خدا کی بنائی کوئی چیز بےکار نہیں

وہ جنگل میں سب سے بڑا ہاتھی تھا اور اُس وقت اپنے ریوڑ کے ساتھ جنگل میں مٹر گشت کررہا تھا۔ وہ گھنے درختوں سے گزرتا ہوا اُن پر لگے ہوئے مختلف پھل اور پتے توڑ توڑ کر کھا رہا تھا۔ اُن ہاتھیوں کے گزرنے سے ایسا لگ رہا تھا جیسے زمین ہل رہی ہو۔ اتنے میں سامنے درخت کی شاخ سے چمٹا ہوا ایک گھونگا ان کی دھمکا چوکڑی کی وجہ سے زمین پر گرپڑااورلڑھکتا ہواعین وہاں آن پہنچا جہاں یہ ہاتھی موجود تھے۔ وہ بہت ہی پیارا گھونگا تھا اُس کا رنگ پیلا اور بھورا تھا اور اس کی کمرپر بڑا ساخول تھا جسے وہ ہر وقت کمرپر اٹھائے ہوئے پھرتا تھا۔وہ زمین پر لوٹ پوٹ ہو رہا تھا کہ ہاتھی نے اُسے زمین پر دیکھ لیا ورنہ ہو سکتا ہے اُس کا بڑاپائوںگھونگے کو مسل دیتا اُس نے اپنا پائوں ہوا میں بلند ہی رکھا لیکن جب اُس نے دیکھا کہ یہ تو ایک حقیر گھونگا ہے تو قریب تھا کہ وہ پائوں نیچے رکھتا اور گھونگا اپنی جان سے جاتا۔ اُسی وقت گھونگے نے پوری قوت سے چلا کر ہاتھی سے اپنی زندگی بخشنے کی التجا کی۔ خدا کے واسطے!اپنا پائوں مجھ پر رکھنے کی بجائے ادھر اُدھر رکھ لو تاکہ میں رینگ کر تمہارے راستے سے ہٹ جائوں۔ میں نے تمہارا کچھ نہیں بگاڑا۔ خدارا مجھ پر ترس کھائو تم ایک عظیم جانور ہو ۔ ہاتھی ظالم نہیں تھااس نے اپنا پائوں گھونگے کو بچاتے ہوئے ایک طرف زمین پر رکھ کر پیلے اور بھورے گھونگے کو گزرنے کے لئے راستہ دے دیا۔ گھونگے نے ہاتھی کا بہت بہت شکریہ ادا کیا اور جاتے ہوئے ہاتھی کو کہنے لگا کہ کبھی موقعہ ملا تو اس احسان کا بدلہ وہ ضرورچکائے گا۔ہاتھی کا قہقہہ نکل گیا وہ زور سے چنگھاڑا اور کہنے لگا کہ تم جیسا حقیر جانور آخر کس طرح میرے کام آ سکتا ہے؟تم اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو۔ اے گھونگے!گھونگے نے ہاتھی کو کوئی جواب نہیں دیا اور خاموشی سے رینگتا ہوا ایک درخت کی شاخ پر چڑھ گیا کہ کہیں ہاتھی اپنا ارادہ تبدیل نہ کرلے۔ جنگل کے تمام چھوٹے جانوروں کی طرح وہ بھی ہاتھیوں کے ریوڑ سے بہت خوفزدہ تھا۔ اِس بات کو کئی ہفتے گزر گئے۔ ایک دفعہ جنگل میں چند شکاری آ گئے۔ وہ جنگل میں ہاتھیوں کو پکڑنے آئے تھے تاکہ انہیں سدھا کر اُن سے بار برداری کا کام لیا جا سکے۔ انہوں نے جنگل میں ایک کھلی جگہ دیکھ کر وہاں ایک باڑہ بنایا جس کے چاروں طرف بڑی مضبوط باڑ لگائی اور اس باڑے میں داخلے کے لئے بڑے سے گیٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ پھر انہوں نے خوشی سے ایک دوسرے سے مشورہ کیا کہ انہیں پتا ہے کہ ہاتھیوں کا ریوڑ اس وقت کہا ں ہے؟ ہم ہانک کر انہیں گھیر کے اس باڑے میں داخل کریں گے۔ جیسے ہی وہ باڑے میں داخل ہوں گے ہم باڑے کا گیٹ بند کرلیں گے اور پھر ہاتھی اُس باڑے سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔ لہٰذا اگلے دن شکاری ہانکاکرنے والوں کو لے کر ہاتھیوں کی تلاش میں روانہ ہو گئے لیکن ہاتھیوں کا جھُنڈ تب تک خاصی دور نکل چکا تھا۔ ماسوائے اُن تین ہاتھیوںکے جو اس جھنڈ سے بچھڑ گئے تھے۔ ان تین ہاتھیوں کو شکاریوں نے ہانکا کرکے باڑے میں قید کر لیا۔ تینوں ہاتھی سونڈیں اُٹھا کر چنگھاڑتے رہے۔ اُنہیں معلوم تھا کہ اب وہ قیدی ہیں اُنہوں نے زور لگا کر پہلے باری باری گیٹ توڑنے کی کوشش کی مگر بات نہ بننے پر پھر وہ اکٹھے زور لگاتے رہے لیکن گیٹ بہت مضبوط تھا وہ اسے نہ توڑ سکے۔ انہیں اس حقیقت کا علم تھا کہ ایسا گیٹ پوراہاتھیوں کا جھنڈاکٹھا ہو کر توڑ سکتا ہے۔ ان ہاتھیوں میں سے ایک ہاتھی وہ تھا جس نے گھونگے پر مہربانی کی تھی لیکن وہ ہاتھی اس گھونگے کو کب کا بھلا چکا تھا۔ لیکن گھونگا وہ مہربانی نہیں بھولا تھا۔ اُس نے جب ہاتھی کی چنگھاڑ سنی وہ اس جگہ سے نکلا جہاں وہ چھپا بیٹھا تھا اور آہستہ آہستہ رینگتا ہوا باڑے کی ایک دیوار پر جا پہنچا جہاں ہاتھی قید تھا۔ دیوار کی دوسری طرف ہاتھی کھڑا تھا گھونگے نے فوراً اسے پہچان لیا اس نے ہاتھی سے پوچھا کہ میرے دوست تم کیوں اتنا زور سے چنگھاڑرہے ہو کیونکہ میں قید میں ہوں اور میں یہاں سے نہیں نکل سکتا ہاتھی نے منہ بسورتے ہوئے گھونگے کو بتایا ۔ کیا میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں ۔ گھونگے نے ہاتھی سے پوچھا تو ہاتھی کی ہنسی نکل گئی۔ہرگز نہیں تم جیسا گھونگا میرے لئے کیا کر سکتا ہے۔ کیا تم باڑ کو توڑ سکتے ہو؟کیا تم گیٹ کھول سکتے ہو نہیں تم ایک بے کار گھونگے ہو اور کچھ نہیں کر سکتے۔ ہاتھی نے گھونگے کا مذاق اُڑایا۔ لیکن کیا دوسرے ہاتھی تمہاری مدد کر سکتے ہیں؟ گھونگے نے پوچھا ہاں ضرور۔بشرطیکہ وہ اُدھرہوئے لیکن اب انہیں کیا پتا میں کہاں قید ہوں اگر ہاتھیوں کا پورا غول ادھر آکر زور لگائے تو یہ گیٹ ٹوٹ سکتا ہے لیکن جب تک وہ ادھر آئیں گے مجھے اور دوسرے دونوں ساتھیوں کو شکاری یہاں سے لے جائیں گے ہاتھی نے افسردہ لہجے میں کہا۔ لیکن میرا خیال ہے کہ میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں مجھے معلوم ہے کہ میں بہت ہی آہستگی سے رینگتا ہوں لیکن اگر تم مجھے بتائو کہ میں دوسرے ہاتھیوں کو کہاں تلاش کر سکتا ہوں تو ہو سکتا ہے میں انہیں وقت پر ادھر لے آئوں اور وہ گیٹ توڑ کر تمہیں آزاد کروالیں۔ گھونگے نے ہاتھی کو دوبارہ مجبور کیا۔ ہاتھی نے حیران ہو کر پیلے اور بھورے گھونگے کی طرف دیکھا۔ تم بہت اچھے ہو مگر تم اتنے سست رفتار ہو کر تمہیں تو میرے ساتھیوں کو لاتے ہوئے ہفتے لگ جائیں گے۔ ہاتھی نے مایوسی سے کہا۔ بہر کیف میں کوشش تو کرسکتا ہوں۔ گھونگے نے کہا تو مجبوراً ہاتھی نے غول کے متعلق بتایا کہ وہ کہاں سستا رہے ہوں گے۔ لہٰذا گھونگا دیوار سے نیچے اُترا اور جنگل کی گھاس میں غائب ہو گیا۔ واقعی گھونگابہت سست جانور ہے لیکن راستے میں اس نے ایک لمحہ بھی آرام نہیں کیا۔ اس نے لمبی چونچ والے پرندوں پر بھی مستقل آنکھ رکھی کہ کہیں کوئی اسے اٹھا کر نہ لے جائے۔ وہ مسلسل رینگتا رہا اور گھاس پر اس کے رینگنے سے ایک لکیر سے بنتی رہی۔ وہ سارا دن اور ساری رات سفر کرتا رہا۔ آخر وہ اتنا تھک گیا کہ مزید آگے سفر کرنے کی اس میں ہمت نہ رہی۔ لیکن اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی جب قریب ہی اس نے ہاتھیوں کے چنگھاڑنے کی آوازیں سنیں۔ وہ ایک درخت پر چڑھ کران کا انتظار کرنے لگا۔ ہاتھیوں کا ریوڑ اسی کی طرف آ رہا تھا جیسے ہی سب سے پہلا ہاتھی اس درخت کے نیچے سے گزرنے لگا جس پر گھونگا براجمان تھا تو اس نے ہاتھی کومتوجہ کرکے اسے بتایا کہ اس کے تین ساتھیوں کو شکاریوں نے باڑے میں قید کر رکھا ہے۔ اگر تم سارا غول لے کر وہاں جلدی ہی جائو تو ان کو آزاد کروا سکتے ہو۔ہاتھی نے یہی بات سارے غول کو بتائی۔ہاتھیوں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ وہ سب قیدی ہاتھیوں کو چھڑانے کے لئے تیار ہو گئے انہوں نے گھونگے کو راستہ دکھانے کے لئے کہا۔ سب سے اگلے ہاتھی نے گھونگے کو اپنے سر پر بٹھا لیا۔ تاکہ وہ انہیں راستہ بتاتا رہے۔ گھونگے نے کبھی خواب میں بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ ایک دن وہ کسی ہاتھی کے سر پر بیٹھ کر اس پر سواری کرے گا۔ ہاتھیوں کے غول نے اتنی تیزی سے واپسی کا سفر طے کیا کہ وہ شام ہونے سے قبل ہی باڑے تک پہنچ گئے۔جس ہاتھی کے سر پر گھونگا سوار تھا اس نے باقی ہاتھیوں کو بتایا کہ رات ہو جائے گی تو ہم باڑ کی ایک دیوار کو سب اکٹھے زور لگا کر گرادیں گے۔ اب سب نزدیک ہو جائو اور جب میں چنگھاڑماروں تو سب میرے ساتھ مل کر زور لگائیں گے۔ پیارے گھونگے مہربانی کرکے سے اب تم میرے سر سے اتر جائو تاکہ کہیں تمہیں چوٹ نہ لگ جائے۔ آج تم نے دوستی کا حق ادا کر دیا ہے۔ ہاتھی نے گھونگے کو کہا تو وہ خاموشی سے ہاتھی کے سر سے اتر کر جھاڑیوں میں چھپ گیا اور وہاں سے انتہائی جوش وخروش سے بیٹھا تماشا دیکھنے لگا۔ پھر ایک چنگھاڑ کی آواز آئی اور سارے غول کے ہاتھیوں نے دیوار گرانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ ہاتھیوں کے زور سے دروازہ اس طرح ٹوٹ گیا جیسے گتے کا بنا ہوا ہو۔ پھر ہاتھیوں کا غول مڑا اور جنگل میں گھس گیا اس غول میں اب وہ تین ہاتھی بھی شامل تھے جو اس سے پہلے قید تھے۔ اور اب آزاد ہو کر باقی ہاتھیوں کے ہمراہ خوشی سے چنگھاڑتے ہوئے جا رہے تھے۔شکاری حیران پریشان تھے اورایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے کہ وہ کون ہے جنہوں نے ہاتھیوں کے پکڑے جانے کی اطلاع باقی ہاتھیوں کو پہنچائی اور ہاتھیوں کو کیسے علم ہوا کہ ان کے باقی ساتھی کہاں قید ہیں؟پیلے اور بھورے گھونگے نے دل میں سوچا کہ ان سوالات کا جواب صرف وہ دے سکتا ہے لیکن وہ کبھی نہیں بتائے گا کہ اپنے دوست کی مدد اس نے کی ہے۔ قیدی ہاتھی گھونگے کا بہت مشکور تھا۔اس نے معافی مانگی کہ وہ اس کا مذاق اڑاتا رہا ہے مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تم پر ترس کھا کر میں اپنی جان بچارہا ہوں اور تم جیسی ننھی منی چیز میری جان بچا سکتی ہے۔کسی کو حقیر نہیں سمجھنا چاہئے کبھی خدا کی بنائی کوئی ننھی منی چیز بھی کسی کے کام آ سکتی ہے۔ گھونگے نے ہنستے ہوئے ہاتھی کی طرف دیکھا اور لمبی گھاس میں گم ہو گیا۔
Abdul Rehman
About the Author: Abdul Rehman Read More Articles by Abdul Rehman: 216 Articles with 274569 views I like to focus my energy on collecting experiences as opposed to 'things

The friend in my adversity I shall always cherish most. I can better trus
.. View More