صَفَر عربی زبان کالفظ ہے جس میں
’’ص‘‘اور ’’ف‘‘ دونوں پر زبر ہے اسکے معنی وہی ہیں جو عام طور پر
مشہورومعروف ہیں یعنی اسلامی مہینوں میں دوسرامہینہ،اسلام سے پہلے
دورجاہلیت میں صَفَر کے متعلق مختلف عجیب و غریب توہمات تھے۔صَفَر کے متعلق
دورجاہلیت میں لوگوں کایہ گمان تھا کہ اس سے مراد وہ سانپ ہے جو انسان کے
پیٹ میں ہوتاہے اور بھوک کی حالت میں انسان کوڈستا اور کاٹتاہے چنانچہ بھوک
کی حالت میں تکلیف ہوتی ہے وہ اسی کے ڈسنے سے ہوتی ہے۔بعض کایہ نظریہ تھا
کہ صَفَر سے مراد پیٹ کاوہ جانورہے جو بھوک کی حالت میں بھڑکتاہے اور جوش
مارتاہے جسکے پیٹ میں ہوتاہے بسااوقات اسکوجان سے بھی ماردیتاہے اور اسکو
خارش کے مرض والے سے زیادہ متعدی مرض سمجھتے تھے۔بعض کے نزدیک صَفَر ان
کیڑوں کوکہتے ہیں جوجگر اور پسلیوں کے سِرے میں پیداہوجاتے ہیں جنکی وجہ سے
انسان کارنگ بالکل پیلاہوجاتاہے جسکو طب کی اصطلاح میں ’’یرقان‘‘کہاجاتاہے
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ صَفَر ایک مشہورمہینہ ہے جومحرم اور ربیع الاول کے
درمیان آتا ہے لوگوں کااسکے متعلق یہ گمان ہے کہ اس ماہ میں بکثرت مصیبتیں
اور آفتیں نازل ہوتی ہیں اور دورجاہلیت صَفَر کامہینہ آنے سے بدفالی بھی
لیاکرتے تھے آج کل بھی ماہ صَفَر کے متعلق عام لوگوں کے ذہن میں مختلف
خیالات جمے ہوئے ہیں جن میں سے چند حسب ذیل ہیں ،بعض ماہ صَفَر میں شادی
بیاہ اور دیگر پر مسرت تقریبات منعقد کرنے اور اہم امورکاافتتاح و ابتداء
کرنے پرہیز کرتے ہیں اور کہاکرتے ہیں کہ صَفَر میں کی ہوئی شادی صِفر
ہوجاتی ہے (یعنی ناکام ہوجاتی ہے) اور اسکی وجہ سے عموماً ذہنوں میں یہی
ہوتی ہے کہ صَفَر کامہینہ نامبارک اور منحوس مہینہ ہے چنانچہ صَفَر کامہینہ
گزرنے کاانتظار کرتے ہیں اور پھر ربیع الاوّل کے مہینے سے اپنی تقریبات
شروع کرتے ہیں اس وہم پرستی کادین سے کوئی واسطہ نہیں یہ محض باطل ہے،بعض
ماہ صَفَر کی یکم سے ۱۳تاریخ تک کے ایام کو بطورخاص منحوس اور براجانتے ہیں
اور ۱۳تاریخ کو گھونگھنیاں وغیرہ پکاکرتقسیم کرتے ہیں تاکہ اس نحوست سے
حفاظت ہوجائے یہ بھی بالکل بے اصل بات ہے من گھڑت اور ایجاد کردہ باتوں کی
کوئی بنیادتوہوتی نہیں لیکن جب جاہلوں سے یاان گمراہ کن راہنماؤں سے انکے
باطل نظریات کی دلیل مانگی جاتی ہے تو وہ من گھڑت روایتیں اور غلط ملط
دلیلیں پیش کیاکرتے ہیں یہ تمام باتیں محظ غلط،بے بنیاد اور من گھڑت
ہیں۔قرآن و حدیث صحابہ ؓ وتابعین ؒ ،ائمہ،مجتہیدینؒ کسی سے بھی انکاثبوت
نہیں ہے بلکہ رحمت عالم ﷺ نے اپنے صاف اور واضح ارشادات کے ذریعہ زمانہ
جاہلیت کے توہمات اور قیامت تک پیداہونے والے تمام باطل خیالات اور صَفَر
کے متعلق وجودمیں آنے والے تمام نظریات کی تردید اور نفی فرمادی ہے اور
ساتھ ہی دورجاہلیت میں جن جن طریقوں سے نحوست ،بدفالی اور بدشگونی لی جاتی
تھی ان سب کی بھی مکمل نفی فرمائی ہے اور مسلمانوں کو ان تمام توہمات سے
بچنے کی تاکید فرمائی ہے۔حضرت ابوہریرہ ؓ رسول ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ
نے فرمایا مرض کالگ جانا،اْلو، صَفَر اور نحوست یہ سب باتیں بے حقیقت ہیں
اور جزامی شخص سے اس طرح بچواور پرہیز کرو جس طرح شیر سے بچتے ہو۔حضرت جابر
ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے خود رسول ﷺ سے سناہے کہ مرض لگ جانا،صفراور غول
بیابانی سب خیالات ہیں انکی حقیقت نہیں۔حضرت ابوہریرہ ؓ رسول ﷺ سے روایت
کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا مرض کالگ جانا،اْلواور صفر یہ سب وہم پرستی کی
باتیں ہیں انکی کوئی حقیقت نہیں ۔رحمت کائنات ﷺ نے صَفَر کے متعلق جتنے
باطل نظریات ،خیالات اور توہمات زمانہ جاہلیت میں لوگوں کے اندررائج تھے ان
سب کی صاف صاف نفی فرمادی اور کسی بھی قسم کے توہمات کی گنجائش نہیں
رکھی۔مذکورہ بالا حدیث میں آنحضرت ﷺ نے تین چیزوں کی نفی فرمائی ہے سب سے
پہلے آپ ﷺ نے جس چیز کی نفی فرمائی وہ ایک بیماری کا دوسرے کولگنا ہے ۔زمانہ
جاہلیت میں لوگوں کایہ اعتقاد تھاکہ بیمارکے ساتھ بیٹھنے یاسکے ساتھ کھانے
پینے سے اسکی بیماری دوسرے تندرست اور صحت مند آدمی کولگ جاتی ہے اور وہ
لوگ ایسی بیماری کو متعدی مرض اور چھوت کی بیماری کہتے تھے،قدیم وجدید طب
میں بھی بعض بیماریوں کو متعدی اور چھوت کی بیماری قراردے دیاگیا مثلاً
خارش،چیچک،خسرا،گندہ دہنی(یائیوریا)آشوب چشم اور عام وبائی امراض وغیرہ،عام
لوگوں میں چھوت چھات کااعتقاد اور ایک بیماری دوسرے کولگنے کاگمان بھی کافی
عام ہے چنانچہ ہمارے معاشرے میں بھی وبائی امراض میں مبتلاء ہونے والوں سے
بہت پرہیزکیاجاتاہے اور انکا کھاناپینا،رہنا سہنا اور اوڑھنا بچھونا سب
علیحدہ کردیاجاتاہے اور حدسے زیادہ چھوت چھات کابرتاؤکیاجاتاہے حضوراکرم ﷺ
نے اس عقیدے اور نظریہ کوباطل قراردیااور فرمایا بذات خود ایک شخص کی
بیماری بڑھ کردوسرے کونہیں لگتی بلکہ بیمارکرنا،نہ کرنا قادرمطلق کے
اختیارمیں ہے وہ جسکو چاہے بیمارکرے اورجسکوچاہے بیماری سے محفوظ
رکھے۔دوسری چیزجسکی آپ ﷺ نے نفی فرمائی وہ ’’ہامّہ‘‘ہے اسکی حقیقت سے
باخبرہوناچاہیے ہامّہ کے لفظی معنی ’’سر‘‘اور ’’پرندہ‘‘ کے آتے ہیں ہامّہ
سے مراد پرندہ ہے زمانہ جاہلیت میں لوگ ’’ہامّہ‘‘ پرندے سے بدشگونی اور
نحوست مرادلیتے تھے اسکے متعلق ان میں طرح طرح کی باتیں پھیلی ہوئی ہیں
مثلاً انکاخیال تھا کہ مقتول کے سرسے ایک پرندہ نکلتا ہے
جسکانام’’ہامّہ‘‘ہے وہ ہمیشہ فریادکرتارہتاہے کہ مجھے پانی پلاؤ جب مقتول
کابدلہ قاتل سے لیاجاتاہے توپھریہ پرندہ اڑجاتاہے بعض کاخیال تھاکہ مردے کی
ہڈیاں جب بوسیدہ اور معدوم ہوجاتی ہیں توہ ’’ہامّہ‘‘ بن کر قبرسے نکل جاتی
ہیں اِدھراْدھر گھومتی رہتی ہیں اور اپنے گھروالوں کی خبریں لیتی پھرتی ہیں
بعض کااعتقاد تھا کہ ’’ہامّ‘‘وہ اْلوہے جوکسی کے گھرپربیٹھ کرآوازیں
لگاتاہے اور انہیں ہلاکت و بربادی اور موت کی خبریں دیتاہے رسول اﷲ ﷺ نے اس
اعتقاد کو باطل قراردیااور ایسااعتقاد رکھنے سے منع فرمایا اور واضع فرمایا
کہ ’’ہامّہ‘‘کی کوئی حقیقت نہیں ہے تیسری چیز جسکی حضور ﷺ نے نفی فرمائی ہے
وہ ’’نَوءَ‘‘ہے یہ چاند کی اٹھائیس منزلوں کانام ہے جس میں ہر منزل کے مکمل
ہونے پر صبح صادق کے وقت ایک ستارہ گرتاہے اور دوسراستارہ اسکے مقابلے میں
اسی وقت مشرق میں طلوع ہوتاہے زمانہ جاہلیت کا بارش کے متعلق یہ گمان تھاکہ
چاند یاستاروں کی ایک منزل کے ختم اور دوسری منزل کے آغاز پر بارش ہوتی ہے
بارش کومنزل کی جانب منسوب کرتے تھے کہتے تھے کہ فلاں منزل کی وجہ سے ہم پر
بارش ہوئی اور ستاروں ہی کوبارش کے سلسلے میں مؤثر حقیقی مانتے تھے ۔حضور ﷺ
نے ’’لَانَوءَ‘‘فرماکر اسکی بھی نفی فرمادی اور زمانہ جاہلیت کے اس گمان کو
باطل اور بے بنیاد قرار دیا کیونکہ ایساخیال اور نظریہ انسان کوشرک کی حدتک
پہنچادیتاہے بارش کابرسنایانہ برسنامحض حق تعالیٰ شانہ کی قدرت میں ہے وہ
جب چاہتاہے برساتاہے جب چاہے نہیں برساتا ۔ |