کنجشکِ فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
(Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
اسلامی دنیا میں جہاں
مشنری اسکولوں اور رفاہی اداروں (NGOs) نے تباہی مچائی ہے ، وہاں ان بے دین
اداروں کی پروردہ خواتین نے مسلمان بچوں کی ذہنی تخریب اور نظریاتی
پسماندگی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ خلیج کے ممالک میں خاص کر کرسچن
خادماؤں نے جو گل کھلائے ہیں، یا پھر افغانستان میں امدادی اداروں بالخصوص
شیلٹر ناؤ سے وابستہ سسٹرز نے جو سیہ کاری کی ہے وہ واقفان حال خوب جانتے
ہیں۔ بناء بریں بنین کے مدارس کے ہم رشتہ بنات کے باقاعدہ مدارس وجامعات کی
ضرورت واہمیت سے کسی طور پر بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ بنات کی تعلیم
وتربیت کے متعلق مولانا محمد تقی عثمانی فرماتے ہیں:
’’کسی بھی قوم کی خواتین کا اس قوم کی تعلیم و تربیت میں جو حصہ ہوتا ہے،
وہ کسی تشریح و بیان کا محتاج نہیں، ماں کی گود بچے کی سب سے پہلی درسگاہ
بھی ہے اور تربیت گاہ بھی، اوریہ ایسی مؤثر درسگاہ ہے کہ یہاں کا سیکھا ہوا
سبق ذہن و قلب پر پتھر کے نقش سے بھی زیادہ دیرپا ہوتا ہے اور ساری عمر
نہیں بھولتا۔ چنانچہ ملت مسلمہ کے لیے جتنی اہمیت مردوں کی دینی اصلاح کو
حاصل ہے، خواتین کی دینی تعلیم و تربیت اس سے کسی طرح کم اہمیت نہیں رکھتی۔
ایک تو اس لیے کہ اسلامی احکام کا خطاب جس طرح مردوں کو ہے، اسی طرح عورتوں
کو بھی ہے بلکہ بعض احکام ایسے ہیں جو خواتین ہی سے تعلق رکھتے ہیں اور
دوسرے اس لیے کہ ’’خواتین کی تربیت بالآخر پوری قوم کی تربیت کا ذریعہ ثابت
ہوتی ہے۔
سرکار دور عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا معمول بھی یہ تھا کہ آپ صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ وسلم کے عمومی خطابات میں تو مرد اور عورتیں دونوں ہی مخاطب
ہوتی تھیں۔ لیکن کبھی کبھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خاص طور سے خواتین
کو خطاب کرنے کے لیے’’ الگ مجلسیں‘‘منعقد فرماتے تھے ، تاکہ ان کے ذریعہ
خواتین کی تربیت خصوصی اہمیت کے ساتھ ہوسکے، آنحضرت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
وسلم کی اس سنت کی پیروی میں ہر دور کے علماء اور بزرگان دین نے بھی اپنے
وعظ و خطاب اور تصنیف و تالیف میں خواتین کی اس خصوصی اہمیت کو ملحوظ رکھا……‘‘
(تحفہ خواتین ص۱۹)
عثمانی صاحب کے ایک ایک لفظ پر آپ پھر سے نگاہ ڈالیے، اندازہ ہوگا کہ اسلام
میں خواتین کی تعلیم جو بالآخر ’’پوری قوم کی تعلیم و تربیت‘‘ کا ذریعہ ہے
کی کتنی بڑی اہمیت ہے اور حضرت معلم انسانیت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس
کی اس اہمیت کو کس قدر ملحوظ رکھا! اس کے لیے ملاحظہ ہو صحیح بخاری ، کتاب
العلم، باب عظۃ الإمام النساء و تعلیمہن۔اور صحیح مسلم ، کتاب صلاۃ العیدین
،و کتاب البروالصلۃ۔
نیزمولانا محمد عاشق الہی بلندی شہریؒ اس سلسلے میں یوں رقم طراز ہیں:
’’دین کا علم و عمل جب مردوں اور عورتوں دونوں ہی فریق کے لیے ہے اور دین
کا سیکھنا اور سکھانا سب کی ذمہ داری ہے، تو اپنے اس فریضے کو ادا کرنے کے
لیے ہر مرد و عورت کو کوشاں رہنا از حد ضروری ہے۔ قرن اول کی عورتوں نے دین
کو پھیلانے اور دین کا چرچہ کرنے میں بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں، تاریخ کی
گواہی ہے کہ سب سے پہلے دین اسلام قبول کرنے والی شخصیت عورت ہی کی تھی
(حضرت خدیجہؓ)۔اور سب سے پہلے جس نے اسلام کے قبول کرنے کی سزا میں جام
شہادت نوش کیا وہ بھی عورت ہی تھی (حضرت سمیہؓ ام عمارؓ) یہ بھی مشہور
واقعہ ہے کہ حضرت عمر کے اسلام قبول کرنے کا باعث ان کی بہن حضرت فاطمہؓ
تھیں اور یہ بھی سیرت و تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے کہ جب ہجرت کا سلسلہ
شروع ہوا تو جہاں اپنے دین و ایمان کی حفاظت کے لیے مردوں نے ہجرت کی تو
عورتیں بھی ساتھ تھیں، پھر ان پاکیزہ خواتین نے جہادوں میں بھی حصے لیے اور
دین کو سربلند دیکھنے کے لیے اپنے شوہروں اور بچوں کو جنگ کے میدانوں میں
خوشی خوشی بھیجا کرتی تھیں، بلکہ تاریخ شاہد ہے کہ بعض عورتوں نے اپنے شوہر
کو جہاد کے لیے اُکسا کر اور طعنے دے کر میدان کار زار کے لیے روانہ کیا۔
کیا آج کل کی عورتیں اسلام کا دم نہیں بھرتی ہیں؟ کیا ان کو اسلام سے نسبت
اور تعلق نہیں ہے؟ کیا ان کو حضورسرورکائنات صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی
امت ہونے کا دعوی نہیں ہے؟اگر دعویٰ ہے اور ضرور ہے، تو پھر اسلام کے
سیکھنے سکھانے اور اپنے فرائض کو پہچان کر عمل پیرا ہونے کے لیے کیوں حرکت
نہیں کرتی ہیں؟؟؟
……مسلمان عورتوں کی گود میں سالانہ ہزاروں بچے پرورش پاتے ہیں، مگر (افسوس)
ان بچوں کو نہ دین سکھایا جاتا ہے ، نہ دین کے لیے بہادری پر ان کو اُبھارا
جاتا ہے (جس کا نتیجہ ظاہر ہے کیا ہوگا؟)……یوں تو پورے ہی معاشرے کی اصلاح
کی ضرورت ہے، لیکن خصوصیت کے ساتھ اصلاح نسواں پر زیادہ توجہ دینا ضروری
ہے، کیونکہ ہر بچے کا سب سے پہلا مدرسہ ماں کی گود ہے، ماں صحیح مسلمان
ہوگی تو بچے کو بھی اسلام سکھائے گی اور اسلام کے احکام و آداب کی تعلیم دے
گی۔ ‘‘ (از:’’ تحفہ ٔ خواتین باختصار‘‘، ص۲۵۔ ۲۶۔ ۲۷)
مذکورہ بالا اقتباس کی روشنی میں اسلامی تعلیمات کی ترویج و اشاعت اور دینی
مزاج و مذاق اپنانے میں خواتین کے کردار کی اہمیت روز روشن کی طرح واضح نظر
آرہی ہے۔دیکھیے مولانا تھانویؒ نے تو بچیوں کی تعلیم و تربیت کو ’’واجب‘‘
قرار دیا ہے فرماتے ہیں:
’’……تجربہ سے ثابت ہوا ہے کہ مردوں میں علماء کا پایا جانا مستورات کی
ضروریات دینیہ کے لیے کافی وافی نہیں ہے، دووجہ سے : اولاً: پردے کے سبب،
کہ وہ بھی اہم الوجبات ہے، تو سب عورتوں کا علماء کے پاس جانا قریباً
ناممکن ہے اور گھر کے مردوں کو اگر واسطہ بنایا جائے تو بعض مستورات کو تو
گھر میں ایسے مرد بھی میسر نہیں ہوتے اور بعض جگہ خود مردوں ہی کو اپنے دین
کا بھی اہتمام نہیں ہوتا، تو وہ دوسروں کے لیے سوال کرنے کا کیا اہتمام
کریں گے۔ بس ایسی عورتوں کو دین کی تحقیق ازبس دشوار ہے اور اگر اتفاق سے
کسی کی رسائی بھی ہوگی، یا کسی کے گھر میں باپ، بھائی، بیٹا وغیرہ عالم ہیں
تب بھی بعض مسائل عورتیں ان مردوں سے نہیں پوچھ سکتیں ، ایسی بے تکلفی شوہر
سے ہوتی ہے، تو سب کے شوہروں کا ایسا ہونا عادۃً ناممکن ہے، تو ان کی عام
احتیاج رفع ہونے کی بجز اس کے کوئی صورت نہیں کہ کچھ عورتیں پڑھی ہوئی ہوں
اور عام مستورات ان سے اپنے دین کی ہر قسم کی تحقیقات کیا کریں، پس کچھ
عورتوں کو بطریق متعارف تعلیم دینا ’’واجب ‘‘ ہوا‘‘۔ (’’اصلاح انقلاب
امت‘‘۔ ص۲۶۵)
مدارس بنات کی اہمیت مذکورہ ارشادات کی روشنی میں کسی پر مخفی نہیں رہنی
چاہیے، مگر پھر بھی کچھ حضرات مدارسِ بنات کے متعلق چہ میگوئیاں کرتے رہتے
ہیں۔ ایسے حضرات کے لیے مندرجہ ذیل گذارشات پیش خدمت ہیں:
مدارس بنات پر آج کل ایک اعتراض زوروشور کے ساتھ تو یہ کیا جاتا ہے کہ
امتحانات میں ان کی نگرانی کیسے کی جائے؟ کیونکہ موجودہ صورت حال میں تجربے
سے ثابت ہے کہ انتہائی کوششوں کے باوجود بھی نقل کی شکایات مل جاتی ہیں۔
اس کے دو جواب ہیں۔ اولاً: نقل کی شکایات کا کسی نہ کسی طرح پایا
جاناپریشان کن نہیں، اس لیے کہ اس کا بالکل خاتمہ ناممکن ہے، کم سے کم
کاوشیں تو حصول نقل کی رہتی ہی ہیں اور پھر تجربے سے یہ بھی ثابت ہورہا ہے
کہ سال بہ سال تدریجاً بہتری آرہی ہے ۔ ثانیاً: یہ مشکل اس لیے ختم ہوتی
نظر آرہی ہے کہ ایک تو سندیافتہ خواتین بکثرت پائی جانی لگی ہیں اور پھر
ملک کے طول و عرض میں قابل اعتماد دینی اداروں نے بنات کی کلاسیں شروع
کرادی ہیں۔ جس سے معتمد عملے کا دستیاب ہونا قدرے آسان ہوگیا ہے اور آیندہ
سالوں میں اس میں مزید بہتری کی امید ہے۔
عام طور پر یہ سننے میں آرہا ہے کہ پڑھی ہوئی تو چار کلاسیں ہیں اور نام ہے
عالمہ فاضلہ۔ رشتے کی بات ہو یا کہیں تعارف ہورہا ہو تو فلانی عالمہ فاضلہ
کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔
یہ بات بھی اس لیے اہم نہیں ہے کہ عالمہ کا مقررہ کور س جب پڑھا جاچکا تو
انھیں عالمہ فاضلہ کا نام دینے میں کیا حرج ہے۔ رہی یہ بات کہ انہیں آتا
جاتا بھی تو کچھ نہیں،تو یہ تو اہل علم خوب جانتے ہیں کہ یہ کورسز استعداد
پیدا کرنے کے لیے ہوتے ہیں کہ ان کے پڑھ چکنے کے بعد اگر کوئی اپنے فن میں
ماہربننا چاہے تو ہوسکتا ہے۔ یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اِدھر پڑھا اُدھر عالم
حاذق ، شیخ کامل یا ماہر فن بن گیا۔ بلکہ اس حوالے سے تو مشائخ فرماتے ہیں
کہ عالم بننے کی ابتدا سند حاصل کرنے سے ہوتی ہے۔اوریہ بات بھی ہے کہ آگے
چل کر اس میں عمدگی آہی جائے گی۔
اُدھرایک نقص ہمارے معترضین میں بھی ہے کہ وہ عالمہ اور عالم کا تقابل کرا
کے دونوں کو ایک مقام دینے کی کوشش کرتے ہیں، اور جب خواتین اس پر پوری
نہیں اترسکتیں تو اعتراضات کی بوچھاڑ…… حالانکہ یہ بات صریح البطلان اس
واسطے ہے کہ خواتین مردوں کے برابر تو تب بھی نہیں ہوسکتیں جب وہ پورا نصاب
پڑھ لیں، چہ جائیکہ مختصر نصاب پڑھ لینے سے وہ اس مقام پر آجائیں۔
مدارس بنات کے اندر خواتین کے انتظامی امور کے نقص کو اگر مورد اعتراض
ٹھہرایا جائے تو یہ بھی خاص بات اس لیے نہیں کہ اچھے سے اچھے نظم و نسق اور
بہتر سے بہتر کارکردگی کے لیے جدوجہد جاری رہنی چاہیے۔ اﷲ جل شانہ کا وعدہ
ہے کہ وہ کسی کی کوشش رائیگاں نہیں جانے دیں گے، تو اس میں بھی کامیابی
بشرطیکہ اخلاص و ﷲیت ہو،ہوہی جائیگی۔ ویسے ملک میں بنات کے بعض مدارس کا
انتظام و انصرام اور بعض معلمات کا امتحانی نظم و نسق رفتہ رفتہ مثالی اور
قابل تقلید بنتا جارہا ہے اس لیے سب کو ایک ہی نگاہ سے دیکھنا صحیح نہیں
ہوگا۔
مدارس بنات کے مدرسین کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اکثر و بیشتر اس مستوی و
معیار پر پورے نہیں اترتے جس پر انہیں ہونا چاہیے، بالخصوص ان میں وہ
اساتذہ ٔ کرام مورد الزام ٹھہرتے ہیں جن سے عالمیہ بنات کے اسباق منسوب
ہوتے ہیں۔
اس بارے میں بھی حقیقت یہ ہے کہ کچھ تو غلو سے کام لیا جاتا ہے اور کچھ کے
متعلق اس بات کو اگر صحیح بھی مان بھی لیا جائے تو اس میں بھی معترضین
حضرات کو ایک مغالطہ ہوتا ہے اور وہ یہ کہ مدارس بنات (جن میں اب تک صحیح
معنوں میں پختگی و بلوغ کا عنصر ناپید ہے) کے اساتذہ ٔ عالمیہ کا مقابلہ و
موازنہ مدارس عالمیہ بنین (جو برسہا برس سے میدان عمل میں ہیں) کے اساتذہ
کرام سے کرایا جاتا ہے، جب کہ عالمیہ بنین میں مکمل صحاح ستہ کے علاوہ
مؤطین و شرح معانی الآثار جیسی کتب پڑھائی جاتی ہیں، جس کے لیے اچھے خاصے
مستعد مدرس کی ضرورت ہوتی ہے، جبکہ عالمیہ بنات کا نصاب اس سے بالکل مختلف
ہے۔ وہاں تو صرف برکت کے لیے بعض کتب کے منتخب ابواب پڑھائے جاتے ہیں اور
اگر اسے بھی تسلیم کیا جائے کہ نہیں صاحب، دونوں میں یکساں استعداد کے
مدرسین ہونے چاہییں تو پھر بھی یہ بات قابل غور ہے کہ ہر جگہ شیخ الحدیث
’’ابنِ حجر‘‘ تھوڑا ہی میسر ہیں؟
نیز اس قسم کے اعتراض کرنے والے لوگ مدرسین عالمیہ بنات کو مشائخ حدیث تصور
کرکے اعتراض کرتے ہیں حالانکہ وہ شیخ الحدیث نہیں کہلاتے (اگرچہ وہ صحیح
بخاری کا کچھ حصہ ہی کیوں نہ پڑھاتے ہوں ) کیونکہ شیخ کے لیے ماہر فی الفن
ہونا ضروری ہے جس کے لیے بڑے پاپڑبیلنے پڑتے ہیں۔ لہٰذا ایسے حضرات ِاساتذہ
کو زیادہ سے زیادہ استاذ حدیث کہا جاسکتا ہے۔تو استاذ حدیث تو زادالطالبین
اور ریاض الصالحین پڑھانے والا بھی کہلا سکتا ہے، جبکہ ہمارے یہاں ایسے
اساتذہ قریباً اکثر ہی مبتدئین ہوا کرتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ اُن اساتذہ حدیث
کا موزانہ ان مبتدین سے کرایا جائے نہ کہ مشائخ حدیث سے، اس سے اس قسم کے
اشکالات خود ہی رفع ہوجائیں گے۔ اس تفصیل کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک مسلمہ
حقیقت ہے کہ بعض حضرات ایسے اعتراض بعض مدارس کے متعلق ذاتی رنجشوں کی وجہ
سے بھی کرتے ہیں،حقائق کی بنیادپر نہیں جو نہایت نامناسب ہے۔
اخلاقی کمزوریوں کا تذکرہ ہوا کرتا ہے تو اگر ایسی کمزوریوں کو دیکھا جائے
اور تتبع کیا جائے تو اس سے تو مدارس بنین بھی خالی نہیں، یہ اور بات ہے کہ
ہمارے مدارس بنین وبنات بالعموم عصری تعلیم گاہوں کے مقابلے میں عافیت
گاہیں ہیں۔ لیکن کم سے کم بشری تقاضوں کے مطابق اگر ایسی کمزوریاں ہمارے
مدارس میں ہیں، تو بنات و بنین کا کیا امتیاز ہے؟ لہذا پھر جو اعتراض بنات
پر ہوسکتا ہے وہی بنین پر بھی۔ حالانکہ وہ ایسی کمزوریاں ہیں جنہیں ہمارے
اکابرو مشائخ درگذر فرماتے رہتے ہیں اور ان پر چشم پوشی کرتے ہوئے ،ان کو
اپنے رستے کا سنگ گراں نہیں گردانتے۔
﴿وقرن في بیوتکن، ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الاولیٰ﴾ سے استدلال کرکے کچھ
حضرات قرار فی البیوت پرزور دیتے ہیں تو اس حوالے سے ایک بات یہ ہے کہ قرار
فی البیوت واجب ہے اور تبرج جاہلیت اولی ممنوع ہے۔ یعنی شرعی لحاظ سے یہ
قضیہ مانعۃ الخلو ہے۔ ۱۔دونوں کا جمع شریعت میں ممکن ہے: یعنی قرار ہو
اورتبرج نہ ہو۔ ۲۔ دونوں کا انخلا ء شریعت میں بالکل ناممکن(ناجائز) ہے:
یعنی قرار فی البیوت نہ ہونے کے ساتھ تبرج جاہلیت اولی بھی ہو۔ ۳۔قرار نہیں
ہے لیکن تبرج بھی نہیں ہے۔ اس کا امکان شریعت میں ہے مثلاً حاجات ضروریہ کے
لیے جانا۔ ۴۔ قرار ہے لیکن تبرج بھی ہے اس کا امکان بھی خاص صورتوں میں
ممکن ہے ، لہٰذا صرف قرار فی البیوت کو لے کر استدلال کرنا اس لیے صحیح
نہیں کہ اس سے حرج عظیم لاحق ہونے کا خطرہ ہے، جبکہ دین میں اﷲ جل شانہ نے
حرج کی گنجائش کو رد فرمایا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ عصر حاضر کی نظریاتی جنگ ’’الغزوالفکری‘‘ میں عالمی سطح
پر امت مسلمہ حالت اضطرار میں ہے۔ اس جنگ میں صرف مرد حصہ لے کر اسے جیت
نہیں سکیں گے ۔ اس میں امّہ کو اپنے جوان، بوڑھے، بچے، خواتین، دیسی،
پردیسی غرض کل افراد کو اپنی اپنی استطاعت کے مطابق جھونکنا ہوگا، تو تب
کہیں جاکر کامیابی کے امکانات ہوسکتے ہیں اور ملحوظ خاطر رہے کہ اس جنگ کا
اسلحہ تعلیم ہے جو آگے جاکر میڈیا وار اور جدید ٹیکنالوجی پر منتج ہے جن
میں سے ہر دو کا ہمارے پاس ذرہ برابر بھی توڑ نہیں۔ (وھو الأظہر کا لشمس في
نصف النہار)۔ حالانکہ حق سبحانہ و تقدس کا ارشاد ’’وأعدوا لہم……‘‘ اولاً
حتی الوسع تیاری کے حوالے سے ظاہر باہر ہے، جوثانیاً جاکر إرھاب الأعداء کا
سبب ہو، تو کیا بدقسمتی سے امت آج کل کئی جگہ اس کے برعکس عمل پیرا نہیں؟؟؟
عرض کا منشا یہ تھا کہ بنات اور مدراس بنات کا تعلق تعلیم سے ہے اور تعلیم
ہی اسلحہ ہے اور امّہ حالت جنگ کی اضطراری کیفیت میں ہے۔ نتیجہ صاف ظاہر
ہونا چاہیے۔ اور مدارس بنین پر تو یہود و ہنود و منافقین کی یلغار ہے ہی،
تو کیا ہم بنات کے حوالے سے گومگو کا شکار ہوکر انھیں بھی محدود کریں؟؟؟
معترضین میں سے اہل علم کی خدمت میں گذارش ہے کہ وہ’’ سورۃ عبس‘‘کے سبب
نزول پر بھی نگاہ فرمائیں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ امّہ کے وہ افراد
(بنات)جو تزکی وتذکر کے خواہاں ہیں، انہیں ہم بظاہر ہی سہی نظر انداز کررہے
ہوں۔ جس پر تنبیہ کے بعد جناب سرورکائنات صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ، حضرت
عبداﷲ بن ام مکتومؓ کویوں خوش آمدید فرماتے تھے: ’’(مرحباً باالذی عاتبني
فیہ ربي) اوکمال قال صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ‘‘ ۔
۳/اگست۲۰۰۰ء کو ’’دینی مدارس، درپیش چیلنجز‘‘ کے عنوان سے انسٹی ٹیوٹ آف
پالیسی اسٹیڈیز کے تحت ایک مجلس مذاکرہ منعقد ہوا جس میں دیگر اہل علم و
دانش کے علاوہ حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب بھی مدعو تھے، آخر میں اس
مذاکرے کے حوالے سے مولانا کا مندرجہ ذیل اقتباس پیش خدمت ہے، جس سے عصر
حاضر میں دینی مدارس بالعموم اور مدارس بنات بالخصوص کی طرف رجحان و میلان
کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ فرماتے ہیں:
’’مجلس مذاکرہ میں دینی مدار س کے دائرہ میں وسعت اور پھیلاؤ کا بھی ذکر
کیا گیا، کہ مختلف اطراف سے مخالفت کے باوجود دینی مدارس کی تعداد میں
مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور طلبہ و طالبات کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ایک مقررّ نے
اس کی وجہ یہ بتائی کہ ریاستی نظام تعلیم اپنے مقاصد کے حوالہ سے ناکام
ہوچکا ہے، کیونکہ لاکھوں ڈگری یافتہ ادارے بے روزگاری کا شکار ہیں۔اس لیے
اب نوجوان ادھر سے مایوس ہوکر دینی تعلیم کی طرف آرہے ہیں تاکہ اگر دنیا کا
فائدہ نہ ہو تو کم ازکم دین تو ہاتھ میں رہے۔ انھوں نے کہا کہ خود ان کی
زیرنگرانی ایک ہائی اسکول سے گذشتہ سال بیس طالبات نے میٹرک پاس کیا ، جن
میں سے پانچ طالبات کالج میں گئیں، جبکہ باقی پندرہ طالبات نے مزید تعلیم
کے لیے دینی مدارس کو ترجیح دی ۔‘‘
(’’دینی مدارس کی مثالی خدمات‘‘ص۴۵)
اس سے دینی مدارس خاص کر مدارس بنات کی طرف بھرپور رجوع کا اندازہ بخوبی
لگایا جاسکتا ہے۔
چھوٹا منہ بڑی کی جسارت ہے لیکن میں بصد ادب و ہزار احترامات عرض کروں گا
کہ بنات کے لیے بنین ہی کا نصاب مقرر فرما کر ان کے معیار تعلیم کو خوب سے
خوب تر بنایا جائے، نیز اس کام کے فریم ورک کو وسعت دیکر اسے مزید عمدہ
بنایا جائے تو گھر گھر ایکٹروں، موسیقاروں، فلموں اور ڈائجسٹوں کے بجائے
انبیاء کرام، بزرگان دین ، مشائخ عظام اور علوم دینیہ، اصطلاحات عربیہ،
تاریخ اسلامی، اسلامی کتب ، رسائل و مجلات کا غلغلہ ہوگا، تاکہ درون خانہ
اور ملکی سطح پر اس نظریاتی جنگ کے میدان کارزار میں بنات اور عالمی سطح پر
اس میں بنین برسرپیکار رہیں ،یوں اقبال کے آیندہ شعر میں اگرلفظ ’’غریبوں‘‘
کی جگہ ’’عورتوں‘‘ پڑھا جائے تو شاید بے جانہ ہو:
گرماؤ عورتوں کا لہو سوز یقیں سے
کنجشکِ فرومایہ کو شاہیں سے لڑادو |
|