وقت کی قدر شناسی، کامیابی کا راز
(Professor Masood Akhter Hazarvi, luton)
کائنات کے نظام کا بغور جائزہ
لینے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ نظام ہستی کاذرہ ذرہ اِس کرہ ارضی کے
باسیوں کو پابندیِ وقت کی تلقین کر رہا ہے۔ سورج کے طلوع و غروب کے اوقات
مقرر ہیں اور ہر روز ان ہی متعین اوقات پریہ طلوع و غروب ہوتا ہے۔ سورج کے
ہر روز کے طلوع و غروب میں کوئی فرق نہیں آتا۔ آج جس وقت سورج طلوع ہوا
ٹھیک اُسی وقت اگلے سالوں میں آج کے دن طلوع ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ نمازوں
کیلئے نظام الاوقات کے نقشہ جات ہم دائمی بنا لیتے ہیں۔ اسی طرح چاند بھی
محو گردش ہو نے کیلئے اپنے متعین اوقات کا پابند ہے۔ فلکیات کی سائنسی
تحقیقات بتاتی ہیں کہ دیگر اجرام فلکی کا نظام بھی اپنے مدار کے گرد اسی طر
ح جاری ہے اور اگر ایک لمحہ بھی اس میں فرق آجائے تو کئی سیارے آپس میں
ٹکرا کا تباہی پھیلا دیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وقت ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ وہی افراد اور اقوام
کامیابی سے ہم کنار ہوتے ہیں جو اس کی قدر کرتے ہیں۔ وقت پانی کی ندی نالوں
کی طرح بہ کر گزرتا جا رہا ہے۔اور اس سیل رواں کے آگے کوئی بند نہیں باندھ
سکتا۔ گھڑی کی ایجاد سے وقت کا پیمانہ اور بھی آسان ہو گیا۔ زمانے صدیوں
میں۔ صدیاں سالوں میں۔ سال مہینوں میں۔ مہینے دنوں میں۔ دن گھنٹوں میں اور
گھنٹے سیکنڈوں میں گزرے جارہے ہیں۔
یہ وقت وقت کی بات ہے
ابھی وقت ہمارے ساتھ ہے
زندگی تو سب ہی گزارتے ہیں لیکن اِن خداد داد لمحات کا شکر تب ہی ادا ہوتا
ہے کہ انہیں دین و دنیا کے لحاظ سے کامیابی کے ساتھ گزارا جائے۔ زندگی کو
کامیابی کے ساتھ بسر کرنے میں وقت کی اہمیت کا احساس از حد ضروری ہے۔باقی
نعمتیں کسی کو زیادہ ملتی ہیں اور کسی کو کم لیکن یہ ایک ایسی عجیب نعمت ہے
کہ ہر ایک کی مقررہ زندگی میں ہر روزبرابر میسر آتی ہے۔ دنیا کی زندگی میں
کچھ نعمتوں سے محرومی کے بعد امید کی جاسکتی ہے کہ دوبارہ میسر آجائیں۔
لیکن وقت ایک ایسی نعمت ہے جو گزر جانے کے بعد واپس نہیں آتا۔ شاید اسی لئے
کسی نے کہا تھا۔
مہرباں ہو کر بلا لو مجھے چاہو جس وقت
میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آبھی نہ سکوں
اسلام ہمیں ایسا نظام زندگی عطا کرتا ہے جس میں وقت کی قدر شناسی کی بہت
اہمیت ہے۔ بلکہ ہمارا پورا نظام عبادات ہر روز ہمیں وقت کی پابندی کی مشق
کراتاہے۔ نماز، روزہ، زکوۃ اور حج جیسی عبادات مخصوص اوقات کی پابندی کی
حامل ہیں۔ سحری کا وقت ختم ہونے کے ایک منٹ بعد کھا پی لیا تو روزہ نہ رہا۔
غروب آفتاب سے ایک منٹ پہلے کھا پی لیا پھر بھی روزہ ٹوٹ گیا۔ دوران حج ایک
لمحہ کیلئے بھی اوقاتِ مخصوصہ میں حج کا رکن اعظم ”وقوف عرفہ“ ادا نہ کیا
تو حج ادا نہ ہوا اور ساری محنت ضائع ہو گئی۔ بخاری شریف کی ایک حدیث میں
عبداللہ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ”دو چیزیں ایسی
ہیں کہ اکثر لوگ ضائع کر دیتے ہیں۔ ایک صحت اور دوسرافارغ وقت“۔ ہمارے
اسلاف نے وقت کی قدر کی اور مختصر سی زندگی میں اتنا کام کیا کہ عقل دھنگ
رہ جاتی ہے۔ اگر ان کی کتب کے صفحات کو انکی زندگی کے ایام پر تقسیم کیا
جائے تو ششدر رہے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔ علامہ ابن جوزی ؒ کی میت کو غسل
ان کی قلم کے تراشوں کے بورے سے گرم کیے ہوئے پانی سے دیا گیا۔
ہمارا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ ہماری موت کا وقت مقرر ہے۔ کیا معلوم ”کس گلی
میں زندگی کی شام ہو جائے“ لہذا وقت کی قدر کو پہچان کر اس سے دین و دنیا
کے فوائد حاصل کرنا ہمارے لیے بحیثیت مسلمان اور بھی بہت ضروری ہے۔ اگر وقت
کو مثبت انداز میں استعمال کر کے ہم نے اس کی قدر و قیمت کا احساس نہ کیا۔
غفلت اور سستی کے ساتھ لغویات اور فضولیات میں مصروف عمل رہے تو دنیا میں
بھی کچھ حاصل نہ ہو گا اور آخرت میں بھی رسوائی ہوگی۔ قرآن پاک کی سورہ
فاطر کی آیت نمبر 37 میں ارشاد ربانی ہے ”کیا ہم نے تمہیں اتنی عمرسے نہ
نوازا تھا کہ اس میں جو سوچنا چاہتے سوچ لیتے۔ تمہارے پاس ڈر سنانے والا
بھی آیا تھا۔ تو اب (اس عذاب کے) مزے چکھو۔ ظالموں کا کوئی مددگار نہیں“
یہ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم وقت کے استعمال کے بارے میں غفلت شعاری کا
رویہ ختم کریں۔ آج افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسلمان اس سرمایہ کی قدر
سے بے بہرہ ہیں۔ حالانکہ اسلام کا نظامِ اخلاقیات ہمیں پابندی وقت کے حوالے
سے وعدہ پورا کرنے کی تلقین کرتا ہے اور معاہدے کی پاسداری کرنا سکھاتا
ہے۔ہماری مجالس اور میٹنگز میں وقت کی پابندی کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔
ہم نے تو سنا تھا کہ وقت کی پابندی بڑے لوگوں کا شعار ہوتا ہے لیکن بد
قسمتی سے ہم میں سے جو مذہبی، سماجی یا سیاسی لحاظ سے”بڑے“ہیں وہ اتنے ہی
وقت کے نا قدر شناس ہیں۔ مختلف ترقی یافتہ اقوام کی ترقی کا راز بھی وقت کی
قدر شناسی میں مضمر ہے۔ آج تعلیم و تربیت میں Time Management پر بہت زور
دیا جا تا ہے۔ اسے ہم اوقات کار کی صحیح تقسیم کہ سکتے ہیں۔ اور اسی کو
کامیابی کا گر سمجھا جاتا ہے۔ دنیا میں جن قوموں نے ترقی کی انہوں نے اپنے
رویے بدلے۔ اپنے تعلیمی اداروں میں اپنی نسل نو کی ایسی تربیت کی کہ وہ وقت
کی قدر کو پہچان سکیں۔اسلام تو نوشتہ دیوار سے بھی حکمت و دانش کی باتیں
اخذ کرنے کی ہمیں اجازت دیتا ہے لیکن بصد افسوس پڑتا ہے کہ ہم وہاں پر اور
برطانیہ و یورپ میں رہتے ہوئے بھی وقت کی پابندی نہ سیکھ سکے۔ جبکہ یہاں اس
کی بہت اہمیت ہے۔ ٹرین، بس ہوائی جہاز سے لیکر دفتروں کے اوقات کار کی سختی
کے ساتھ پابندی کی جاتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں وقت کا ضیاع ایک معمول ہے جس پر
ہمیں احساس زیاں تک بھی نہیں ہوتا۔ وعدہ کر لینے کے باوجود ہم وقت کی
پابندی نہیں کرتے۔ سیاسی جلسوں سے لے کر مذھبی تہواروں تک یہی کیفیت ہے۔بعض
اوقات جمعۃ المبارک، عیدین اور جنازوں میں بھی وقت کی پابندی نہیں ہوتی جو
ایک طرف وعدہ خلافی اور دوسری طرف لوگوں کیلئے کوفت اور پریشانی کا سبب
بنتے ہیں۔ وقت کی ناقدری کی ایک بڑی وجہ طبیعت کی سستی اور لا پرواہی
ہے۔علاوہ ازیں آج کا کام کل پر ڈالنے کی عادت بھی وقت کی ناقدر شناسی کا
باعث ہوتی ہے۔ اس عادت کو انگریزی میں Procrastination کہا جاتا ہے۔ حقیقت
میں لوگ وقت کو ضائع نہیں کرتے بلکہ یہ عادت ان کی زندگی ضائع کردیتی ہے۔
وقت کی قدر کرو، وقت بیش بہا دولت ہے، گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں، جو وقت
کی قدر نہیں جانتا وہ بہت گھاٹے میں ہے۔ یہ اور اس طرح کے بے شمار اقوال
دنیاکی ہر زبان میں موجود ہیں۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ان اقوال کو
عملی جامہ پہنا کر وقت کو صحیح استعمال کر کے اپنی کامیابی اور ملک و ملت
کی بقاء کے لئے فعال کردار ادا کریں۔ |
|