیں کہ ان کی بیٹیاں یونیورسٹی جاکر ’بے
حیا‘ نہیں ہوں گی بلکہ مہذب بن کر آئیں گی… یونیورسٹی کی بچیوں کو ہر طرح
سے حفاظت پہنچانے کی قدیم روایت رہی ہے۔ اس کے اصول وضوابط ہیں۔ نہ اس
روایت کو نہ ہی اصول وضوابط کو ’بے حیائی اور فحاشی‘ کے حامی میڈیا اور
دانشوران بدل سکتے یاچھین سکتے ہیں… طالبات کا میڈیا کے خلاف احتجاج خود اس
بات کا ثبوت ہے کہ وہ یونیورسٹی کی روایت اور اصول وضوابط کو پسند اور
میڈیا اور دانشوران کے ’شر‘ کو ناپسند کرتی ہیں۔ |
|