حکومت کسی خوش فہمی میں نہ رہے
(Jawaid Ahmed Khan, Karachi)
حالیہ دنوں میں دو تین ایسے
واقعات ہوئے ہیں جس سے حکومت کوکسی حد تک ایج ملا ہے دوسرے الفاظ میں یہ
کہہ سکتے ہیں نواز شریف حکومت کو سیاسی فوائد حاصل ہوئے ہیں ۔گو کے اس میں
ان کا کوئی کارنامہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ پچھلے چند ماہ کے اعصاب شکن
حالات میں انھوں نے دانشمندانہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ۔پہلی بات تو یہ
کہ بین الاقوامی سطح پر پٹرول کی قیمتوں میں نمایاں کمی ہوئی اس طرح ملک کے
اندر بھی ایک دم سے ایک لیٹر پر دس روپئے کم ہوئے ۔یہ یقیناَعمران خان کے
دھرنوں کا نتیجہ ہے جس کا فائدہ عوام کو پہنچا ہے ۔اس سے قبل اضافہ اور کمی
کے کے حوالے سے حکومت کا طریقہ واردات کچھ اور ہوتا تھا کہ جب اضافہ کرنا
ہوتا تھا توجتنے کا اعلان کیا اتنا فوراَ ہی ہو جاتا لیکن کمی کے لیے پہلے
اعلان ہوتا چھ روپئے فی لیٹر ہوگی اگلے دن چھ سے چار روپئے ہوجاتا پھر جب
اصل کمی کا اعلان ہوتا تو تو وہ 72پیسے فی لیٹر کا ہوتا عوام کے ساتھ یہ
سنگین مذاق اس دفعہ تو نہیں ہوا لیکن ایک اور خفیہ مذاق یہ ہوا بعض ایسی
رپورٹیں شائع ہوئیں کہ یہ کمی کم از کم پچیس روپئے فی لیٹر ہوئی ہے لیکن
حکومت نے صرف دس روپئے فی لیٹر کم کرکے حاتم طائی کی قبر پر لات مارنے کی
کوشش کی ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پٹرول کی قیمتوں میں کمی کے باوجود مہنگائی
میں کوئی کمی واقع نہ ہوسکی کہ جس کا فائدہ عوام کو پہنچتا ۔
دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ عمران خان نے اپنے دھرنے میں اچانک یو ٹرن لیتے ہوئے
یہ اعلان کردیا کہ نوازشریف صاحب وزیر اعظم رہتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے
الیکشن 2013کی تحقیقات کروائیں اگر دھاندلی ثابت ہو جائے تو پھر وہ استعفا
دے دیں ۔ادھر عمران خان نے یو ٹرن لیا ادھر حکومت نے یو ٹرن لیا کہ مذاکرات
کے بجائے مقدمات اور گرفتاری کے سلسلے کا آغاز کردیا جس سے عمران خان بیک
فٹ پر چلے گئے اور وضاحتوں پر اتر آئے کہ جب ٹی وی اسٹیشن پر حملہ ہوا تو
وہ سو رہے تھے۔پچھلے چند ماہ سے عمران خان نے جو وطیرہ اختیار کیا ہوا تھا
اس کا منطقی انجام یہی ہونا تھا جس وقت دھرنے کی فضاء اپنے عروج پر تھی اور
حکومتی مذاکراتی وفد کے ارکان بار بار یہی بات دہرا رہے تھے کہ استعفے کے
علاوہ ہم تمام مطالبات ماننے کے لیے تیار ہیں اس وقت تحریک انصاف ایک باعزت
طریقے سے یہی بات منوا لیتی کہ ہم دھرنا جاری رکھیں گے حکومت عدالت عظمیٰ
سے تحقیقات کروائے تاکہ دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی ہو جائے اب بھی اگر
عمران خان کو اس طرح کا یو ٹرن لینا تھا تو درمیان میں سراج الحق کے جرگے
کو ڈال دیتے جس کے ذریعے سے حکومت سے مذاکرات شروع کیے جاتے اور شفاف
انتخابات کے حوالے سے ایوان زیریں میں کوئی قانون سازی کر لیتے ۔
تیسرا واقعہ جو دراصل حکومت کی نااہلی کا شاخسانہ تھا کے تیس ارب سے زائد
کی رقم بجلی کے محکمے نے صارفین بجلی سے دھاندلی سے وصول کرلیے ۔اس پر تو
پانی اور بجلی کے وزیر پر دھوکہ دہی اور فراڈ کا مقدمہ بننا چاہیے تھا ۔حکومت
نے بڑی ڈھٹائی سے اس کا اعتراف کیا اور صارفین سے کوئی معذرت بھی نہیں کی
گئی۔اس کے بارے میں کہا گیا کہ یہ رقم آئندہ چند ماہ کے اندر صارفین کو
واپس کردی جائے گی اس کی ایک کمیٹی بٹھائی گئی جو بیٹھے بیٹھے سو گئی بلکہ
دوسری طرف یہ ہوا بجلی کی قیمتیں اور بڑھا دی گئیں اور اس کے ساتھ گیس کی
قیمتوں میں بھی اضافہ کردیا گیا ۔ہمارا حکمراں طبقہ اسی میں خوش ہے کہ ان
تین واقعات سے عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے
ہماری حکومت کے اقدامات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے پالا مار لیا
عمران خان کے دھرنوں سے جو دباؤ ان پر قائم تھا وہ اب اس دباؤ سے باہر آگئے
ہیں ۔لیکن عمران خان کی طرف سے 30 نومبر کی دھمکی اپنی جگہ قائم ہے ۔ ہو
سکتا ہے عمران خان نے ایک موقعہ دیا ہو کہ دیکھیں اس طرح کی بات مان لینے
سے حکمرانو ں کی نیتوں کا پتا چل جائے گا ۔اور پھر وہی ہوا جو ذرا سا بھی
میدان سے پیچھے ہٹا وہ شاید اب ہٹتا ہی چلا جائے ۔حکمراں طبقے کی بھی نیت
کا بھی اندازہ ہو گیا کہ اس موقع سے کچھ زیادہ ہی سیاسی فائدہ اٹھانے کا
فیصلہ کرلیا ہے کہ شیخ رشید کی گرفتاری تو دو ایک روز میں متوقع ہے ۔اور
ایسا لگتا ہے نون لیگ نے اس سیاسی جنگ کو بڑھانے کا ارادہ کرلیا ہے اور وہ
عمران خان کو گرفتار کرنا چاہتی ہے اگر ایسا ہوا تو اب تک نون لیگ نے جس
صبر و برداشت کا مظاہرہ کیا تھا اور اس سے اس کا جو سیاسی وقار قائم ہوا
تھا وہ سب یکدم ختم ہو کر رہ جائے گا ۔دوسری طرف عمران خان کی پارٹی میں
اپنی قیادت کے خلاف جو لاوا پک رہا تھا وہ بھی ٹھنڈا پڑ جائے گا اور تحریک
انصاف میں جو لوگ عمران کی پالیسیوں کے مخالف تھے وہ یہ سمجھنے پر مجبور ہو
جائیں گے عمران خان کا سخت رویہ زیادہ بہتر تھا کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے
نہیں مانتے ۔اور پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تحریک انصاف کے تمام ارکان
پارلیمنٹ ایک ساتھ استعفا دے دیں ۔
اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کو کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ سب
کچھ ٹھیک ہو گیا عوام میں اس حکومت کی ایک سال پہلے جو حمایت تھی وہ اب
نہیں ہے اور عوام اس حکومت سے بیزار ہیں کہ جو ان کے لیے مہگائی کم کرنے کے
بجائے اس میں اضافہ کرتی چلی جارہی ہیدوسری طرف نون لیگ کا اندرونی انتشار
بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔ |
|