مایا نگری
(M.Ibrahim Khan, Karachi)
جانوروں اور بالخصوص گدھوں،
گھوڑوں کا بے لگام ہونا تو سُنتے آئے تھے مگر کسی شہر کے بے لگام ہونے کے
بارے میں سُنا نہیں تھا۔ اب دیکھ لیا ہے کہ جب کوئی شہر بے لگام ہوتا ہے تو
کون سی شکل اختیار کرتا ہے۔ کراچی کو شہرِ قائد یعنی قائدِ اعظم کا شہر کہا
جاتا ہے مگر حال یہ ہے کہ اب اِس کا قیادت سے دُور کا بھی تعلق نہیں۔ کسی
چلتی گاڑی سے اگر ڈرائیور کود جائے تو؟ بس کچھ ایسی ہی کیفیت سے کراچی آج
کل ’’ہمکنار‘‘ ہے۔
زمانہ آٹومیشن کا ہے۔ فطری علوم پر مبنی فنون کے ماہرین نے بھرپور کوشش کی
ہے کہ زندگی آسان سے آسان تر ہوجائے، کسی کو بہتر اور باسہولت زندگی بسر
کرنے کے لیے زیادہ محنت نہ کرنی پڑے۔ کم سے کم محنت میں زیادہ سے زیادہ کام
ممکن بنانا ماہرین کا ایسا خواب ہے جسے شرمندۂ تعبیر کرتے رہنے کے لیے وہ
بے تاب رہتے ہیں۔ وقت انسان کا سب سے بڑا اثاثہ ہے۔ اِس اثاثے کو ضیاع سے
بچانے پر محنت ہو رہی ہے۔ مغربی دنیا اِس معاملے میں غیر معمولی بلکہ حیرت
انگیز اور ناقابل یقین حد تک حسّاس ہے۔ مغرب کے ماہرین چاہتے ہیں کہ زندگی
کے کاروبار میں اِنسان کی محنت برائے نام رہ جائے یعنی بیشتر کام خود بخود
ہوتے رہیں۔
اب تک تو آپ نے مشینیں دیکھی ہیں جو آٹومیشن کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرتی
ہیں۔ اگر کسی شہر کو آٹومیشن کے اُصول کی بنیاد پر کام کرتے ہوئے دیکھنا ہے
تو کراچی پر نظر دوڑائیے۔ یاروں کی مہربانی ہے، عنایت ہے کہ کراچی میں
تقریباً سبھی کچھ خود بخود ہو رہا ہے۔ ویسے تو خیر پورا ملک ہی اب آٹومیشن
کی راہ پر گامزن ہے مگر کراچی کا طمطراق حواس و عقل کو حیران و پریشان کیے
دیتا ہے۔
چند برس پہلے کراچی میں سگنل فری کوریڈور بنائے گئے تھے تب ہمیں حیرت ہوئی
تھی کہ کراچی جیسے شہر میں کہ جہاں ٹریفک انتہائی بے ہنگم ہے، گاڑیوں کی
آمد و رفت کسی رکاوٹ یا تعطل کے بغیر کیسے برقرار رکھی جاسکے گی۔ سگنل فری
کوریڈورز قائم کئے گئے اور اب تک کامیاب ہیں۔ اِس کامیاب تجربے نے شہر کے
ذمہ داران کو حوصلہ بخشا اور اُنہوں نے پورے شہر ہی کو سگنل فری کوریڈور
میں تبدیل کردیا!
شہر یُوں سگنل فری ہوا ہے کہ اب کہیں سے کسی سگنل کے موصول ہونے کی فکر ہے
نہ حاجت۔ جو اِس شہر کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں وہ چاہتے ہیں کہ سب کچھ
اِسی طرح اپنے طور پر چلتا رہے۔ سگنل فری کوریڈور سے ہٹ کر جو چوراہے ہیں
ان پر بھی اب سگنل کی ضرورت نہیں رہی۔ ٹریفک پولیس کا کوئی اہلکار دکھائی
نہیں دیتا۔ ایسے میں لوگ اپنے طور پر گاڑیاں چلاتے ہیں اور اندازے کے
بُنیاد پر اِدھر سے اُدھر ہوتے رہتے ہیں۔ یہی حال اب شہر کے نام نہاد نظم و
نسق کا ہے۔
مگر ایسا ہمیشہ سے تو نہیں تھا۔ ایک زمانہ تھا جب کراچی کا کچھ حساب کتاب
تھا۔ نظم و ضبط تھا۔ انگریزوں نے اِس شہر کو خاصے سُکون سے ترقی دی تھی۔
منصوبے بھرپور توجہ سے تیار کئے گئے تھے اور اُن پر عمل کے معاملے میں بھی
یک سُوئی اب تک محسوس کی جاسکتی ہے۔ آبادی کو بہت عمدگی سے کھپایا جاتا تھا۔
ہر معاملہ نپا تُلا تھا۔ کسی بھی معاملے کو ایک خاص حد سے بڑھنے نہیں دیا
جاتا تھا۔ مگر خیر، اب تو یہ سب خواب و خیال کی باتیں ہیں۔ ع
وہ بادۂ شبانہ کی سَرمستیاں کہاں
اُٹھیے بس اب کہ لذّتِ خوابِ سَحر گئی
جب نظم و ضبط، منصوبہ بندی اور حُسنِ انتظام کو خیرباد کہہ دیا تو کسی بھی
بات پر حیرت کیوں اور کسی بھی چیز کا ملال کیسا؟ کراچی کی روز افزوں آبادی
اِسے بے لگام کرنے والا سب سے بڑا فیکٹر ہے۔ کسی بھی سطح پر اور کسی بھی
طرح کی منصوبہ بندی کیجیے، چند ہی برس میں ہر منصوبے کے ٹائر سے ساری ہوا
نکل جاتی ہے! کچھ بھی کر دیکھیے، تبدیلی محض چند روزہ ثابت ہوتی ہے۔ دیکھتے
ہی دیکھتے پرنالہ پھر وہیں بہنے لگتا ہے۔
یہ کوئی دو چار برس کی بات نہیں۔ ایک زمانے سے شہرِ قائد کسی بھی طرح کی
قیادت سے ہم کنار و ہم آغوش ہوئے بغیر جی رہا ہے۔ پہلے جو روش معمولی سی
لاپروائی اور غفلت شعاری پر مبنی تھی وہ اب مکمل اور ہمہ گیر سَفّاکی میں
تبدیل ہوچکی ہے۔ نہ جانے کِس کی بد دُعا کا اثر ہے کہ شہر میں آنکھ کھولنے
اور یہاں عمر کی نصف درجن دہائیاں مکمل کرنے والے بھی اِس طرح رہتے ہیں
جیسے کہیں سے آئے ہوں اور چند روزہ قیام کے بعد کہیں اور جانا ہو! اِس شہر
نے جن کی جھولیاں اور تجوریاں بھردی ہیں وہ بھی اِس بہبود پر اپنی خوشی سے
دھیلا خرچ کرنے کو تیار نہیں!
ہوتے ہوتے شہر تو بڑا ہوگیا ہے مگر یہاں پیدا ہونے یا کہیں سے خوشی خوشی
اِسے اپنا مستقل مستقر بنانے والے اب تک بڑے نہیں ہو پائے۔ اُن میں بڑپّن
اب تک جنم نہیں لے سکا۔ اِس گائے کا دُودھ دوہنا تو سب کو پسند ہے مگر اُسے
بہتر چارا یا دانہ ڈالنے کی توفیق کِسی کِسی کو ہے۔
کراچی میں بسنے اور اِس پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرنے والوں نے شاید طے
کرلیا ہے کہ اِس شہر کو اب بے قیادت اور بے لگام ہی رہنے دینا ہے۔ ہوسکتا
ہے دُنیا کو یہ دِکھانا مقصود ہو کہ دیکھو! ماسٹر پلان وغیرہ کے چکر میں نہ
پڑا کرو، بڑے شہر کسی بھی نوع کی واضح منصوبہ بندی کے بغیر بھی زندہ رہ
سکتے ہیں، چل سکتے ہیں! کراچی صرف سانس ہی نہیں لے رہا ہے، اپنے مکینوں کے
سانسوں کا تسلسل بھی برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ہاں، اِس عمل کے دوران اُس پر
کیا بیت رہی ہے یہ کہانی پھر کبھی سہی۔
جو تار سے نکلی ہے وہ دُھن سب نے سُنی ہے
جو ساز پہ گزری ہے وہ کِس دِل کو پتا ہے!
نصف عشرے سے کراچی کا یہ حال ہے کہ کوئی پُرسان حال نہیں۔ جیسے اچھی طرح
چلتے چلتے کوئی اچانک گڑھے میں گِر جائے! لوگ بُنیادی سہولتوں کو اِس قدر
ترس گئے ہیں کہ ریاست پر اُن کے اعتماد کی بُنیاد ہِل گئی ہے۔ لوگ بجلی،
پانی، گیس اور صحتِ عامہ کی سہولتوں کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ غور و فکر
کرنے کو اب یہی کچھ رہ گیا ہے۔ 67 برس میں پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی موثر
نظام وضع نہیں کیا جاسکا۔ لوگ روزانہ یُوں کام پر جاتے ہیں کہ شام کو گھر
آتے ہیں تو ایک زمانے کی تھکن اُن کے رگ و پے میں سرایت کرچکی ہوتی ہے!
زندگی کس بلا کا نام ہے، اُس کے تقاضے کیا ہیں اِتنا سوچنے کی فُرصت کسی کو
مل جائے تو اُسے خوش نصیب سمجھیے۔ لوگوں کو یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ پانی کب
آئے گا، بجلی کب درشن دے گی، گیس کا پریشر کب بحال ہوگا! بُنیادی سہولتیں
زندگی کے بُنیادی اِشوز کی شکل اختیار کرگئی ہیں۔ اِس مایا جال سے نکلیے تو
کچھ نیا سوچیے، کچھ نیا کیجیے۔
کراچی سے ابتدا ہوئی ہے۔ تجربہ ناکام نہیں رہا۔ ثابت ہوگیا کہ کوئی نظام
وضع کیے بغیر اور منصوبہ سازی کے ہُنر کو زحمت دیے بغیر بھی ایک بہت بڑا
شہر چلایا جاسکتا ہے۔ ملک کے کرتا دھرتا مطمئن ہوگئے ہوں گے۔ پورے ملک کو
باضابطہ قیادت کے بغیر چلانے کا بھرپور تجربہ اب زیادہ دور کا معاملہ نہیں
لگتا۔ ملک کو قیادت کے بغیر چلانے کا جُزوی تجربہ تو کئی بار کیا گیا ہے
اور ہر تجربہ طالع آزماؤں کو مطلوبہ نتائج و فوائد دے گیا ہے۔ جن کے ہاتھ
میں سب کچھ ہے اُن کے ہاتھ سے کچھ گیا نہیں۔
جن سے کسی بھی طرح کے قائدانہ کردار کی آس لگائی جاتی رہی ہے وہ تو اب تک
کچھ نہیں کرپائے۔ یاں یُوں کہیے کہ اپنی جیبیں بھرنے ہی سے اُنہیں فُرصت
نہیں مل سکی۔ رات دن بڑھتے، پھیلتے شہر بلکہ میگا سِٹی کو مایا نگری میں
تبدیل ہونے کی کُھلی چُھوٹ دی جاچکی ہے۔ نظم و ضبط کو طویل رُخصت پر بھیج
دیا گیا ہے۔ حساب کتاب سے کہہ دیا گیا ہے کہ اب زحمت نہ کرے۔ بھرپور اور بے
پناہ کوشش کی جاتی رہی ہے کہ کوئی پہلو مکمل نہ ہو، ہر بات ادھوری ہو۔
کراچی کی مایا نگری اُن قائدین کی منتظر ہے جو واقعی راہ دکھانے کی صلاحیت
رکھتے ہوں، ڈھنگ سے کچھ ڈلیور کرسکتے ہوں، مایا کے پُجاری نہ ہوں۔ اگر ایسے
قائدین کے آنے میں مزید تاخیر ہوئی تو یہ مایا نگری مکمل اندھیر نگری بننے
میں مزید تاخیر سے کام نہیں لے گی۔ |
|