لوگ کیا کہیں گے۔۔!!!
(Zulfiqar Ali Bukhari, Rawalpindi)
ارے یوں مت کرو! ایسا مت
کرو!ویسا مت کرو!لوگ کیا کہیں گے؟ اس حوالے سے ہم لوگ ہمیشہ ہی سوچتے رہتے
ہیں؟کس قدر بے حسی کی بات ہے کہ ہم نے کبھی یہ اپنے اعمال سرانجام دیتے
ہوئے نہیں سوچا ہوگا کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ جو ہمارے لئے ساری
ساری رات عبادت میں گذار کر ہمارے حق میں دعا کرنے کرتے تھے،وہ ہمارے بُرے
اعمال پر روزمحشر کیا محسوس کریں گے یا ہم اس حوالے سے اپنے رب کو کیا جواب
دیں گے؟روز مرہ زندگی کے تمام معاملات میں اکثر و بیشتر ہم یہی سوچ رکھتے
ہیں اور اپنی زندگی کو مزید مسائل کا شکار یہی سوچ رکھ کر بنا لیتے ہیں؟اس
حوالے سے مسکان خان کہتی ہیں کہ اگر ہم اپنے ارد گر د نظر ڈالیں تو ہر
انسان ہی ذہنی غلامی میں نظر آتا ہے۔لوگ کیا کہیں گے ہماری زندگیوں کے
المیوں میں سے ایک بڑا المیہ ہے ،کیونکہ اس نے ہم سے آزاد رہنے کا حق چھین
لیا ہے۔ہم بچپن سے لے کر بڑھاپے تک ہر دور میں زندگی کے ہر آگے بڑھنے والے
قدم پہ،اپنی منزل تک پہچانے والی سیڑھی کے ہر اک قدم پہ ہمیں ہر لمحہ یہی
خوف رہتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟مسکان خان اس حوالے سے مزید یہ کہتی ہیں کہ
حقیقت یہی ہے کہ ہماری پرورش ہی ایسے ماحول میں ہوئی ہے کہ ہمارے گھر کے
بزرگوں،بچے تک سے لے کر شعور رکھنے والوں تک سب میں یہ خوف بدرجہ اتم موجود
ہے کہ ہمارے قدم اُٹھانے پر لوگ کیا کہیں گے؟
میں یہاں اُن معاملات پر بات کروں گا جو کہ مجھے اہم لگ رہے ہیں ان میں سے
ایک تو لڑکیوں کی شادی کا معاملہ ہے۔بہت سے لوگ اگر کبھی چھوٹی بہن کا رشتہ
مانگ لیں تو اس وجہ سے اس کی شادی نہیں کرتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے کہ بڑی
گھر میں بیٹھی ہوئی ہے اور آپ نے چھوٹی کی شادی کر دی ہے؟اگر آپ حقائق کو
دیکھیں تو آج کل کے دورمیں یوں بھی لڑکیوں کی شادی ایک اہم مسئلہ بنتا جا
رہا ہے اور بہت سی لڑکیاں ایسی بھی ہیں جن کے بالوں میں چاندی اُتر جاتی ہے
مگر وہ پیا دیس نہیں سدھار پاتی ہیں۔اگرچہ اس میں بہت سے وجوہات کا دخل ہے
مگر اسمیں ایک بڑی وجہ کا مناسب رشتہ آنے کے باوجود بھی لڑکیوں کے والدین
کاانکے رشتہ نہ کرنا ہوتا ہے؟لیکن جہاں تک بات ہے کہ چھوٹی کی شادی نہیں
کرنی ہے کہ بڑی گھر میں ہے تو یہاں میری اپنی ناقص رائے یہ ہے کہ والدین نے
ایک نہ ایک دن تو اپنی بیٹی کی شادی کرنی ہے تو اگر اچھا رشتہ مل رہا ہے
اور اسکی عمر اس قدر ہے کہ اسکی شادی کر دینی چاہیے۔ تو اس حوالے سے لوگ کی
باتوں کو زیادہ اہمیت نہ دیں۔کیونکہ یہی لوگ ہی ہوتے ہیں جب کسی کی بیٹی کی
شادی دیر سے ہو رہی ہو یا نہ ہو پا رہی ہو تو کہتے ہیں کہ ’’کب تک بیٹی کو
گھر میں بیٹھا کر رکھوگے‘‘؟لوگ تو کسی طور پر بھی خوش نہیں ہوتے ہیں چاہے
ہم کتنا مرضی ہی کیوں نہ زور لگا لیں ،کہیں نہ کہیں کوئی کسر باقی رہ جاتی
ہے؟
دوسری طرف اگر کہیں لڑکا بن جہیز کے کسی لڑکی کو اپنے گھر میں لانا چا ہ
رہا ہو تو بھی اس حوالے سے بالخصوص لڑکے اور لڑکی کے گھروالوں کی طر ف سے
زور لگا یا جاتا ہے کہ جہیز تھوڑا بہت ضرور لیا جانا چاہیے ؟ یہاں بھی وہی
لوگ کیا کہیں گے کہ بہو جہیز نہیں لے کر آئی ہے یا پھر بیٹی/بہو کو جہیز
میں کچھ نہیں دیا ہے؟جیسے طعنے سننے کو لڑکے و لڑکی والوں کو ملتے ہیں؟ اب
یہاں ان باتوں کو کہنے والوں سے کہوں گا کہ کیا یہی ہمارے دین کی تعلیمات
ہیں جیسا کہ ہم لمبی چوڑی جہیز کی فہرستیں فراہم کر کے کسی پر ناحق بوجھ
ڈالتے ہیں؟ آپ شادی کی تقریبات کی مثال دیکھ لیں کتنے ہی غریب گھرانوں کی
بیٹیوں کی شادی اس رقم سے ہو سکتی ہے جو کہ محض نمود و نمائش کی خاطر خرچ
کر دی جاتی ہے ۔یہاں بھی سادگی سے شادی کرنے والوں کو طز کا نشانہ بنایا
جاتا ہے اور اسی وجہ سے لوگ کیا کہیں گے ،کا سوچ کر دھوم دھام سے شادی بیاہ
کی رسومات کی جاتی ہیں اور لاکھوں روپے محض چند گھنٹوں کے اندر اُڑا کر رکھ
دیے جاتے ہیں؟ محض لوگوں کی باتوں سے بچنے کے لئے اکثر ایسا کیا جاتا ہے؟
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہم لوگوں کی تو سن لیتے ہیں مگر اُس خدا کی نہیں
سنتے ہیں جو کہ ہماری شہ رگ سے بہت قریب ہے ؟نہ ہی ہم اس دین کی تعلیمات پر
عمل پیرا ہونے کا سوچتے ہیں جس کے ہم بڑے علمبردار بنے پھرتے ہیں،دنیا جہاں
میں مسلمان اپنے آپ کو کہلواتے ہیں مگر اچھا مسلمان بننے کی طرف نہیں جاتے
ہیں؟
کبھی کبھی ہم محض لوگوں کی باتوں سے جل بھن کر ایسا کام کرنے کا سوچتے ہیں
جو کہ ہم نہ بھی کریں تو ہمارے حق میں بہتر ہوتا ہے مگر ہم یہی سوچ کر کرنے
کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمیں لوگوں کی باتوں سے نجات مل سکے؟مگر اس میں ہمیں
کامیابی کم ہی ملتی ہے اور وقت بہت ضائع ہو جاتا ہے مگر ہم پھر اس تگ و دو
میں لگے رہتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے ؟ہم ایسا نہیں کر سکتے ہیں ہم ایسا کر
پائیں گے؟یہی خوشی فہمی ہمیں ایک دن ذلیل و رسوا بھی کرتی ہیں؟بہت سے لوگ
غیروں میں اچھا رشتے مل رہا ہو تو بھی انکو جانے دیتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں
گے؟ اپنوں میں اتنے قابل فخر تھے تو غیروں کو کیوں دی؟ بہت سے ناعاقبت
اندیش لوگ ایسے ہی مفکر دانشوروں کی باتوں میں آکر اس سے ہاتھ دھو بیٹھتے
ہیں اور بعدازں اگر کوئی مسئلہ ہو تو انکو یا اپنے آپ کو کوستے رہتے ہیں
مگر یہ بات پھر بھی نہیں سمجھ پاتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں کی بجائے اگر اﷲ کے
حکم کے مطابق چلتے تو یوں نہ ہوتا؟
میری ایک قاری بہن قراۃ العین نے اس حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے
کہا ہے کہ بہت سے لوگ اپنی بیٹیوں کو اس لئے بھی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے
بعد یا شادی کے بعد نوکری کی اجازت نہیں دیتے ہیں کہ لڑکی کو اس لئے پڑھایا
تھا کہ اُس سے نوکری کروانی تھی؟اس لئے وہ اپنی صلاحیتیں رکھنے کے باوجود
بھی گھر کے چولہے تک محدود رہتی ہیں کہ پھر انکے گھر والوں کو یا سسرال
والوں کو لوگ کیا کیا کہتے پھرتے ہیں سننا پڑتا؟ دوسری طرف ایک قاری بہن
نمل خان نے نشاندہی کروائی ہے کہ اکثر جب بھی لڑکیاں والدین سے تعلیم کے
بعد نوکری کا کہتی ہیں اور خواہش ظاہر کرتی ہیں کہ وہ باہر جا کر کچھ کمائی
کر لیں تو والدین اکثر اس بات پر انکار کرتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے؟ بہت
سے نوجوان پاکستان میں رہ کر معمولی نوکری نہیں کرنا چاہتے ہیں مگر باہر
یورپی ممالک میں جاکر ادنیٰ سی نوکری بڑے فخر سے کرتے ہیں اوریہاں اپنے آپ
کو پاکستان میں رشتے داروں کے سامنے یوں ظاہر کرتے ہیں جیسے وہاں کے لوگوں
پر حکمرانی کرتے ہوں؟محض اس وجہ سے کہ لوگ کیا کہیں گے باہر جا کر بھی یہ
کام کرنا تھا تو باہر کیوں گئے ؟ دوسری طرف قبائلی علاقہ جات میں بھی
لڑکیوں کو اسکول نہیں بھیجا جاتا ہے کہ قدیم روایات کے مالک لوگ کیا کہیں
گے کہ لڑکی کو کیوں پڑھنے کے لئے بھیج دیا ہے؟
آخر ہم کب تک دوسروں کی سنتے رہیں گے ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب
ہمارے پاس ہے بھی تو بھی اس کا جواب ہم جاننا نہیں چاہتے ہیں؟جو جانتے بھی
ہیں وہ بھی محض لوگوں کے ڈر سے چپ رہتے ہیں اور جو اﷲ سے نہیں ڈرتا وہ
لوگوں سے ہی ڈرا کرتا ہے اور جب تک اﷲ کا ڈر نہیں ہوگا تب تک ہم کو لوگ کیا
کہیں گے! کا خوف ہمیشہ ایسے کام کرنے پر اُکساتا رہے گا جو اس کے حکم کے
خلاف ہونگے یا ایسے ہونگے جو کہ فائدہ کا سبب بننے والے ہونگے؟اگر ہم یہ
سوچنا چھوڑ دیں کہ لوگ کیا کہیں گے تو نہ صرف ہم خود بلکہ اپنے ساتھ تعلق
رکھنے والوں کو بھی اس کی غلامی سے نجات دلا سکتے ہیں بلکہ مستقبل میں آنے
والی نسلوں کو بھی اس سے محفوظ رکھ سکتے ہیں اور انکی زندگیوں کے لئے اس
عذاب سے نجات دلا کر راستہ آسان بنا سکتے ہیں۔آخر میں صرف ایک چھوٹی سی بات
کہ اگر ہم یہ سوچنا شروع کر دیں کہ لوگ کیا کہیں گے؟ تو لوگ کیا کر لیں
گے؟یہ لوگوں کا کام ہے یہ اُن کو کرنے دیں اور اپنی زندگی کو اپنی سوچ کے
مطابق آسان بنائیں ،کل کو کوئی آپ کے مسائل حل کرنے کو نہیں آئے گا ۔آپ کو
اپنے مسائل تنہا حل کرنے ہونگے تو لوگوں کی بجائے اپنے زوربازو پر یقین
کامل کے ساتھ اپنے کاموں کو سرانجام دیں۔ |
|