ہمارے پاس بھی ہے

سنگھ پریوار نے آج پورے ملک پر قبضہ جمانے میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کر لی ہے۔سنگھ پریوار سے جڑے نمائندے مختلف علاقوں میں ہیں جہاں سے وہ اپنا ایجنڈہ نافذ کرنے کیلئے پوری طاقت لگا رہے ہیں اس میں بھی وہ بہت کامیاب رہے ہیں۔سنگھ پریوار کی کامیابی کی دو اہم وجوہات ہیں ان میں پہلی وجہ یہ ہے کہ سنگھ یعنی آر ایس ایس ہر کام کو منظم انداز میں انجام دیتی ہے،جس کے سر جو ذمہ داری ہے اسی ذمہ داری کو وہ نبھاتا ہے۔اپنی ذمہ داری میں نہ کسی کو داخل کرتا ہے نہ کوئی اس کی ذمہ داری میں دخل دیتا ہے اور وہ اس وقت تک خاموش نہیں بیٹھتا جب تک اس کا م پورا نہیں ہوتا ۔سنگھ پریوار کامیابی کی دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ اپنوں میں اتحاد اور غیروں میں اختلاف پیدا کرنے کا ہنر بخوبی جانتا ہے اور اسے انجام دینے کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔مثال کے طور پر اقتدار حاصل کرنے کیلئے سنگھ نے نریندر مودی کو ہر کام کرنے کی کھلی چھوٹ دے رکھی تھی اس کیلئے نریندر مودی نے خون بہانے سے لیکر ترقی کے نمونے پیش کرنے کا بہت اچھا سوانگ رچا جس کی آڑ میں ہندو بھی خوش ہوئے اور دوسری قوموں نے بھی ان کی واہ واہی کی۔خون کے چھینٹوں سے اپنے ماتھے تلک لگا کر نریندر مودی نے گجرات کو ترقی کا نام دیا تو وہیں دوسری جانب میڈیا کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے مرکز میں حکومت قائم کرتے ہوئے ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔آج سنگھ پریوار کے پاس بجرنگ دل ہے،وشوا ہندو پریشد ہے،بی جے پی ہے،سری رام سینا ہے،اے بی وی پی، ون بندھو پریشد،بھارتیہ مزدور سنگھ،راشٹریہ سیوکا سمیتی،درگا واہنی جیسی بڑی بڑی تنظیمیں ہیں اورا ن سب کا ایک ہی مقصد ہے ’’سنگھ کو مضبوط کرو،اپنوں میں اتحاد بناؤ،غیروں میں انتشار پھیلاؤ‘‘یہی وجہ ہے کہ جب بھی ہندوازم کی بات آتی ہے تو باقاعدہ ہر ایک ہندو ایک ہوجاتا ہے بھلے وہ کسی بھی ذات کا ہو یا سیاسی جماعت کا۔لیکن جب بات مسلمانوں کی آتی ہے تو ان کے پاس ایک اﷲ ہے،ایک رسول ہے اور ایک کتاب الہٰی ہے مگر ہمارے پاس بھی بہت سی شاخیں ہیں جن میں سُنی،شیعہ،دیوبندی،اہل حدیث،بریلوی،حنفی،ملکی،حنبلی ،شافعی،نقش بندی نہ جانے ایسے کتنے فرقے ہیں جو قیامت تک 73؍فرقے ہیں جو کبھی کسی بھی معاملے میں ایک نہیں ہوسکے۔یہ بات اور ہے کہ عقائد اور دینی فقّہہ کی بنیاد پر مسلمان ایک نہیں ہوسکتے لیکن مسائل عوامی ہیں جنہیں فروعی مسائل کہہ جاتے ہیں انہیں حل کرنے کیلئے بھی آج ہمارے پاس ایک اسٹیج نہیں ہے،ہر دفعہ اتحاد ملت کی آواز بلند ہوتی ہے لیکن یہ آواز الیکشن کے وقت پریا پھر ہندو مسلم فسادات کے وقت تک ہی محدود ہوتی ہے۔آج امت مسلمہ ایک دو نہیں ہزاروں مسائل سے جوج رہی ہے لیکن ہماری قیادت کیلئے نہ کوئی سنگھ ہے نہ کوئی سارتھی۔ان مشکلات کا حل نکالنے کیلئے صرف ایک ہی راہ ہے کہ ہمارے قائدین و رہنما اپنے باہمی اختلافات کو بھلا کر کوئی ایسی راہ اختیار کریں جو ساری امت کیلئے ہی نہیں پوری قو م کے کارگر ثابت ہو۔کشمیر سے لیکر کینا کماری تک ہماری ہزاروں تنظیمیں موجود ہیں لیکن ان تنظیموں کے قائدین کی مفاد پرستی نے امت مسلمہ کو آپس میں بٹورنے میں لگی ہے۔آخر کب تک قوم ٹکڑوں میں بٹی رہے گی،جو قوم ایک خد ااور ایک رسول کو ماننے والی ہے کیا یہی قوم اپنے حقوق کو حاصل کرنے کیلئے کبھی آواز نہیں اٹھا سکتی؟۔کیا یہ قوم اپنے اوپرہورہے ظلم وستم کا جواب دینے کیلئے ایک مٹھی نہیں بن سکتی؟کیا یہ قوم اتنی بھی بے حس ہوگئی ہے کہ اپنے آپ کو برترثابت کرنے کیلئے دوسروں کو کم تر ثابت کریں؟ہاں ہم مانتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کے درمیان جتنے بھی فرقے و مسلک ہیں وہ ہر ایک فرقہ دوسرے فرقے کے لوگوں کو کافر کہتے ہیں لیکن کافر تمام فرقوں کے مسلمانوں کو ایک مسلمان مانتے ہیں۔ایسے میں مسلمانوں کیلئے ا ب سوچنے کا وقت نہیں ہے بلکہ کچھ کر دکھانے کا وقت ہے۔
 
Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197759 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.