یہودیت آخرہے کیا؟
(Shaikh Wali Khan AlMuzaffar, Karachi)
برطانیہ اور سویڈن نے فلسطین کو ایک آزاد
وخودمختار ملک تسلیم کئے جانے کا اعلان کردیاہے،اُدہر اسرائیل نے مسجد
اقصیٰ اور الخلیل میں مسجد ابراہیمی کو پچھلے کئی دنوں سے پامال کرنا شروع
کردیاہے، ہم نے چاہا کہ ذرہ تفصیل سے یہودیت کی جہالت اور ہٹ دھرمی پر
روشنی ڈالی جائے،تاکہ حقائق طشت ازبام ہوں:
یہ مذہب یہودابن یعقوب کی طرف منسوب ہے ، اس کے ماننے والے کو یہود، ہود،
صہیونی، اسرائیلی اورآل عمران کہاجاتاہے،یہودا یعقوب ؑ کا بڑاصاحبزادہ تھا،
بنی اسرائیل میں تقسیم کاری کے طور پرنبوت ہمیشہ بنی لاوی میں اورسلطنت بنی
یہودا میں رہی۔۱۸۰۰ ق م میں حضرت ابراہیم ؑعراق میں پیداہوئے اور عراق ہی
میں توحید کی دعوت شروع کی، وہاں کے حکمراں نمرود نے آپ کی مخالفت کی، یہاں
تک کہ آپ ؑکوآگ میں ڈال دیا، آگ سے نکلنے کے بعد ابراہیم ؑنے مصرکارخ کیا،
پھرشام تشریف لائے اورشام ہی میں رہے۔آپ ؑنے دو شادیاں کیں، بی بی سارہ
اوربی بی ہاجر ۔ بی بی سارہ مع اپنی اولاد کے شام میں رہی،بی بی ہاجر مع
اپنی اولاد کے حجاز میں رہی۔ شام میں جوحضرت ابراہیم ؑ کی اولاد رہی وہ
حضرت یعقوب (اسرائیل) کے آخری زمانے میں حضرت یوسف کے توسط سے مصرچلے گئے،
یہ وہ زمانہ تھا کہ جس میں شام کے عرب قبائل جن کو عمالقہ کہا جاتا ہے اور
انگریز مؤرخین انہیں’ ’ ہیکسوس ‘‘ سے یاد کرتے ہیں (فرعون کی بیگم حضرت
آسیہ بھی اسی عربی قبیلے میں سے تھی)، وہاں کے قبطیوں کومغلوب کرکے حکمرانی
کررہے تھے، حضرت یوسف کو بتدریج صرف وزیر ہی نہیں بلکہ فرمانرواں بھی مقرر
کیاگیا، یوسف ؑ اپنی عمرکے۳۰ سال سے ۸۰ سال تک حکمران رہے، ان کے وصال کے
بعدقبطی نسل پرستوں نے مصر میں شورش برپاکی اورانقلاب لا کر حکومت پرقابض
ہوگئے۔
انقلاب کے بعد عمالقہ کو انہوں نے ملک بدر کردیا اورعمالقہ کے حامیوں یعنی
بنی اسرائیل کواز اوّل تاآخر غلام بنالیا،یہ سلسلہ چلتا رہا، فراعنہ
حکمرانی کرتے رہے، یہاں تک کہ حضرت موسیٰ کادور آیا، موسیٰ ؑ ان بنی
اسرائیل غلاموں کے گھرمیں پیدا ہوئے، لیکن بچّوں کے قتل کے مشہور واقعہ کے
سبب آپ نے فرعون ہی کے گھر میں تربیت پائی اوروہیں جوان ہوئے، جوانی میں
ایک قبطی کو مارنے کی وجہ سے شام کے ایک علاقے مدین آنا پڑا ، جہاں آپ ؑایک
نیک سیرت اورمردِ صالح شعیب نامی شخص کے پاس دس سال رہ کر واپس مصر چلے
گئے۔
قصّہ مختصر یہ کہ حضرت موسیٰ اور فرعون کے درمیان حق وباطل کی کشمکش رہی،
اس کانتیجہ بنی اسرائیل کے خروج مصر اور فرعون کے بحراحمرمیں غرق ہونے
پرختم ہوا، اس معجزہ کے لیے سرسید کی تفسیر ناقابلِ دید ہے۔
یہاں خروج کے بعد حضرت موسیٰ اوربنی اسرائیل کے درمیان عجیب و غریب قسم کے
واقعات ہوئے، مثلاً:بچھڑے کی عبادت، ’’حطّۃ ‘‘کی جگہ ’’حنطۃ ‘‘کی تبدیلی،
گائے پرستوں کودیکھ کر اسی طرح کے خداکے مطالبے ، اورجہاد کاانکار وغیرہ ……
کچھ اس قسم کی مختلف نالائقیوں کی وجہ سے میدان’’ تیہ‘‘ میں ۴۰ سال تک
سرگرداں رہے ،اسی اثناء میں حضرت موسیٰ اورحضرت ہارون کا وصال ہوا، قیادت
حضرت یوشع بن نون کے ہاتھ میں آئی، فلسطین فتح ہوا جو کہ عمالقہ کا علاقہ
تھا،لیکن حضرت یوشع کے بعد عمالقہ پھر غالب آگئے اور یہودیوں میں سے کچھ کو
تِہ تیغ کیااور بقیہ تمام کو غلام بنالیا، چنانچہ یہودی عمالقہ کے اس
انقلاب کے بعد چار سو سال تک غلامی میں رہے۔
پھرحضرت سمویل ؑکی بعثت ہوئی، تو بنی اسرائیل نے ان سے مطالبہ کیا کہ ہمارے
لیے سربراہ یعنی کسی شخص کو ہم میں سے بادشاہ مقرر کرے تاکہ ہم عمالقہ سے
جنگ لڑ کر آزادی حاصل کریں، طالوت کو بادشاہ مقرر کیاگیا تویہودی اپنی ازلی
کم بختی وکم ظرفی کی وجہ سے کہنے لگے: ’’طالوت تو بنی لاوی میں سے ہیں اور
ہمیں سربراہ بنی یہودا میں سے چاہیے،نیز یہ طالوت فقیر قسم کاآدمی ہے، یہ
ہمارے اوپر کیسے حکمرانی کرسکتاہے۔‘‘ پھر بھی طالوت نے جالوت کوللکارا، جنگ
چھڑ گئی، طالوت کی طرف سے ایک جوان داؤد نے تیرمارکر جالوت کو قتل کیا،
طالوت نے اپنی ساری حکمرانی بمع اپنی صاحبزادی کے ان کے حوالے کی اوراﷲ پاک
نے خلعت نبوت سے بھی نوازا، داؤد نے اپنے عہد میں مسجد اقصیٰ کی تعمیر کی
ابتدا کروائی اوران کے بعد انہی کے صاحبزادے حضرت سلیمان کومالک کائنات نے
مشرف بنبوّت ومملکت فرمایا، جنہوں نے یہی تاریخی مسجد جنات کے ذریعے سے
مکمل کروائی۔ ۹۷۵ ق م میں ان کاانتقال ہوگیا۔
حضرت سلیمان کے انتقال کے ساتھ ہی سلطنت دو حصّوں میں بٹ گئی، ایک سلطنت کا
دارالخلافہ سامرہ(نابلس)اورایک کادارالخلافہ بیت المقدس (یروشلم) مقرر
کیاگیا، کئی سو سال اسی طرح رہنے کے بعد شمال کی طرف سے آشوریوں نے سامریوں
میں سے ہزاروں کو قتل کرکے مغلوب کردیا اور وہاں پر قابض ہوگئے، ادھرسے
کلدانیوں کے بادشاہ اورآشوریوں کے سابق گورنربخت نصر نے دوسری مملکت کو تہس
نہس کردیا، مسجد اقصیٰ کو جلا کرگرادیا، ہزاروں یہودیوں کوقتل کیا اور بقیہ
کوان کے بادشاہ صدقیہ سمیت قیدی بنا کربابل(عراق) لایا، پھر خسرو(شاہِ
ایران) نے بابل کو اس کے ستّربرس بعدفتح کیا اور سارے قیدیوں کورہاکردیا،
انہوں نے پھرفلسطین جا کر اپنی کٹھ پتلی سی حکومت قائم کردی، جس پر یونان
نے پے درپے حملے جاری رکھے، یہاں تک کہ رومیوں نے آخری حملہ کرکے انہیں
غلام بنایا، رومیوں نے یہاں کے ایک یہودی کوگورنر بنایا، اس کے مرنے کے
بعداس کے تین بیٹوں نے مقبوضہ علاقے کے تین صوبے بنائے، اس زمانے میں حضرت
زکریااور حضرت یحییٰ کوقتل کیا گیا اورحضرت عیسیٰ تشریف لائے، رومیوں نے
کچھ سالوں بعدپھرحملہ کیا، اس حملے میں رومیوں نے ڈیڑھ لاکھ یہودیوں کوقتل
کیا،گویا ہٹلر نے ہی یہودیوں کا قتلِ عام نہیں کیا، بلکہ یہ ایک عذاب کی
صورت میں ان کے ساتھ بارہا ہوا ،اور۷۰ ہزارکوقیدی بنایا، کچھ اِدھر
اُدھرجاکرنکل گئے، انہیں بھگوڑوں میں حجاز، رملہ، تبوک، تیما، وادی القریٰ،
مدینہ اور خیبر کے یہودی بھی تھے، جنہیں پھرمدینہ سے بھی نکالا گیا یعنی
بنونضیر، بھدل، قریظہ اور بنوقینقاع، جبکہ مدینہ کے اوس وخزرج یمن کے قبائل
عرب میں سے ہیں۔
اس زمانے میں آپ ﷺتشریف لائے ، یہودی آپ کاانتظار کرتے تھے، لیکن تعصب میں
آکر بنواسماعیل میں سے نبی کے آنے کی وجہ سے انکار کیا،ادھر فلسطین پررومی
عیسائیوں کاقبضہ رہا(رومی بعد میں عیسائی ہوگئے تھے)یہاں تک کہ جناب نبی
کریم ﷺکی بعثت کے ابتدائی ایام میں ان منتشر بھگوڑے یہودیوں نے کسریٰ کو
رومیوں کے خلاف اُکسا کرفلسطین پرحملہ کروایا، جس نے مسجد اقصیٰ کوتباہ
وبرباد کیا اور صلیب کواپنے ساتھ ایران لے گیا، چودہ سال بعدعیسائیوں کی اس
شکست کابدلہ لینے کے لیے قیصر روم نے ایرانیوں پرحملہ کرکے بیت المقدس بھی
آزاد کروایااورایران تک اندر جا کراپنی اصلی صلیب کوبھی واپس لے کر آئے۔
نبی کریم ﷺنے بھی یہودیوں کوان کی سازشوں کی وجہ سے کچھ کو قتل اورکچھ کو
جلاوطن کردیا، جس کی داستان بڑی طویل ہے ، یہاں ہم فلسطینی عربوں کی زمین
پر موجودہ اسرائیل کے قیام کی کچھ تفصیل بیان کریں گے:’’ اس وقت سے لے کرجب
بختِ نصرنے یہودیوں کو یروشلم سے نکالا، اب تک یہ لوگ مخصوس ذہنیت،
متعصبانہ فطرت اور بزعم خویش من عنداﷲ احساس برتری کی وجہ سے ہردور میں
معتوب رہے ۔ یہ دنیا کے مختلف ملکوں اور خطّوں میں بھٹکتے رہے، مگر الگ
تھلگ رہنے کی خواہش کی وجہ سے کہیں بھی قومیت کے حقوق حاصل نہ کر سکے۔
علیحدگی کے اس احساس کے تحت خفیہ تحریکیں چلانااورسازشیں کرناان کی فطرتِ
ثانیہ بن گئی،چنانچہ صہیونیت بھی ان کی ایک خفیہ سازش اورتحریک ہے
اورصہیونیوں سے مرادوہ یہودی ہیں جو صہیون ( یروشلم کاایک پہاڑ) کی تقدیس
کرتے ہیں اور فلسطین میں قومی حکومت کے خواہاں اوراس مقصد کے لیے کوشاں رہے
ہیں۔
صہیونیت کامنظم طور پرآغاز سترہویں صدی عیسوی میں ہوچکاتھا، اس کا پہلا
ہیڈکواٹر (وِیانا) تھا۔ ۱۸۵۴ء میں لندن کے ایک یہودی نے اسی مقصد کے لیے
ایک کمپنی قائم کی اور۱۸۷۶ء میں جارج ایبٹ (ایبٹ آباد اسی نام سے منسوب ہے)
نے ’’چول سائن ‘‘کے نام سے ایک سوسائٹی کی بنیاد رکھی جس کامقصد فلسطین میں
یہود کی نوآبادیاں قائم کرنا تھا۔۹۶ ۱۸ء میں ویانا کے ایک یہودی صحافی
ڈاکٹر تھیوڈور ہرزل نے ’’ریاست یہود‘‘ کاایک تصور پیش کیا۔ اس کی رہنمائی
میں۱۷؍اگست ۱۸۹۷ء کو سوئٹزرلینڈ کے شہر ’’ بیسل ‘‘ میں صہیونیوں کی کانفرنس
ہوئی، اس کے نتیجے میں یہودیوں میں ہجرت فلسطین کی تحریک باقاعدہ شروع
ہوگئی ، سب سے پہلے روس سے کچھ یہودی ارضِ مقدس پہنچے ، برطانیہ نے ان
لوگوں کی بڑی مدد کی، انگریزوں نے ترکی کے سلطان عبدالحمید کے ساتھ ڈاکٹر
ہرزل کی گفت وشنید میں یہودیوں کی خود مختاری تسلیم کرانے کی ہرممکن کوشش
کی مگر سلطان نے واضح الفاظ میں انکار کردیا۔
۱۸۹۸ء میں یہودیوں نے سلطان پرپھرسے بیرونی طاقتوں کادباؤ ڈلوایا اوردوسری
طرف اس کاتختہ الٹنے کی سازشوں میں بھی مصروف ہوگئے۔ ۱۹۰۲ء میں ڈاکٹر ہرزل
کی موت کے بعد یہودیوں نے’’دونمہ‘‘ اور’’فری میسن‘‘کی تحریکوں کے ذریعے
اپنی سازشیں تیز ترکردیں اوربالآخر ۱۹۰۸ء میں سلطان عبدالحمید کاتختہ الٹ
دیا گیا، اس تاریخی انقلاب کے بعد ترکی میں حکومت بنی ، اس کے تین وزراء
بصاریہ آفندی، نسیم مزلک اورجاویدبے یہودی تھے، انہوں نے اپنا اثرو رسوخ
استعمال کرنا شروع کیا اوربالآخر ۱۹۱۴ء میں یہودیوں کوملکیتِ زمین کاحق
دلادیا،برطانیہ نے بھی یہودیوں کاساتھ دیا اورنومبر۱۹۱۷ء کویہودی وطن بنانے
پررضامندی کااظہار کردیا، یہ اعلان یاوعدہ تاریخ میں’’اعلان بالفور‘‘ کے
نام سے مشہور ہے جوبرطانوی وزیر خارجہ بالفور نے ان الفاظ میں کیا: ’’ہمیں
فلسطین کے متعلق کوئی فیصلہ کرتے ہوئے وہاں کے موجودہ باشندوں سے کچھ
پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے، صہیونیت ہمارے لیے ان سات لاکھ عربوں کی خواہشات
اور تعصبات سے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔‘‘
اعلانِ بالفور کے ساتھ ہی دنیاکے تمام ممالک سے یہودیوں کا ایک سیلاب
فلسطین کی طرف اُمڈپڑا، دیکھتے ہی دیکھتے فلسطین کے ۲۶ سو یہودی۸۳ ہزار کی
ایک منظم اورخوشحال قوم میں تبدیل ہوگئے، عربوں کی زمینیں دھڑادھڑ ان کے
نام منتقل ہونے لگیں، اس موقع پرصہیونی لیڈر ڈاکٹر ویز نے کہا: ’’اگرچہ ہم
فلسطین کوخالص یہودی ریاست بناناچاہتے ہیں، ا س کے باوجود جوعرب فلسطین میں
رہنا چاہیں گے ، انہیں اس کی اجازت دی جائے گی ، لیکن جو نہ رہناچاہیں گے
ان کے لیے مصرہے، شام ہے ۔‘‘
برطانیہ کے سایہ عاطفت میں فلسطین میں یہود کی مسلسل درآمد جاری رہی، حتی
کہ جب مجلس اقوام (اقوام متحدہ سے قبل لیگ آف نیشنز [رابطۃ الأقوام] ایک
بین الاقوامی تنظیم تھی) نے فلسطین کوانگریزوں کی نگرانی (انتداب) میں دیا،
توتیس سالہ دورِ انتداب کے خاتمے پریہود بمشکل ۶۷ء ۵فیصد اراضی کے مالک بن
چکے تھے، اس کے باوجود یہودیوں کو حکومت کے نظم ونسق میں برابر کا شریک کر
لیاگیااوران کے سپرد تعلیم اورزراعت کے شعبے ہوئے ، یہودیوں کوزمینوں کی
آباد کاری کے لیے قرضوں اوردوسری سہولتوں سے نوازاگیا۔ سرکاری اراضی
یہودیوں کومفت دی گئی، عربوں کے گاؤں کے گاؤں بے دخل کرکے وہاں یہودی
بستیاں بسائی گئیں۔
۱۹۳۶ء میں برطانیہ نے فلسطین کومجلس قانون ساز عطا کی ، اس کے بائیس ارکان
میں سے صرف گیارہ مسلمان تھے، عربوں نے اس ناانصافی پر۱۹؍ مارچ کو ہڑتال
کردی جسے تشدد سے دبایاگیا۔معاملات کوطے کرنے کے لیے لارڈپیل کی قیادت میں
ایک برطانوی شاہی کمیشن قائم ہواجس کا عربوں نے بائیکاٹ کیا، مگراس کمیشن
نے پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت فلسطین کو(یہودی اورعرب) دو حصّوں میں
تقسیم کرنے اوربیت المقدس کے علاقے کو برطانیہ کے زیرانتداب رکھنے کی تجویز
پیش کی۔ نیز یہ بھی کہاگیا کہ اگرعرب نہ مانیں تومارشل لاء لگادیاجائے گا
اوران سے ہتھیارچھین لیے جائیں گے۔ اس کے ردّعمل کے طور پر۱۹۳۷ء میں شام کے
ایک قصبہ’’ہوزان‘‘ میں عرب قومی کانفرنس ہوئی جس میں اعلان بالفور، برٹش
انتداب، درآمد یہود اورتقسیم فلسطین کی مخالفت اور استرداد استقلال کافیصلہ
کیاگیا۔ اس کے نتیجے میں قومی تحریک شروع ہوئی جسے سختی سے دبانے کی کوشش
کی گئی، عربوں نے تمام ظلم وستم مردانہ وار برداشت کیے، اس پربرطانیہ نے
عربوں سے وعدہ کیاکہ دس سال کے اندراندرفلسطین میں ایک آزاد حکومت قائم
کردی جائے گی، مگرجونہی امریکااتحادیوں کی صف میں شامل ہوا، یہودیوں کوایک
اورمؤثر طاقت کی امدادمل گئی اورانہوں نے امریکاکی شہ پر عربوں کے خلاف قتل
وغارت گری کی مہم شروع کردی، ان کاتشدد اورتخریبی کارروائیاں اتنی بڑھ چکی
تھیں کہ ۱۰؍اکتوبر ۱۹۴۴ء کوخودبرطانوی حکومت نے اپنے ایک بیان میں صہیونیت
کی مذمت کی۔
۲۹؍مارچ ۱۹۴۶ء کوبرطانیہ اورامریکا کی ایک مشترکہ کمیٹی ’’اینگلوامریکن‘‘
نے فوری طورپر ایک لاکھ یہودیوں کوفلسطین میں داخلے کی اجازت دے دی۔ نیز یہ
بھی کہاگیاکہ فلسطین کوبین الاقوامی علاقہ قرار دیا جائے ، اس موقع
پرامریکا نے اپنی فوجی اورسیاسی خدمات پیش کرنے کااعلان کیا، مسلمانوں
خصوصاً ہندوستانی مسلمانوں کی مخالفت پربرطانیہ اس کی اجازت کومنسوخ کرنے
پرمجبور ہوگیا، مگر یہودیوں کے زیر اثر وہ اس معاملے کو اقوام متحدہ میں لے
گیا۔
۱۵؍مئی ۱۹۴۷ء کواقوام متحدہ نے ایک خصوصی کمیٹی برائے فلسطین قائم کی، اس
گیارہ رکنی کمیٹی میں سے کینیڈا، چیکوسلواکیہ،گونٹے مالا،نیدرلینڈ، پیرو،
سویڈن، یوراگوئے وغیرہ نے تقسیم فلسطین کاحل پیش کیا اور ہندوستان، ایران
اوریوگوسلاویہ نے وفاقی حل تجویز کیا، جبکہ آسٹریاغیرجانبداررہا۔اس
پر۳۱؍اگست کو دو نئی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔کمیٹی نمبرایک کوتقسیم کے
منصوبے کی تفصیلات طے کرنے کے لیے کہا گیا، جبکہ کمیٹی نمبردو جو پاکستان،
سعودی عرب ،افغانستان، عراق، مصر، لبنان، شام اوریمن پرمشتمل تھی،تقسیم کا
پابند نہ رہتے ہوئے اپنی سفارشات مرتب کرنے کے لیے کہاگیا، اس کمیٹی نے
تقسیم کی تجویزکی سخت مخالفت کی، مگرانصاف وامن کی علمبردار اس انجمن نے
۲۹؍نومبر۱۹۴۷ء کوایک قرارداد کے ذریعے فلسطین کوعربوں اور یہودیوں کے
درمیان تقسیم کرنے کافیصلہ کردیا، ۲۳ملکوں نے اس کے حق میں ووٹ دیا، جبکہ
۱۳ مخالف اور۱۰غیرحاضرتھے، امریکا اورروس نے۔ الکفرملۃ واحدۃ۔ کا کردار ادا
کرکے تقسیم کی زبردست حمایت کی۔اقوام متحدہ کی قرارداد کے فوراًبعد یہودیوں
نے دہشت گردی کاآغاز کر دیا اوربہت ہی تھوڑے عرصے میں سترہ ہزارعربوں
کوشہیداورتقریباًتین لاکھ کوبے گھر کر دیا، ابھی جنرل اسمبلی کی بحث جاری
تھی کہ۱۴؍مئی ۱۹۴۸ء کوبرطانیہ نے فلسطین سے دست کش ہوجانے کااعلان
کردیا،اسی وقت تل ابیب میں یہودیوں نے حکومت اسرائیل کے قیام کااعلان
کردیا، اگرچہ اقوام متحدہ نے ابھی اس کی اجازت نہیں دی تھی، مگر امریکا اور
روس نے روایتی مسلم دشمنی کی وجہ سے فوراًہی اس حکومت کوتسلیم بھی کرلیا۔
حکومت قائم کرتے ہی یہودیوں نے نصف بیت المقدس پرقبضہ کرلیا اور اس کے ساتھ
ہی عرب علاقوں پربھی حملے کردئیے ،گردوپیش کی عرب ریاستوں نے بے سہاراعرب
آبادی کویہودیوں کے اس ظلم وستم سے بچانے کے لیے اپنی فوجیں فلسطین میں
داخل کردیں، وہ تل ابیب تک پہنچنے ہی والی تھیں کہ بڑی طاقتوں نے اقوام
متحدہ کی مداخلت کے ذریعے جنگ بندکرادی، عرب لیگ نے ۱۱؍جون ۱۹۴۸ء کو عالمی
رائے عامہ کا احترام کرتے ہوئے جنگ بندکردی۔۱۷؍ستمبرکواسرائیلیوں نے پھر
جنگ چھیڑدی اورجب پھرانہیں شکست ہونے لگی تواقوام متحدہ کے ذریعے مارچ
۱۹۴۹ء میں جنگ بندی کرادی گئی، اُس وقت اسرائیل ۷۵ فیصد علاقے پرقبضہ کر
چکا تھا۔
۱۳؍مارچ ۱۹۵۲ء کویہودی ریاست کی حدود کا تعےّن کرتے ہوئے ڈاکٹر عاری الکمان
نے کہاتھا: ’’عظیم تراسرائیل عراق سے سویزتک پھیلاہوا ہے۔‘‘ اسرائیل کے
لیڈر بن گوریان نے بھی کچھ انہی الفاظ میں اسرائیلی سلطنت کی حدود کا تعےّن
کیاتھا۔ چنانچہ ۱۹۵۶ء میں اسرائیل نے مصرپرحملہ کیا جس کے جواب میں مصر نے
نہرسویزکواسرائیلی جہازوں کے لیے بندکردیا۔جون ۱۹۶۷ء میں ایک بار پھر عربوں
اور اسرائیل کے مابین زبردست جنگ ہوئی، مصرنے خلیج عَقَبہ تک کے علاقے کی
ناکہ بندی کردی ، مگراسرائیل کے لیے امریکی امدادکے پہنچ جانے پراسرائیل نے
نہ صرف نہرسویزتک کے علاقے کوبلکہ شام کی جولان نامی پہاڑیوں، اردن کے خاصے
علاقے اور پورے شہر یروشلم (القدس) پربھی قبضہ کرلیا۔
اگست ۱۹۶۹ء میں مسجداقصیٰ کے نذرآتش کرنے کاواقعہ پیش آیا۔۱۹۷۲ء میں مقبوضہ
عرب علاقوں میں سے (جن میں دریائے اردن کے مغربی کنارے کے علاقے، غزہ
اورگولان کی پہاڑیاں شامل ہیں)پچاس ہزار مسلمان روزانہ ان علاقوں سے عرب
ممالک میں دھکیل دئیے جاتے رہے، اس پراردن کے شاہ حسین نے فلسطین اوراردن
کے وفاق کی تجویزپیش کی، جسے اسرائیل نے مسترد کردیا۔اس کے بعد سے جناب
یاسرعرفات کی پرجوش قیادت میں آزادیٔ فلسطین کے مجاہدین سرگرم عمل ہوگئے ،
بلیک ستمبر جیسی تنظیموں نے اسرائیلیوں کوبطوریرغمال استعمال کرکے اپنے
مطالبے منوانے کاآغاز کردیا، جبکہ دوسری طرف اسرائیلی حکومت کوامریکا سے
دھڑا دھڑ فوجی اورسیاسی امداد مل رہی ہے اوردنیا بھرسے لاکھوں یہودی
اسرائیل پہنچ رہے ہیں۔ ۱۹۷۰ء تک اسرائیل میں یہودیوں کی تعداد ۲۵لاکھ کے
قریب پہنچ چکی تھی جو ۱۹۷۵ء میں ۳۰لاکھ سے بھی تجاوز کرچکی تھی، جبکہ ۱۹۴۸ء
میں پورے فلسطین میں صرف ساڑھے چھ لاکھ یہودی تھے۔
۱۹۸۱ء میں اسرائیل نے اچانک عراق پرحملہ کرکے بغداد کاایٹمی پلانٹ تباہ
کردیا۔ ۱۹۸۲ء میں اسرائیل نے جنوبی لبنان اوربیروت پربرّی، فضائی اوربحری
حملے کر کے یاسر عرفات اوراُن کی ’’تنظیم آزادیٔ فلسطین ‘‘( الفتح)کوہجرت
کراکے الجزائر رخصت ہونے پرمجبور کردیا اورپھرلبنان کے صابر ہ وشاتیلا جیسے
مہاجر کیمپوں میں ہزاروں فلسطینیوں کا قتل عام کیا۔
بعدمیں یاسر عرفات نے فلسطین میں اندرونی خود مختار ریاست (اتھارٹی)قائم کی
تھی، جس کے صدر وہ خود رہے، ان کے بعد موجودہ صدر محمود عباس ہیں، عرفات کی
تنظیم آزادی فلسطین(الفتح) کی طرح حرکۃ المقاومۃ الاسلامیۃ (حماس) کو بھی
یہاں بڑی شہرت ملی ہے، جس کے بانی وسرپرست شیخ احمد یاسین اور ان کے نائب
ڈاکٹرعبدالعزیز رنتیسی کو ٹارگٹ بنا کر اسرائیلی میزائل حملوں میں شہید کیا
گیا، لیکن ۲۰۰۶ء کو ان کی تنظیم فلسطینی انتخابات میں جیت کر اسماعیل ھنیہ
کی سرکردگی میں برسر اقتدار بھی آئی ۔
اسرائیل کے تجارتی تعلقات زیادہ ترامریکا، جرمنی، اٹلی، برطانیہ، فرانس،
نیدرلینڈ، جاپان اور بلجیم کے ساتھ ہیں، درآمدات کی نسبت زیادہ ہیں، اس کی
وجہ یہ ہے کہ اسرائیل کو دنیابھرکے یہودیوں کی مالی واقتصادی مدد پہنچتی
رہتی ہے، معیشت کازیادہ تر دارو مدارماہی گیری ، زراعت ، معدنیات اورصنعت
پرہے، یہاں فی کس سالانہ آمدنی ۹۵۰ ڈالر ہے۔
اگرچہ اسرائیل اقوام متحدہ کارکن ہے، تاہم چندممالک کوچھوڑ کراکثر اسلامی
ممالک اوران کے حلیفوں نے اس کے ناجائز وجود کوتسلیم نہیں کیا، پاکستان بھی
ان مخالف ممالک میں شامل ہے اورعرب علاقوں پراسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے
خاتمے کے لیے شروع دن سے کوشاں ہے،گذشتہ سال جب اقوام متحدہ میں فلسطین
بطور ’’ملک‘‘ ممبر بننے جارہاتھا ،تو ہم نے پاکستان کے اقوام متحدہ میں
مستقل نمائندے جناب عبد اﷲ حسین ہارون سے ملاقات کرکے انہیں اپنے طورپر
تفصیلی بریف کیا،خالد مشعل کے نمائندے سے بات بھی کرائی، انہوں نے اسی وقت
whatsapp کے ذریعے اپنا میسج چلایا اور کہا ، فلسطین کی ممبرشپ بحیثیت ملک
یقینی ہے، اورہو بھی گیا،اب سویڈن اور برطانیہ نے بھی پچھلے دنوں منظوری دی
ہے،امید ہے یہ سلسلہ آگے ہی کی طرف بڑھے گا۔ |
|