سندھ اپنی ثقافت اور اپنی روایات
کے لیے جتنی شہرت رکھتا ہے ا تنے ہی اس سرزمین پر رہنے والے روادار بھی ہیں۔
صوفیاء سے محبت اور عقیدت ان کا خاصا ہے اور اِن کی تعلیمات میں رواداری کا
عنصر ہی تھا کہ اِس نے یہاں کے باسیوں کو اسلام کے دامن میں پناہ لینے پر
آمادہ کیا اور وہ ہندو جنہوں نے اسلام قبول نہ کیا وہ بھی امن اور سکون سے
اپنے اپنے گھروں میں رہتے بستے رہے۔ میں جتنے بھی سندھیوں سے جب بھی ملی
میں نے انہیں پرُ امن اور شکر گزار ہی دیکھا وہ اپنے ہندو ہمسایوں کے بارے
میں کوئی مشتعل جذبات نہیں رکھتے ابھی پچھلے دنوں میڈیا پر ایک رپورٹ چلی
جس میں عمر کوٹ کے ہندو مسلمانوں کے ساتھ ساتھ محرم کے جلوس نکال رہے تھے ۔
پھر آخر وہ کون سے ایسے عناصر ہیں جو چند ہندو خاندانوں کی بھارت منتقلی کو
ایک متعصبانہ رنگ دے رہے ہیں ۔ پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق پچیس سے
تیس لاکھ ہندو رہ رہے ہیں اور اتنے لوگوں میں کسی نہ کسی کے ساتھ کوئی نہ
کوئی واقعہ ہونا کچھ ایسا غیر قدرتی بھی نہیں وہ بھی ان حالات میں جب ملک
میں عمومی طور پر امن و امان کی صورت حال دگرگوں ہے لیکن ہمارے ہاں عام
رواج کے مطابق ہمارے نام نہاد علمبردار انِ انسانی حقوق کسی ذاتی دشمنی کی
بنا پر ہونے والے ایسے واقعے کو بھی ایک ایسا رنگ دے دیتے ہیں جیسے کہ
اقلیتوں کے خلاف کوئی محاذ آرائی کی گئی ہو یا انہیں مذہبی تعصب کی بنا پر
نشانہ بنایا گیا ہو یہ چند نمائشی لوگ تو ایسا کرکے نام کما لیتے ہیں لیکن
ملک جو پہلے ہی عالمی طور پر سازشوں کی زد میں ہے مزید بدنام ہو جاتا ہے
ہاں ایسا کرنے والوں کو بیرونی شاباشی اور امداد کے نام پر اپنے خزانے
بھرنے کے لیے کچھ اور رقم میسر آجاتی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ سندھ سے کچھ ہندو
خاندان بھارت جا کر آباد ہو گئے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ ہجرت کسی بہت بڑے
پیمانے پر ہے ۔ ہندؤں کے ساتھ کچھ اکا دکا نا خوشگوار واقعات بھی ہو جاتے
ہیں جس میں سندھ کے عام لوگوں کی بجائے شر پسندوں کا زیادہ ہاتھ ہوتا ہے
اور سندھی ہندؤں کی طرف سے بھی ہمیشہ دوستانہ رویہ ہوتا ہے لیکن ظاہر ہے ان
میں بھی ناپسندیدہ عناصر موجود رہتے ہیں اور یہ ان کا ذاتی فعل ہوتا ہے
ورنہ اندرون سندھ کے شہروں میں اکثر آپ کو ان کے کاروبار، دکانیں، گھر اور
مندر نظر آتے ہیں جن پر کبھی کسی نے اعتراض نہیں کیا میں نے انہیں گھنٹوں
لاوڈ سپیکر استعمال کرتے سنا ہے۔ صرف یہی نہیں ان میں بڑے نامِ گرامی ڈاکٹر
اور وکیل بھی نظر آئیں گے یہ لوگ شہروں کے مہنگے سکولوں، کالجوں اور پیشہ
ورانہ اداروں میں ایک بڑی تعداد میں موجود ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ
انہیں ہر قسم کی آزادی حاصل ہے ۔ سندھی خاندانوں کا اکثر اوقات کا روبار کے
سلسلے میں بھارت آنا جانا لگا رہتا ہے یہ ایک معمول ہے اور اس میں کوئی غیر
معمولی بات نہیں یہاں بہت سے خاندان ایسے بھی ہیں جس کے کچھ افراد سرحد کی
دوسری جانب بھی رہتے ہیں جن سے ملنے کے لیے آنے جانے کا یہ سلسلہ جاری رہتا
ہے یہ سفر اکثر اوقات تجارتی بھی ہوتے ہیں اور اسی لیے سندھ کے اکثر
بازاروں میں بھارت کی روایتی مصنوعات نظر آتی رہتی ہیں۔ پاکستان میں ہندؤں
آبادی 1.6 فیصد ہے جو تقریباََ پچیس، تیس لاکھ کے قریب ہیں اب اگر یہ کہا
جائے کہ اس تعداد میں کوئی واقعہ رونما نہ ہو تو ایسا ممکن نہیں ہاں جہاں
ٹارگٹ کلنگ کی بات ہے چاہے اکثریت کی ہو یا اقلیت کی ہر دو صورتوں میں
انتہائی ظالمانہ ہے اور اسے ہر صورت رکنا چاہیے اور یہ یاد رکھنا چاہیے کہ
ظلم کے لیے مذہب اور نسل کی توجیہہ تلاش کرنا سراسر زیادتی ہے اور شاید اسی
لیے اب تک اسے روکا نہیں جا سکا ہے کیونکہ جب اسے کسی مذہب ، مسلک یا نسل
کے خلاف بنا کر پیش کیا جاتا ہے تو انہیں ایک فریق بنا دیا جاتا ہے اور ان
کے دل میں نفرت کا بیج بودیا جاتا ہے۔ مذہبی تعصب تو وہ ہے جو بھارت میں
مسلمانوں کے ساتھ برتا جاتا ہے اور نسل کشی وہ ہے جو مقبوضہ کشمیر میں کی
جاتی ہے ۔ پاکستانی ہندؤں اگر مسائل کا سامنا کر رہے ہیں تو انہیں ہر صورت
حل ہونا چاہیے پاکستان کے ہر شہری کی طرح انہیں بھی تحفظ فراہم کرنا حکومت
کا فرض ہے اور یہ بھی افسوسناک امر ہے کہ حکومت ایسا کرنے میں کامیاب نہیں
ہو رہی ۔ لیکن دو چار ہزار ہندؤں کا سندھ سے بھارت کی طرف چلے جانے کو جتنا
اچھا لا جا رہا ہے وہ کسی طور بھی مناسب نہیں جبکہ پاکستان میں ہندؤں اپنے
تمام تہوار آزادی سے مناتے ہیں اپنی عبادات میں آزاد ہیں اپنی ثقافت اور
روایات کو مکمل طور پر سنبھالے ہوئے ہیں لیکن ظاہر ہے اس طرح کے معاملات
میں بھارت اپنا کردار ادا کرتا ہے اور پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے کوشاں
رہتا ہے ایسے میں ہمارے میڈیا اور حکومت کو اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے
کوشش کرنی چاہیے تاکہ پاکستان کے خراب حالات کا سہارا لے کر اسے اور بدنام
نہ کیا جائے اور نہ ہی بین الاقوامی طور پر اسے مزید تنہا کیا جائے۔ |