پہلا سوال جس كے سبب ختم نبوت كا
عقیدہ وجود میں آیا وہ عالم غیب اور انسان كے درمیان رابطے سے تعلق ركھتا
ہے وہ سوال یہ ہے كہ سب سے پہلے کس دور كے انسان نے اپنی جہالت اور بے علمی
كے باوجود وحی و الہٰام كے راستے سے عالم غیب كے ساتھ كس طرح رابطہ پیدا
كاب اور اس پر آسمان كے دروازے كیسے كھل گئے؟ جبكہ ترقی یافتہ بعد كا انسان
اس رحمت سے محروم رہا اور اس پر آسمان كے دروازے بند ہوگئے۔
كیا حقیقت میں انسان كی روحانی اور باطنی صلاحیتیں كم ہوگئی ہیں اور وہ اس
اعتبار سے تنزل میں چلا گیا ہے۔
یہ شبہ اس خیال سے پیدا ہوا ہے كہ عالم غیب كے ساتھ معنوی ربط و تعلق
انبیاء كے ساتھ مخصوص ہے اس لئے سلسلہ نبوت كے منقطع ہونے كا لازمی نتیجہ
عالم غیب اور عالم انسانی كے درمیان روحانی اور معنوی رابطے كے انقطاع كی
صورت میں ظاہر ہوگا۔
لیكن یہ خیال كوئی بنیاد نہیں ركھتا۔قرآن كریم بھی غیب اور ملكوت كے ساتھ
اتصال كے درمیان اور مقام نبوت كے درمیان لازم و ملزوم كے تعلق كا قائل
نہیں ہے جیسا كہ خرق عادت كو وہ پیغمبری كی واحد دلیل تسلیم نہیں كرتا،
قرآن كریم ایسے اشخاص كا بھی ذكر كرتا ہے كہ ان كی معنوی زندگی ایسی طاقت
سے بہرہ مند رہی ہے كہ انہوں نے فرشتوں كے ساتھ ہمكلامی كی ہے اور ان سے
خارق العادت (غیر معمولی) امور انجام پائے ہیں حالانكہ وہ اشخاص نبی نہیں
تھے۔اس كی بہترین مثال عمران كی بیٹی، حضرت عیسی مسیح (ع) كی والدہ حضرت
مریم ہے۔قرآن نے ان كے بارے میں حیرت انگیز واقعات كا ذكر كیا ہے۔قرآن میں
حضرت موسیٰ (ع) كی والدہ كے بارے میں بھی كہا گیا ہےکہ ہم نے اس كی طرف وحی
بھیجی كہ حضرت موسیٰ (ع) كو دودہ پلائے اور جب اسے موسیٰ (ع) كے بارے میں
كسی خوف كا احساس ہوا تو اسے دریا میں بہادے ہم اسے محفوظ ركھ كر تیری طرف
واپس لوٹا دیں گے ہمیں معلوم ہے كہ عیسیٰ (ع) كی ماں پیغمبر نہیں تھیں اور
نہ ہی موسیٰ (ع) كی والدہ ۔
حقیقت یہ ہے كہ ملكوتی حقائق كے غیب و شہود كے ساتھ اتصال، آواز غیبی كا
سننا اور بالاخر غیب سے خبر كا پانا نبوت نہیں ہے، نبوت پیغام كا لانا ہے
ہر دو شخص جسے غیب كی خبر مل جائے پیغام كا لانے والا نہیں ہوتا۔
قرآن پاک نے اشراق اور الہٰام كا دروازہ ان تمام لوگوں پر كھول رکھا ہے جو
اپنے باطن كو پاك كرلیتے ہیں:
"ان تتقوا اللہ یجعل لكم فرقاناً"( سورۀانفال۔آیت ۲۹. (
ترجمہ:"اگر تم خدا ترسی اختیار كرو گے تو اللہ تمہارے لئے كسوئی بہم
پہنچادے گا۔"
والذین جاھد و افینا لنھدینھم سبلنا(سورۀ عنكبوت آیت ۶۹. (
ترجمہ:جو لوگ ہماری خاطر جہاد كریں گے انہیں ہم اپنے راستے دكھائیں گے۔
اسی فلسفہ كے نقطہ نظر سے معنوی اور عرفانی زندگی زندگی كا ایك نمونہ پیش
كرنے كے لئے نہج البلاغہ كے ایك خطبہ كچھ حصہ یہاں نقل كرنا كافی ہوگا۔
نہج البلاغہ كے خطبہ ۲۲۰میں اس طرح بیان كیا گیا ہے ۔
ترجمہ:"اللہ تعالیٰ نے اپنی یاد كو دلوں كا صیقل قرار دیا ہے۔دل بہرے
ہوجانے كے بعد بھی اس ذكر كے ذریعہ سننے والے اور اندھے ہوجانے كے بعد
دیكھنے والے اور سركشی و عناد كی راہ پر چل پڑنے كے بعد بھی مطیع و
فرمانبردار ہو جاتے ہیں۔ہمیشہ ایسا ہوتا رہا ہے اور آج بھی ایسا ہی ہوتا ہے
كہ زمانے كے ہر ایك حصے میں اور ان زمانوں میں جبكہ لوگوں كے درمیان كوئی
پیغمبر موجود نہ ہو اللہ تعالیٰ كے ایسے بنے موجود رہے ہیں آج بھیء موجود
ہیں جن كے دلوں میں وہ كوئی راز كی بات ڈالتا رہا ہے اور ان كی عقلوں كی
راہ سے ان كے ساتھ بات كرتا ہے۔"
رسول اكرم (ص) سے روایت ہے:
"ان للہ عباداً لیسوا بانبیاء یغبط ہم النبو"
"اللہ تعالیٰ كے ایسے بندے بھی موجود ہیں كہ وہ پیغمبر نہیں ہیں لیكن نبوت
ان پر رشك كرتی ہے۔"
شیعہ ائمہ اطہار (ع) كی باطنی ولایت و امامت كے قائل ہیں جبكہ وہ انہیں نبی
نہیں سمجھتے۔اس سے بات بالكل واضح ہوجاتی ہے۔
عارفین اسلام نے عرفانی اصطلاحات میں معنی سیرو سلوك كے مراتب كو چار
مرحلوں میں تقسیم كیا ہے ہم طول كلام سے بچنے كے لئے اس كے صرف دو مرحلوں
كی طرف اشارہ كرتے ہیں:
الف) سفر از خلق بہ حق (مخلوق كی طرف سے خالق كی جانب سفر(
ب) سفر حق بہ خلق (خالق كی طرف سے مخلوق كی جانب سفر(
مخلوق كی جانب سے خالق كی طرف سفر پیغمبروں كے لئے مخصوص نہیں ہے۔پیغمبر تو
معبوث ہی اسی لئے ہوئے ہیں كہ اس سفر میں انسان كی مدد كریں، جو كچھ
پیغمبروں كے لئے مخصوص ہے، وہ خالق كی جانب سے مخلوق كی جانب سفر ہے یعنی
وہ مخلوق كی دستگیری اور ارشاد ہدایت پرمامور ہیں اس سے مراد پیغمبر كی
كثرت كی جانب واپسی ہے تا كہ اسے وحدت كی راہ دكھا سكے۔ |