عموما اردو زبان میں جسے ترکیب سے موسوم کیا جاتا ہے
انگریزی زبان میں اسے ”Ingredient“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کسی بھی چیز کے
اجزائے ترکیبی بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔کسی بھی پراڈکٹ کی اثر پزیری اور
فوقیت ان ہی اجزاء کی مرہون منت ہوتی ہے۔ ایک مثال سے اس کو واضح کردینا
مناسب ہو گا۔ دودھ کے ایک گلاس میں ایک خاص مقدار میں کیلشیم، شوگر، وٹا
منز اور کچھ دیگر اجزاء ہوتے ہیں۔ اور یہی اجزائے ترکیبی اپنی افادیت کی
وجہ سے دودھ کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ اگر ان کی بجائے پانی میں سفید
رنگ ملا کر لیبل پر دودھ لکھ دیا جائے تو ظاہربین نگاہ کو دھوکہ تو دیا جا
سکتا ہے لیکن اس میں دودھ کی طاقت اور اسکے صحت افزااثرات مترتب نہیں ہو
سکتے۔ اسی طرح قوم رسول ہاشمیﷺ (جسے اصطلاحی طور پر ”امت مسلمہ“ کہیں یا
”مسلم امہ“) کے بھی کچھ اجزائے ترکیبی ہیں۔ قومیں افراد سے ملکر بنا کرتی
ہیں اور ہر فرد اپنی حیثیت میں ایک خاص مقام و مرتبے کا حامل ہوتا ہے۔ جب
تک ایک ایک فرد کی کانٹ چھانٹ اور اصلاح و تربیت کا کوئی موئثر اور قابل
عمل نظام نہیں ہو گا اس وقت تک بحیثیت قوم کئی الجھنوں اور پریشانیوں کا
سامنا رہے گا۔ بقول اقبال ؒ
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
اگر ہم تاریخ اسلام اور سیرت النبیﷺ کے ان ابواب کا جائزہ لیں جن میں آغاز
اسلام خصوصا مکی زندگی کے احوال و آثار منقول ہیں تو معلوم ہو تا ہے کہ
انتہائی کٹھن اور اذیت ناک ادوار سے گزر کر امت مسلمہ کی تشکیل پایہ تکمیل
تک پہنچی۔ فرد واحد ہادی برحق آقائے نامدارﷺکوہ صفا پہ کھڑے ہو کر لوگوں کو
صدائے دلنواز دیتے ہیں کہ”کہہ دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو کامیاب
و کامران ہو جاؤ گے“
یہ وہ ہستی ہے کہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے تاریخ انسانی کے سب سے عظیم تر چراغ
ہدایت کے طور پر سراج منیر کا لقب عطا کر کے مبعوث فرمایا ہے۔ سرزمین عرب
سے پھوٹنے والی نور و کہکشاں کی یہ کرنیں نہ فلسفہ و منطق کے مباحث تک
محدود تھیں اور نہ بادشاہوں کے طرز حکمرانی اور اسلوب سیاست تک۔ حقیقی
معنوں میں اس سراج منیر نے ایک مذہبی، معاشرتی، سیاسی اور سماجی نظام تشکیل
دینا تھا۔ جس نے یہ ثابت کرنا تھا کہ تعلیمات الہیہ کی روشنی میں معاشرے
کیسے جنم لیتے اور پروان چڑھتے ہیں۔ اس نے یہ ثابت کرنا تھا کہ معاشرے کی
تشکیل و ترکیب کے لئے کون سے اجزائے ترکیبی درکار ہوتے ہیں کہ مختلف مراحل
زندگی میں جن کی اشدضرورت درپیش ہوتی ہے۔ اور اس نے یہ بھی ثابت کرنا تھا
کہ ایمان و ایقان کی جو روشنی دلوں سے پھوٹتی ہے وہ معاشروں میں کیسے
انقلاب بپا کرتی ہے؟
فرض کریں کہ حضور ﷺ کے دور مبارک میں اعلان نبوت سے قبل کوئی شخص ہجرت کر
کے کسی دوسرے ملک میں چلا جاتا۔ پھر نبی محتشم ﷺ اور آپ کے وفا شعار
ساتھیوں کی تیئس سال کی محنت شاقہ اور مسلسل جدو جہد کے نتیجے میں تشکیل
پانے والے معاشرے میں واپس آتا تو یقینا ششدر، حیران اور پریشان ہو جاتا کہ
میں کہاں آگیا ہوں اور یہاں ہو کیا گیا ہے؟ وہ سوچے گا کہ جب تیئس سال پہلے
میں یہاں سے گیا تھا تو اس سماج کی روایات میں بچیوں کو زندہ درگور کردیا
جاتا تھااور عورت عزت و وقار سے محروم تھی۔قتل و غارت گری عام تھی۔ لوٹ
کھسوٹ کا بازار گرم تھا۔ سماجی روایات قبائلی سرداروں کی نفس پرستی کا شکار
ہو چکی تھیں۔ لیکن اسے ایک خوشگوار حیرت ہو گی کہ وہاں تو ایک عظیم انقلاب
اور واضح تبدیلی آچکی ہے۔ عورت ماں کے طور پر اپنے قدموں تلے جنت رکھتی ہے
تو بیٹی عظمت وشفقت کی مستحق بن چکی ہے۔ بیوی گھر کی ملکہ اور بہنیں شرافت
اور عفت و عصمت کا نشان بن چکی ہیں۔ معاشرے میں رہنے والے افراد شیر و شکر
ہیں اور ایک دوسرے پر جان نچھاور کرنے کیلئے تیار ہیں۔رشتہ داروں، پڑوسیوں
اور مسافروں تک کے حقوق کی پاسداری کے لئے الہی قانون موجود ہے۔ ازدواجی
زندگیاں خوشگوار اور والدین و اولاد کے مابین اطاعت اور شفقت کے رشتے
استوار ہو چکے ہیں۔ جہاں انسانوں کے حقوق تو کجا حیوانوں تک کے حقوق کو
ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ اُسے مزید حیرانگی ہو گی کہ اس سماج میں رہنے والے
افراد کے دلوں کی دھڑکنوں میں یاد الہی اور عشق رسولﷺکا بسیرا ہے اور ان کا
ہر ہر عضو بدن الہی تعلیمات کی تابعداری کرتا ہے۔ لوگ سچ بولتے ہیں۔ امانت
اور دیانت انکی گھٹی میں پڑ چکی ہے۔ اسے با لکل یقین نہیں آتا ہو گا کہ یہ
وہی جزیرۃ العرب اور سرزمین حجاز ہے جسے میں 23 سال پہلے خیر آباد کہ کر
گیا تھا۔ یقینا یہ انسانی تاریخ کا ایک عظیم علمی اور عملی انقلاب تھا۔
عجیب بات کہ یہ انقلاب موٹرویز، بلند و بانگ عمارات یا ذرائع آمد و رفت میں
تبدیلی کا نام نہ تھا بلکہ حقیقت میں دلوں اور ذہنوں کی تبدیلی تھی۔ اس
تبدیلی نے جزیرۃ العرب سے نکل کر ایشیا، افریقہ اور یورپ تک ایک جہاں کو
اپنی مہک سے معطر کیا۔ یہ ایک ایسا نور ہدایت تھا جس کی چمک دھمک اور ظاہری
و باطنی روشنی کے سامنے مادیت پرستی کے شکار انسانوں کے جلائے ہوئے قمقمے
بھی ماند پڑ گئے تھے۔ حضرت ملا علی قاری ؒ نے فرمایا تھا کہ ”لا تصلح ہذہ
الامت الا کما یصلح الاولون“ کہ اس امت مسلمہ کی اصلاح صرف اسی نہج پہ ممکن
ہے جس طرح پہلوں کی اصلاح ہوئی تھی۔ اسلام کا آغاز ہی قلب و ذہن کی تبدیلی
سے ہوتا ہے۔ اگر اس طرز پہ فکری اور عملی تبدیلی کی کاوشیں نہ کی جائیں اور
دوسروں کی دیکھا دیکھی فقط ذہنی آزادی دے دی جائے تو اس کے بھیانک نتائج
برآمد ہو تے ہیں۔ بقول اقبالؒ
آزادی افکار سے ہے ان کی تباہی
رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ
ہو فکر اگر خام تو آزادی افکار
انسانوں کو حیوان بنانے کا طریقہ
آج امت مسلمہ کی ذبوں حالی پہ ہم ایک دوسرے کی اشک شوئی تو کر لیتے ہیں
لیکن اس طرف دہیان کا فقدان ہے کہ جائزہ لیں کہ ہمارے ساتھ ٹریجڈی کیا ہوئی
ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ وہ اوصاف حمیدہ اور عادات و اطوار جو اسلامی معاشرے کی
تشکیل کے لئے بنیادی اینٹوں کا کام دیتے ہیں مفقود ہو چکے ہیں۔ اس کے نتیجے
میں مسلم معاشرے توڑ پھوڑ اور زوال کا شکار ہیں۔ قتل و غارت گری، جھوٹ اور
ملاوٹ، بد دیانتی اور دھوکہ دہی ہمارے سماجی نشان بن چکے ہیں۔ جب تک اسوہ
مصطفوی ﷺ کے منہج پہ انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو تبدیل نہیں کیا جاتا
اس وقت تک یہ رولا گولا اور شور شرابا ہمارامقدر رہے گا اور زندگی کی گاڑی
اسی طرح ہچکولے کھاتے رواں دواں رہے گی۔
ہم ہی دیوار ہیں راہ میں اپنی ورنہ
ہم جو بدلیں تو زمانے کو بدل سکتے ہیں |