حکومت اور سیاستدانوں کی دوغلی
پالیسیوں کی بدولت آج پاکستان وہ پاکستان نہیں رہا جس کے قیام کے لیے ایک
ضعیف اور کمزور(جسمانی طور پر)مگر مضبوط،طاقتوراور بلند ارادوں کے مالک
محمد علی جناح نے جدوجہد کی جسکے قیام کے لیے لاکھوں مسلمان دربدر ہوئے جو
آج تک بدستور دربدر ہی ہیں ہزاروں کی داستانیں ناقابل بیان ہیں اور سینکڑوں
گم نامی کی موت مارے گئے جن کو یاد کرکے انکے پیارے آج بھی خون کے آنسو رلا
دیتے ہیں قربانیاں دینے والے آج بھی گوشہ گمنامی میں اپنی سسکتی اور تڑپتی
زندگی کو لیکر آہیں بھر رہے ہیں اور جواس وقت انگریزوں کے نسل در نسل پٹھو
اور غلام تھے تب بھی عیش وعشرت کررہے تھے اور آج بھی پاکستان کی ترقی اور
خوشحالی کے ہر موڑ پر رکاوٹ بنے بیٹھے ہیں اور ہر گذرتے پل کے ساتھ قائد کے
اصولوں اور ملک کے قانون پرایک زور دار زناٹے سے بھر پور تھپڑ رسید کرکے ان
غریبوں ،بے کسوں ،مجبوروں ،مزدوروں ،کسانوں ،ہاریوں اور محب وطن پاکستانیوں
کا تمسخر اڑا رہے ہیں جن کی محنت اور حب الوطنی کی بدولت پاکستان کا وجود
قائم ہے بے روزگاری اور مجبوری کے ہاتھوں اگر کسی نے ایک روٹی چرا لی تو
راہ چلتے نام نہاد شریف بھی اپنا ہاتھ اسی ڈکیت پر سیدھا کرتے ہیں جس نے
کئی روز کی بھوک برداشت کرنے کے بعد مردار بھی ہلال سمجھ کر کھا لیااور پھر
ہماری بہادر اور شیر دل پولیس اسی روٹی چور سے ایسے تفتیش کریگی جیسے اسی
جرنیل نے اپنی سیاسی وفادرای نبھاتے ہوئے بنگلہ دیش بنوایا ہوپھر اسی چور
کے ساتھ فوری طور پر عوامی سلوک کے بعد جیل تک جو مصیبتیں نازل کردی جاتی
ہیں وہ بھی قیام پاکستان کے وقت ہندوں اور سکھوں کی طرف سے دی گئی ان سزاؤں
سے کم نہیں جو اس وقت کے جنونیوں نے برداشت کی جیل کا ذکر آیا تو اپنے
پڑھنے والوں کو بتاتا چلوں کی اس وقت تمام جیلیں ٹھیکہ پر چل رہی ہیں جیل
سپرنٹنڈنٹ ہر ماہ جیل کی ایک ایک چیز ٹھیکہ پر دیکر لاکھوں روپے حاصل کررہا
اور کچھ جیلیں ایسی بھی ہیں جن کی ایک ماہ کی آمدنی ایک کروڑ روپے سے زائد
ہیں کیا ہمارے خفیہ ادارے اور میڈیا کے نمائندے سوئے ہوئے ہیں جن کو جیلوں
میں یہ ٹھیکے داری نظام نظر نہیں آرہا جہاں گناہ گاروں اور بے گناہوں سے
ڈنڈا دیکر پیسے وصول کیے جارہے ہیں یہ صرف جیلوں کا ہی حال نہیں ہے ملک کے
ہر ادارے کو ہمارے سیاسی لٹیروں اور انکے حواریوں نے تباہ وبرباد کرکے رکھ
دیا ہے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں چیئر مین نیب سید فصیح بخاری کی ایک
رپورٹ شائع ہوئی جس میں انہوں نے کہا کہ ملک میں ہر روز15ارب روپے کی کرپشن
ہورہی ہے اتنی بڑی ڈکیتی کسی ایک ادارے میں نہیں ہورہی اور نہ ہی کوئی ایک
فرد کررہا ہے بلکہ ہم سب مجموعی طور پر اس کرپشن کو تحفظ دے رہے ہیں صرف
جیلوں میں ہی چور نہیں بیٹھے ہر ادارے میں ڈاکو اور لٹیرے بیٹھے ہوئے ہیں
جو لوٹ لوٹ کر ملک کو کنگال اور عوام کو کرپٹ بنا رہے ہیں ایک طرف حکومت
میں بیٹھ کر بے گناہ افراد پر گولیاں برسائی جاتی ہیں تو دوسری طرف خیبر
پختونخواہ کو جنت کا خطہ بنانے والوں نے اسے دوزخ بنا رکھا ہے اگر کوئی
تبدیلی آئی ہیں تو وہ صرف لوٹ مار کرنے والے سیاستدانوں اور انکے حواریوں
میں آئی ہے اوررہی بات ہمارے ان شرفا کی جن کی بدولت ملک دو ٹکڑے ہوگیاجو
دن دیہاڑے ملک لوٹ رہے ہیں عوام کا پیسہ بیرون ملک منتقل کرکے اپنے لیے محل
اور پلازے تعمیر کررہے ہیں اور ملک کی سڑکوں پر سرے عام ایک دوسروں کو ننگی
گالیاں دیکر کبھی گریبان سے پکڑ کر گھسیٹنے کی باتیں کرتے ہیں تو کبھی ایک
دوسرے کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے سونے کے چمچ میں نوالے پیش کیے جاتے ہیں
کبھی وہ قومی اداروں پر چڑھ دوڑتے ہیں تو کبھی کسی سرکاری ملازم کو یرغمال
بنا لیتے ہیں کبھی وہ عدالتوں کے اشتہاری بن کر عدالتوں کے سامنے ہی انکا
مذاق اڑاتے ہیں تو کبھی قانون کے ان بھگوڑوں کو قانون ہی اپنی حفاظت میں
رکھ لیتا ہے ایسے معزز اور شرفاجو ہماری حکومت اپوزیشن اور تمام سیاسی
جماعتوں میں واضح اکثریت میں ملیں گے جنہوں نے قانون کو گھر کی لونڈی اور
ملک کو شیدے کی دکان بنا رکھا ہے ان سے خیر کی توقع نہیں اور نہ ہی ان
لوگوں کے کہنے سے تبدیلی آئے گی ہاں البتہ ان چوروں اور ڈکیتوں کے اندر
تبدیلی ضرور آگئی ہیں جو ملک کا ٹیکس بچانے کے لیے کسی نہ کسی سیاسی جماعت
کی چھتری کے نیچے پناہ لیے ہوئے ہیں لاکھوں ،کروڑوں اور اربوں روپے خرچ
کرنے والے کل بھی ہماری سیاسی پارٹیوں کے لیڈر تھے اور آج بھی وہی ہر جگہ
عوام کو ورغلانے میں مصروف ہیں اس وقت تک پاکستان قائد کا پاکستان نہیں بن
سکتا جب تک غریب اور مجبور انسان اپنے اندر سے تبدیلی نہ لے آئے ورنہ
تبدیلی کے نعرے اور سنہرے خواب دکھانے والے خود تو تبدیل ہوتے رہیں گے اور
اپنی آنے والی نسلوں کو بھی تبدیل کرنے کے اسباب پیدا کرکے جان چھوڑیں گے
تاکہ وہ بغیر کسی کام کاج اور ہاتھ پاؤں ہلائے پاکستانیوں کی خدمت کرتے
رہیں باپ کے بعد بیٹا زیادہ تیزی سے ترقی کریگا کیونکہ بڑوں میں جو تھوڑی
بہت شرم و غیرت موجود تھی وہ ان بچوں کے قریب سے بھی نہیں گذری آج کے تیز
ترین دور میں سوشل میڈیا پر سب کچھ چل رہا ہے اور نظر بھی آرہا مگر ہم اسے
ہی اپنی خدمت کو موقعہ دیتے ہیں جو سب سے زیادہ بدنام ہو کیونکہ ان
سیاستدانوں نے ہمارے اندر ایسی تمام صلاحیتوں کو ختم کردیا ہے جن کی بدولت
ہم اچھے اور برے میں تمیز کرکے کھوٹے سکے کو اٹھا کر باہر پھینک سکیں اسی
لیے تو بار بار دھوکے دینے والے ہی دھوکہ دیکر ہم پر مسلط ہوجاتے ہیں ایک
معمولی چور جیل میں بڑی چوریوں کی تربیت حاصل کرکے جب باہر آتا ہے تو پھر
سب اسے سلام کرنے کے لیے بے چین ہوجاتے ہیں ہمارے ہاں تعلیمی ادارے نہیں
بلکہ جیلیں لیڈر پیدا کرتی ہیں جو جتنا عرصہ جیل میں رہے گا اتنا بڑا لیڈر
بن کر باہر نکلے گا شائد اسی لیے حکومت عمران خان اور طاہر القادری کو
پکڑنے سے گریزاں ہے کہ کہیں وہ بھی جیل جاکر قانونی طور پر بڑیلیڈر نہ بن
جائیں ۔ |