جاہلیت بھی ایک سبق
(Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
جاہل عربی کالفظ ہے، ان پڑھ کی
معنی میں اس کا استعمال ہوتا ہے،اسی سے جاہلیت ایک مصدر ہے ،عام محاورے میں
جہالت یا جہل کے معنی بے جا ضد یا آئین وسلامتی کے متضاد ( مثلاً،ہٹ دھرمی
اوردہشت گردی) مراد لیے جاتے ہیں، اسی لیے ان کے مقابلے میں آنے والے نئے
مذہب کا نام اسلام اور اس کے عقیدے کو ایمان سے تعبیر کیا گیا ہے ،اس سے
مسلم اور مؤمن کا بھی پتہ چل گیا۔اصطلاح میں اس سے مراد زمانہ قبل اسلام کے
عربوں کی حالت ، دعوت اسلام سے پہلے اور بالخصوص قبل از ہجرت نبویﷺ کا
زمانہ مراد ہے، کیونکہ اس زمانے میں مشرکین ِعرب کا جہالت پر مبنی اجتماعی
اور سیاسی قانون جاری و ساری تھا، جو کسی وحی الٰہی کے تابع نہ تھا۔ قرآن
مجید میں یہ لفظ چار مختلف جگہوں پر استعمال ہوا ہے۔
(۱)’’اور ایک دوسرا گروہ جس کے لیے ساری اہمیت بس اپنے مفاد ہی کی تھی، اﷲ
کے متعلق طرح طرح کے جاہلانہ گمان کرنے لگا، جو سراسر خلاف حقیقت تھے۔‘‘ ۔(سورۂ
آل عمران،آیت:154)۔
(۲)’’تو کیا پھر یہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں ؟ حالانکہ جو لوگ اﷲ پر یقین
رکھتے ہیں ،ان کے نزدیک اﷲ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں ہے۔‘‘ (سورۂ
مائدہ آیت:50)۔
(۳)’’اور(اے خواتینِ اسلام) اپنے گھروں میں ٹک کر رہو، اور سابق دور جاہلیت
کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔‘‘ (سورۂ أحزاب،آیت:33)۔
(۴)’’جب ان کافروں نے اپنے دلوں میں جاہلانہ حمیت بٹھالی، تو اﷲ تعالیٰ نے
اپنے رسول ﷺاورمومنوں پر سکینت نازل فرمائی۔‘‘ (سورۂ فتح،آیت:26)۔
مفسرین ،مؤرخین اور محققین میں سے بعض کے نزدیک دورجاہلیت اس زمانے کا نام
ہے ،جو آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے تھا ، بعض کے نزدیک ہجرت
نبویﷺ تک کا زمانہ ہے،بعض نے آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے ڈیڑھ سو سال پہلے
تک کے زمانے کو عہد جاہلیت قرار دیا ہے۔
بہرحال جاہلیت کا لفظ اسلام کے مقابلے میں استعمال کیا جاتا ہے ، معلوم ہوا
کہ اسلام کی بنیاد سراسر علم وآگہی پرہے، اسی لئے اس کا پہلا الہامی کلام
’’اقرأ‘‘اور’’ علّم بالقلم‘‘ سے شروع ہوا،اور اسی لئے اسلام نے اپنی ایک
ایسی البیلی اور عجوبہ ئے روزگار کتاب (القرآن)انسانیت کے سامنے پیش کی ،کہ
تاقیامت اس کی نظیر لانا محال ہے،تمام انسانوں کوچیلنج بھی اسی لئے دیا ،کہ
وہ علمی ،ادبی اور معرفت کے میدانوں میں مسابقے ومقابلے میں لگے رہیں، گویا
اسلام میں تعلیم اور پڑھت لکھت کی طرف خدا نے خودرہنمائی کی ہے ،جو تمام
حقائق کا علم رکھتا ہے، لہذا اسلامی تعلیمات کو اپناناصحیح طورپرتعلیم
یافتہ اورمہذب ومثقف ہونے کی علامت ہے، اس کے برعکس ہر وہ طریقہ جو اسلام
سے مختلف ہے،وہ ہٹ دھرمی ،غیر مستند ہونے اورجاہلیت کا طریقہ ہے۔نیز
’’الاشیاء تُعرف باضدادہا‘‘یعنی چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں،جیسے دن
رات ،مشرق مغرب ،ظلم ترحم،روشنی تاریکی، سے یہ بھی مستنبط ہوا کہ جب جاہل
کامطلب بے علم ہے،تو اس کی ضد’’مسلم‘‘ کا مطلب ہے علم والا ، بایں وجہ
مسلمانوں کے لئے حصولِ تعلیم کو فرض قرار دیا گیا ہے ،مولانا فضل الرحمن،
بے نظیر بھٹو شہید اور عمران خان میں قدرے مشترک اعلیٰ علمی قابلیت ہے، تو
ان کے اپنے اپنے لوگ ان پر فریفتہ اور ان کے دیوانے اور جیالے ہیں،زرداری
نوازشریف اور شیخ رشید جیسوں میں یہی تو کمی ہے،چنانچہ جاہل رہنے اور
جاہلیت کی گویا اسلام میں کتنی گنجائش ہے ؟اس کا اندازہ اس سے آپ خود ہی
لگائیں۔
جاہلیت کو ایک سبق سمجھ کر یادرکھا جائے، تو اسلام خود بخود سمجھ میں آجائے
گا،آج امہ جو مار کھارہی ہے،اس کی سب سے بڑی وجہ مسلمانوں میں جاہلیت کا
فروغ اور علم نا پید ہے،اغیار جو ہم سے آگے ہیں انہوں نے اسلامی تعلیمات
اور اخلاقیات کواپنایا،ان کاباطن مسلمان ہے، ہمار ا ظاہر مسلمان ، باطن
بغاوت و نفاق پر اتر آیا ہے،اﷲ معاف کرے ،بعض تو ہر دو طرح الحاد وزندقہ کے
شکنجے میں ہیں،توہم اپنے دوغلا پن کی وجہ سے دنیا بھر میں ذلیل وخوار ہورہے
ہیں۔
وہ معززتھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر
باپ کا علم نہ بیٹے کو اگرازبر ہو
پھرپسرقابلِ میراثِ پدرکیونکرہو |
|