دنیا کے پہلے انسان کا معلم خود اﷲ تبارک و تعالیٰ ہے اﷲ
رب العالمین نے آدم ؑ کو تمام اشیاء کے نام سکھا دئیے اس طرح سیکھنے کا عمل
انسان کی فطرت میں شامل کردیا انسان فطری طور پر جن چیزوں کو سیکھتا ہے اس
کا شمار ممکن نہیں انسان بنیادی طور پر نقال ہے وہ نقل اتارتا ہے اور اسی
عمل کے بار بار دھرانے سے وہ بہت کچھ سیکھ لیتا ہے۔
جب انسان اس دنیا میں آتا ہے تو آتے ہی سیکھنے کا عمل شروع کر دیتا ہے۔ بچہ
لاشعوری طور پر اپنے اردگرد کے ماحول سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ پہلے پہل ماں
کی گود سے پھر گھر سے پھر محلے اور ارد گرد کے ماحول سے۔ جیسا کہ مادری
زبان ، اگر دیکھا جائے تو مادری زبان بچے کو سکھائی نہیں جاتی بلکہ بچہ خود
بخود سیکھتا ہے اس کے علاوہ بہت ساری چیزیں نہ سکھانے کے باوجود سیکھ لیتا
ہے۔
اس کے بعد اسے اسکول یا مدرسے باقاعدہ طور پر تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیج
دیا جاتا ہے۔ جہاں اسے نئے ماحول کے ساتھ نئے لوگ ملتے ہیں ان لوگوں میں
ایک خاص انسان ہوتا ہے۔ وہ خاص انسان ایک معلم ہوتا ہے ۔ معلم یا استاد اس
شخصیت کو کہتے ہیں جو طلباء کے ذہنوں کو متحرک رکھے انہیں ان کی ذہنی سطح
کے مطابق نئی نئی معلومات فراہم کرے۔ علامہ اقبال نے استاد کے بارے میں کہا
ہے کہ ’’اساتذہ ہی طلباء میں خودی جیسے اوصاف پیدا کرتے ہیں‘‘۔
ایک استاد جہاں طلباء میں خودی جیسے اوصاف پیدا کر کے اسے ترقی کی منازل طے
کروانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے وہاں کبھی کبھی تنزلی کا سبب بھی بن جاتا
ہے آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایک استاد جو ترقی کی منازل طے کرواتا ہے وہ تنزلی
کا سبب کیسے بن سکتا ہے تو جناب وہ ایسے کہ کسی بھی معاشرے میں استاد کو
ایک خاص مقام حاصل ہوتا ہے ۔ جہاں استاد کسی بھی معاشرے کو سنوارنے میں اہم
کردار ادا کرتا ہے وہاں اس کی بگاڑ کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے۔
ایک استاد کا فرض طالب علم کو علم دینے کے ساتھ ساتھ اسکی اچھی تربیت کرنا
،نیکی کی ترغیب دینا ہے برائیوں کی نشاندہی کر کے ان سے روکنا ان کے
نقصانات سے آگاہ کرنا بھی اس کا حق ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں اکثر و
بیشتراساتذہ صرف کتابیں رٹوانا ہی اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ طلباء کو معاشرتی
برائیوں سے آگاہ کر کے ان کے نقصانات نہیں بتاتے جس کی وجہ سے معاشرے میں
برائیاں پنپتی ہیں لا محالہ اس کی ذمہ داری بھی اس استاد پر آتی ہے جو اس
اہم ذمہ داری سے غفلت کا مظاہر ہ کر رہا ہوتا ہے۔
معاشرے کی تمام اکائیوں کا تعلق علم سے ہے اور حصول علم کے لیے استاد اور
شاگرد کا ہونا شرط ہے۔ یہ تعلیمی ڈھانچے کے دو اہم ستون ہیں۔ استاد وہ ہستی
ہے جو فرد کی وقوفی اور ذہنی نشوونما کرتی ہے۔ ان کی نفسیات اور مسائل کو
سمجھ کر انہیں حل کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ تاریخ ایک استاد ہی کے
ذریعے آگے تسلسل کے ساتھ منتقل ہوتی ہے۔ اگر استاد نہ ہو تو تاریخ کبھی
تسلسل کے ساتھ آگے منتقل نہ ہو سکے۔
انسان کی عمر کوئی بھی ہو بچپن بلوغت یا بڑھاپا، جگہ جو بھی ہو مدرسہ
،اسکول، کالج یا یونیورسٹی، مواد کی نوعیت کیسی بھی ہو دینی دنیوی یا کوئی
ہنر استاد کی اہمیت مسلم ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ ہر جگہ ہر دور
میں استاد اپنا کردار ادا کرتا ہے۔
خونی رشتوں کے بعد اگر کوئی قابل اعتماد رشتہ ہے تو وہ استاد کا ہے ۔ اﷲ
تعالیٰ خود بھی ایک معلم ہے جس نے اپنے رسولوں اور فرشتوں کو علم دیا اور
اپنے انبیاء کو بھی معلم بنا کر بھیجا جیسا کہ خود رسول اﷲﷺ نے فرمایا۔
ترجمہ۔ ’’ بے شک مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے‘‘۔
اس لئے پیشہ معلمی ایک عظیم پیشہ ہے اور اساتذہ کو انبیاء کا وارث قرار دیا
گیا ہے۔ مگر افسوس کہ آج کل کچھ لوگوں نے اسے مذاق بنا لیا ہے۔ افسوس تو آپ
بھی کر رہے ہوں گے مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارا معاشرہ ایسے اساتذہ کی
وجہ سے تنزلی کا شکار ہے۔
ایک استادکا اپنے طالب علم کے ساتھ روحانی تعلق ہوتا ہے جو عظمت کی نشانی
ہے یہی تعلق معاشرے کو بہترین افراد فراہم کر سکتا ہے ۔ یہ ایسا تعلق ہوتا
ہے جس میں چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا کام کیا جاتا ہے ۔خودی،
ذہانت، ایمانداری جیسی چیزیں اس میں پروان چڑھتی ہیں، اچھائیوں میں اضافہ
ہونے کے ساتھ ساتھ ذہنی طور پر ایک صحت مند معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔
بلا شبہ استاد اور شاگرد کا رشتہ مفادات کا رشتہ ہوتا ہے۔ یہ دونوں مفاد
پرست ہوتے ہیں مگر یہ مفادات وہ مفادات نہیں جس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو
اور لوگ ایک دوسرے کے دشمن بنیں اور نفرتیں پروان چڑھنے لگے بلکہ یہ ایک
مقدس تربیتی رشتہ ہوتا ہے۔ اس میں ادب ، احترام، محنت، دیانت ،لگن اور علم
و ہنر حتیٰ کہ سب کچھ ہوتا ہے۔ مفادی تربیت مکمل ہونے کے بعد اپنی اپنی راہ
لے لی جاتی ہے۔اور ہر فرد معاشرے کو سنوارنے اور پہتر بنانے کے لئے اپنا
کردار ادا کرتا ہے۔ایسی مثالیں آپ کو بہت کم ملیں گی جس میں استاداور شاگرد
کا رشتہ مفاد ختم ہونے کے بعد بھی برقرار رہتا ہے۔ ایک انسان کے کئی استاد
ہوتے ہیں جو اس کی زندگی میں ایک مخصوص عرصے کے لیے اہم ہوتے ہیں مگر ان
میں سے کوئی ایک استاد ہمیشہ رہتا ہے یا وہ بھی نہیں۔
معاشرہ بھی استاد اور طلباء کے تعلق کو اچھا سمجھتا ہے اور قدر کی نگاہ سے
دیکھتا ہے کیوں کہ اس میں تقدس جیسا اعلیٰ وصف شامل ہوتا ہے۔
اور ہاں یہ ایک جذباتی تعلق ہوتا ہے مگر دائمی نہیں عارضی ۔ لیکن جذباتی
تعلق جتنا گہرا ہو تدریسی عمل اتنا ہی خوشگوار اور بہتر نتائج کا حامل ہو
تا ہے۔اگر استاد معاشرے کا عمیق مطالعہ کرے اور اس کی ضروریات کو سمجھ کر
افراد کی تیاری کا فریضہ سر انجام دے تو معاشرے کو پروان چڑھانے میں دیر
نہیں لگتی جاپان اور چین کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
|