عربی ۔۔ایک گلوبل زبان
(Shaikh Wali Khan AlMuzaffar, Karachi)
پچھلے دنوں روزنامہ ’’جہان
پاکستان ‘‘کے اسی ادارتی پیج پرایک فاضل کالم نگار نے اپنے تبصرے میں وزیر
اعظم نواز شریف کی نئی تعلیمی پالیسی کے حوالے سے کمیٹی بنانے کا عمدہ
تذکرہ کیاتھا،جہاں زبانوں کی فہرست میں صرف ایک انگلش ہی کی بات تھی،تسلیم
ہے،کیونکہ انگریزی ایک استعماری،ٹیکنیکل اور عالمی زبان ہے،لیکن اردو بطور
قومی اور عربی بطور مذہبی،تاریخی،علمی،پڑوسی وعالمی زبان کب ہماری ترجیحات
وتعلیمات کا حصہ بنیں گی؟کب طلبہ، عصری اداروں میں معلمین وپروفیسران
ِعربی،ائمہ وخطباء اوروزارتِ خارجہ کے افسران و سُفراء کے لئے منعقدہ
امتحانات میں لازمی واجباری ہوگی؟ حُجّاج و معتمرین نیز عرب دنیا میں کام
کرنے والے مسافر ومقیم اورسیز پاکستانیوں کی بہتری کے لئے ہماری حکومتوں نے
عربی شناسی کی کونسی خدمات متعارف کرائی ہیں؟عربی زبان وادب کے فروغ کے لئے
1973کے آئین کے مطابق ہم نے اب تک کیا اقدامات اٹھائے ہیں اور مستقبل میں
کیا منصوبہ بندی ہے؟حفاظتِ دینی ورثہ کے علاوہ ہماری مذہبی جماعتوں اور
دینی اداروں کے کیاکارہائے نمایاں ہیں؟ایک فلسطین کے سوا ہم نے عرب دنیا کا
کب اور کونسا ساتھ دیاہے،یاتأییدکی ہے؟ذوالفقارعلی بھٹو مرحوم ہو یا شریف
ومشرف ،ان کو تختۂ دار سے بچانے کے لئے بساط بھر عرب کاؤشیں سب پر عیاں
ہیں،لیکن معاف کیجئے گا، عرب اقوام ورہنماؤں پر اگر کبھی مشکل وقت
آیاتوہمارا کیاکردار رہا ؟ بانی ٔ آل انڈیا مسلم لیگ سر آغاخان نے مملکت ِ
خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لئے آخر عربی بطور قومی ودفتری زبان کی
تجاویز کیوں دی تھیں؟ ذرہ سوچئے۔
ہر کوئی جانتا ہے کہ آج بین الاقوامیت ، عالم گیریت اور گلوبلائزیشن کا دور
ہے ، پوری دنیا سمٹ کرایک چھوٹے سے گاؤں کی طرح کیابن چکی ہے 3gاور4gموبایل
ٹیکنالوجی کی بدولت ایک ہتھیلی پرآگئی ہے ، بین الاقوامی تیز تر ذرائع
مواصلات واتصالات اور الیکٹرانک وسائل ِابلاغ نے زبردست دھوم مچائی ہوئی ہے
، تہذیبیں اور ثقافتیں اس لئے بر سر پیکار ہیں کہ اختلاط وتلاطم کے اس
محشربپاطوفان میں ان کی زمانی ومکانی حدود وقیود ختم ہوگئیں ہیں ، زبانیں
بھی اس میدانِ کارزارمیں باہمی دست وگریباں ہیں، کیونکہ تہذیب وتمدن کا
ترجمان زبان ہوتی ہے ،تعلیم انسانی معاشرے کی وہ اساس و بنیاد ہے، جس کے
ذریعے بنی نوع ِبشری دیگر مخلوقات سے ممتاز و ممیز ہوتاہے ،اورتعلیم میں
بھی ریڑھ کی ہڈی زبان ہی ہے ،چنانچہ تعلیمی تمدن و ارتقا میں اصحاب تعلیم
کی زبانوں کا ارتقا مضمر ہوتاہے ،اسی لئے پڑھی لکھی اور مہذب وباشعور قومیں
اپنی اولاد کیلئے ان زبانوں کو ترجیح دیتی ہیں ،جو بقاوفنا کی اس جنگ میں
فانی نہیں باقی رہ سکتی ہیں ،انگریزی ،عربی ،چینی ، فرانسیسی ،پرتگیش اور
اسپینش وغیرہ عالمی سطح پر تہذیبوں کے تصادم والی اس نظریاتی جنگ میں مختلف
اطراف میں بڑے زور وشور سے کمانڈکررہی ہیں، اس وقت انگریزی
51،عربی26فرانسیسی24،اسپینش 21، روسی 12،پرتگیش11،چینی 4ملکوں کو فتح کرچکے
ہیں اور اگر اسلامی نقطۂ نگاہ سے دیکھاجائے تو پھر عربی کے اس وقت 58ممالک
ہیں ،یہ تو جغرافیائی ممالک کی بات ہوئی ،کچھ’’ ممالک ‘‘موجودہ دنیاکے عرف
ِعام میں ریاستیں نہیں ہیں ،لیکن وہ کسی بھی طرح بہت سے ملکوں سے زیادہ
اثرورسوخ رکھتے ہیں ،ان میں سے بعض عالمی ادارے، ملٹی نیشنل کمپنیاں اور
انٹر نیٹ کی دنیا کے عظیم ادارے مثلا گوگل ،فیس بک ، ٹویٹر ،یوٹیوب وغیرہ
زیادہ قابل ِذکرہیں ،فیس بک جیسے اداروں کو تو فرضی براعظم کابھی درجہ
دیاگیاہے ،لہذا مذکورہ جنگ یہاں بھی تھنک ٹینکزکی مددسے پوری قوت وشدت کے
ساتھ جاری وساری ہے، جغرافیائی لحاظ سے تو عالم اسلام تنزانیا سے قازاقستان
اور مراکش سے انڈونیشیا تک دنیا کے سینے اور سینٹر میں متمرکزہے ،تین اہم
اور بڑے بر اعظموں ،ایشیا ،یورپ اور افریقہ کا ملتقیٰ وسنگم بھی ہے ،بحر
احمر ،بحر عرب ،بحر ابیض ، بحراسود ، خلیجِ عرب اور صومالیہ کے پاس بحرہند
مرکزِاسلام( عالمِ عربی) کی دامن میں ہیں ،معدنی ،زرعی اور آبی ذخائر سے
بھی مالا مال ہے ،اس کے ساتھ ساتھ اسلام جس کی مذہبی زبان عربی ہے ، اپنے
پیامِ انسانیت وعالمینیت میں لچک کی وجہ سے چہاردانگِ عالم میں پھیل رہاہے،
لیکن فی الحال جدید دنیا کی ترقی میں دیگراں کے مقابلے میں مسلمان پیچھے
ہیں ، اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ اہل ِاسلام کو اگردنیوی ترقی بھی کرنی ہے
اورترقی یافتہ اقوام کے شانہ بشانہ چلناہے ، تو انہیں اپنے دیرینہ زعم
’’پدرم سلطان بود‘‘ سے نکلناہوگا ،شدیدمحنت کرنی ہوگی ، بے تیغ لڑنے کی
باتیں وہ مؤمن کیا کرتے تھے ،جو مضبوط ایمان رکھتے تھے ،اب لوگ کمزور ہوچکے
ہیں ،زمینی حقائق سمجھنے ہوں گے ،خیالات وافکار کے افلاک سے اترکر زمین پر
چل کر دنیا کے سامنے اپنا تمدنی ،تہذیبی ،تعلیمی اورثقافتی مقام منوانا
ہوگا، انسانیت کا عالم گیرپیغام لے کر آگے چلناہوگا، ہماری اس حسین دنیا کو
پرامن بقائے باہمی کی سخت ضرورت ہے ،اس میں امن وآشتی کا اپنا کردار ادا
کرنا ہوگا، اور یہ سب چیزیں صراحت اور وضاحت کے ساتھ قرآن وحدیث کی فصیح و
بلیغ عربی تعلیمات میں جتنی زیادہ اور مؤثر اندازمیں ہیں اتنی اور کہیں
نہیں ، ہم دنیا کے مشرق ومغرب اور شمال وجنوب میں گھوم چکے ہیں ،مڈل ایسٹ
کے ممالک ہم دیکھ چکے ہیں ،تقریباً30سال میڈیا سے وابستہ رہ چکے ہیں،پچھلے
تین چارعشروں سے ہم اس نکتے پر غور کررہے ہیں کہ پہلے ہم مسلمان اپنے آ پ
کوصحیح معنوں میں’’ انسان دا پُتّر ‘‘توثابت کریں ، بعدمیں اسلام کی بات
بھی ہوجائیگی ،بڑے افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ ہمارے علماء تک اسلام کے آفاقی
پیغام سے نابلد ہیں کیونکہ وہ عربی زبان وادب نہیں جانتے ،کسی نے کیاخوب
کہا ہے:عام مسلماں ہویا عالم دین بغیر عربی زبان کے اس گاڑی کی طرح ہیں، جس
کا دیگرڈھانچہ تومکمل موجودہے، لیکن انجن اور گیئربکس غائب ہیں ،تو
بھلابتائیے گا،اب یہ گاڑی کیسے چلے گی ؟
نمازبُرائی سے روکتی ہے ، لیکن نماز میں قرآن پڑھاجاتاہے ، عربوں کالب و
لہجہ تو درکناراس کی عام عربی زبان تو 99فیصد قراء ،95فیصد علماء اور مفتی
تقی عثمانی وغیرہ کے علاوہ کسی مفتی کو نہیں آتی ، مفتی جمیل خان شہید ویسے
کہنے کوتھے توپٹھان ،مگر پشتوندارد،جب خان کے لاحقے کی وجہ سے ان سے کوئی
پوچھتا ، حضرت آپ کو پشتو آتی ہے،تو وہ مزاحیہ انداز میں کہا کرتے ،مولویوں
کو جتنی عربی آتی ہے بس اُتنی ہی مجھے پشتو آتی ہے ۔المیہ تو یہ ہے کہ یہ
حضرات اپنے بچوں اور شاگردوں کو بھی عربی زبان نہیں سکھاتے ،بلکہ کھاتے
پیتے مولوی تو اپنی اولادکو انگلش میڈیم سکولوں میں ایڈمیٹ کرتے ہیں ، ایسے
ہی ایک علامہ کی ہمارے سامنے ایک عرب وزیر سے ملاقات تھی ،شیخ القرآن، شیخ
الحدیث اور علامہ جیسے القاب رکھنے والے مولانا ’’فرعون شاہ‘‘ صاحب گونگے
بہروں کی طرح اشارات کی زبان استعمال کرنے لگے ،ہم نے ان سے پوچھا ،حضرت جی
کوعربی نہیں آتی ؟ اپنے خاص مشیخانہ لہجے میں چباچباکرقلقلے کے ساتھ کہنے
لگے ، ارّے مفتی صاحب عربی ہماری مادری زبان تھوڑی ہے ۔توہم نے کہا،اردو آپ
کی کون سی مادری زبان ہے ، وہ آپ کو کیوں آتی ہے ،ان کے بیٹے نے جوابًاآدھی
اردو اور آدھی انگلش میں کچھ بولناچاہا، توہم نے کہا ، بیٹا جی عربی تو
تمہاری مادری زبان نہیں ہے ،کیا انگریزی تمہاری فادری زبان ہے ؟ آگے سے چپ
۔
حالانکہ ہم خود اپنے بچوں کو حفظ اور اربک کے ساتھ ساتھ بہت اعلی قسم کی
انگریزی بھی سکھارہے ہیں ،عالمی زبانیں سیکھنے کی پُرزور تأیید کرتے ہیں،
اپنے متعددتلامذہ اور متعلقین کو مختلف عالمی زبانوں میں ماہر بننے کے
اہداف بھی دے رکھے ہیں ،ہم تو اکثر وہ لطیفہ سناتے ہیں کہ پٹھان نے کسی
ہندوسے کہا کلمہ پڑھ ،اس نے کہا پڑھادو، پٹھان نے کہا ارے ہمیں تو خود نہیں
آتا، اور اس کا انطباق ہم یوں کرتے ہیں کہ اہل اسلام ہندوستاں پر سینکڑوں
برس حکمرانی بھی کرچکے ، اس کے بعدان سے جنگیں بھی لڑچکے ہیں ،متحدہ
ہندوستان سے کنارہ کشی کرتے ہوئے دوقومی نظریہ بھی اپنالیاہے کہ مسلمان
وہندو الگ الگ قومیں ہیں ،لیکن اب عالمگیریت سے کدھر بھاگیں گے؟ارے ہم نے
کبھی قرآن وحدیث کے تراجم وتشریحات اور تعلیمات ان کی زبان میں لکھ کردی
ہیں ،انگریزوں نے مختصر سی مدت میں انہیں انگلش سکھادی ہے، تاج محل جیسی
فضولیات پر بے تحاشا قومی اموال خرچ کرنے والے نام کے عالمگیر وجہانگیر
مسلم شہنشاہوں نے یہاں فارسی،ترکی ،اردو کے بجائے صحیح عربی اسلام کے لئے
کچھ کیا ہے؟ارے یہ تو چھوڑئیے،کیا ہند کے علماء میں ہندی زبان وادب کا کوئی
مسلمان نامور عالم،سکالریا دانش ور ہے؟اگر ہے تو ان کے اس زبان میں کارنامے
کیا اور کہاں ہے ،جوکہ مذہبی دعوت وتبلیغ اور قومی ڈائیلاگ میں ان کی گفتگو
’’از دل خیزد بردل ریزد‘‘کی طرح ہو،اوردلوں پر اثرانداز ہوکر’’ پر نہیں
طاقتِ پروازمگر رکھتی ہو‘‘؟
بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
جو ضربِ کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا؟
روس، چین اورہندوستان میں کروڑوں مسلمانوں کے باوجود ان کی زبانوں میں
اسلامی ورثہ اور لیٹریچر ناپیدہیں ،وہی ہوئی نابات ،وہ کہتے ہیں چلیں آپ
ہمیں کلمہ پڑھاہی دیں اور زبان نہ جان کر گویا انہیں ہم یہ کہہ رہے ہیں
،ارے ہم کوخود نہیں آتا۔یہی معاملہ ہمارے پڑوسی دوستوں اہلِ چین کے ساتھ
ہمارا ہے، یارِ من چینی ومن چینی نمی دانم۔
بہرحال قرآن وحدیث کے نصوص کے علاوہ امام شافعی ،ابن تیمیہ شاہ ولی اﷲ
دھلوی اور علامہ بنوری جیسے بڑے علمائے دین اہلِ اسلام کیلئے عربی کو ضروری
اور علماء اورمسلم اہل دانش کیلئے فرض قرار دیتے ہیں ، جبکہ ادھر حقیقت یہ
ہے کہ عربی کی ترویج واشاعت میں سب سے بڑی رکاوٹ عصر حاضر کے ان پڑھ علامے
شلامے ہیں ،پچھلے دنوں میرٹ ہوٹل اسلام آباد میں ایک بین الاقوامی کانفرنس
تھی،عربی اور انگریزی میں مقالے پیش کرنے تھے ،سب نے کانفرنس کی انتظامیہ
کا یہ حکم بجا لایا،مگربڑا دکھ ہوتا،جب کوئی مولو ی آتا اور غلط سلط عربی
بولتا،اور ان ہی میں کے ایک بہت بڑے مدارس نیٹ ورک کے منتظم تو شرماتے
شرماتے اردو ہی میں شروع ہوگئے ،گویاخودبھی نہیں سیکھتے اور مدارس میں
موجود لاکھوں طلبہ وطالبات کو بھی محروم رکھا ہوا ہے،،معلوم ہوتاہے،یہ
لوگ’’ کھیلیں گے نہ کھیلنے دینگے ‘‘پر عمل پیراہیں ،الا ماشاء اﷲ۔علامہ
اقبال مرحوم نے ایسے ہی حضرات کے متعلق کیا خوب فرمایاتھا:
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشناکردے =کہ تیرے بحرکے موجوں میں اضطراب نہیں
ترقی کے اس دور میں پوری دنیا تیزی سے عالمی زبانوں کی طرف آرہی ہے،اتفاق
سے ان عالمی لیول کی بولیوں میں عربی وہ واحد زبان ہے جو مادیات کے علاوہ
روحانیات کا بہت بڑا اصلی اور خالص مواد لئے ایک سربفلک مینارۂ نور کی
مانند اپنے آب وتاب کے ساتھ قائم ودائم ہے، العربیہ نٹ کی 25مئی 2012کی ایک
مفصل رپورٹ کے مطابق امریکی سکولوں میں عربی وچینی زبانیں پڑھائی جانی لگی
ہیں ،العربیہ کے مطابق عربی کی طرف رجحان چینی سے بہت زیادہ ہے ،ہیملٹن
ہائٹس سکول نیویارک نے اس حوالے سے خاصی شہرت بھی حاصل کرلی ہے ۔روس ،چین
،امریکا،برطانیہ اور فرانس جیسے بڑے ممالک نے عربی کے ٹی وی چینل کھول دئیے
ہیں،اس وقت عربی کے چینلوں کی تعداد سینکڑوں سے متجاوز ہوکر ہزاریوں میں
محوِ سفر ہے،کیا اچھا ہوتا ہماری حکومت یامیڈیانیٹ ورک کے مالکان ایک ایک
اخبار اورچینل عربی کا بھی چلاتے،کیااس کے لئے بھی محترم ملک ریاض صاحب ہی
کو آنا ہوگا،اس وقت ’’الماجد‘‘ بچوں کامیگزین ،اربک کارٹون
چینلز’’البراعم‘‘ اور ’’ج‘‘ بچوں کے پسندیدہ چینل بن چکے ہیں، کچھ لوگ اسی
کے ذریعے خود اور اپنے بچوں کو عربی زبان سے بڑی آسانی کے ساتھ روشناس
کرارہے ہیں۔
ہم تودلیل اور منطق کی بات کرتے ہیں ،زمینی حقائق کی بات کرتے ہیں ،کرامات
ومعجزات کے منکر نہیں، لیکن انبیا ؑکے بعد سوائے قرآن کے کون ہے جواس زمانے
میں معجزے دکھاسکیں،اصحاب کرامات بھی کہاں ؟ ا س لئے عالمی حالات اور زمانے
کی برق رفتاری کو محسوس کرتے ہوئے ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ
پاکستان میں سکول کالج کے تھکے ہوئے بے مایہ عربی معلمین کو مستثنیٰ کرکے
عربی زبان دنیا کے ہر ملک ، ہریونیورسٹی اورناظرۂ قرآن ،نماز،ذکرواذکار کی
صورت میں ہر مسلمان کے دل ودماغ میں ہے ، اسی کو بنیاد بناکر اقوام متحدہ
نے ’’18دسمبرانٹرنیشنل اربک ڈے‘‘ کی قرار داد پاس کی ، وی کی پیڈیا کے
مطابق عربی کم از کم پونے دوارب انسانیت کی زبان ہے ۔اوریہ قرآن کریم ہی کا
تو معجزہ ہے ،کہ مشرق ومغرب میں پڑھے لکھے باشعورلوگ اس کے معانی ومطالب
اور فصاحت وبلاغت سے متأثر ہوکرجوق درجوق حلقہ بگوشِ اسلام ہو رہے ہیں،قاری
عبد الباسط مرحوم ومغفوراور امام ِ حرم شیخ عبدالرحمن السدیس جیسے دیگر
باصلاحیت وباکمال قراء وشیوخ کی نہایت شیرین و مترنم قراء توں وتلاوتوں سے
مسلمان ہونے والوں کی تعدادمیں روزبروزاضافہ ہورہاہے، اور ہمارے یہاں لوگ
صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں،بے دینی اوربے راہ روی کا دور و دورہ ہے،
پاکستانی بڑی ذہین قوم ہے ، یہ ارتقائی دوڑکے مقابلوں میں دوڑ سکتی ہے ،اگر
اس قوم کی نئی نسل عربی داں بن گئی ،تو دیگر اقتصادی مفادات کے علاوہ اﷲ
ورسول ﷺکی مبارک تعلیمات سے بخوبی استفادہ کرکے وہ الحاد،زندقہ، لسانیت اور
فرقہ واریت جیسے ناسوروں سے از خود چھٹکارا پاسکتی ہے ، اضطراب وبے چینی کے
اس عالم میں روحانیت کے اعلیٰ وارفع مقامات تک پہنچ سکتی ہے ، قرآنی
دعاؤں،وظائف اور اذکار سے بذات ِخودبھی مستفید ہوسکتی ہے، قرآن کریم کی
عربی لے کی چاشنیوں سے ان کے دل ودماغ محظوظ ومعمور ہو سکتے ہیں،بے
بسی،یافراغت اور بڑھاپے میں وہ اپنے رب سے بعینہ اسی کے کلام یااس کے اور
ہم سب کے حبیب ﷺکے پیارے پیارے ارشادات کے ذریعے بڑی آسانی سے ہمکلام اور
اپنے پیارے پیغمبر ﷺسے ہمدم اورہم قدم ہو سکتی ہے، اندازہ لگائیے عربی سے
بے بہرہ ہوکر ہم بحیثیت قوم کتنے بڑے بیش بہا خزائن سے محروم ہیں، کاش
ہمارے یہاں عصری اداروں میں انگریزی کے ساتھ ساتھ عربی اور مدارس میں عربی
کے ساتھ ساتھ انگریزی کی تعلیم لازمی قرار پاتی ۔
بتوں سے تجھ کو امیدیں،خدا نومیدی
مجھے بتا تو سہی،اور کافری کیاہے؟ |
|