حقیقت میلاد النبی - چھبیسواں حصہ

میلادِ انبیاء علیہم السلام کی اہمیت:-

ولادت ہر انسان کے لیے خوشی و مسرت کا باعث ہوتی ہے۔ اس حوالے سے یومِ پیدائش کی ایک خاص اہمیت نظر آتی ہے، اور یہ اہمیت اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب ان دنوں کی نسبت انبیاء کرام علیہم السلام کی طرف ہو۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی ولادت فی نفسہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی نعمتِ عظمیٰ ہے۔ ہر نبی کی نعمتِ ولادت کے واسطہ سے اس کی اُمت کو باقی ساری نعمتیں نصیب ہوئیں۔ ولادتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے امتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بعثت و نبوتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعمتِ ہدایتِ آسمانی اور وحی ربانی کی نعمتِ نزولِ قرآن اور ماہ رمضان کی نعمت، جمعۃ المبارک اور عیدین کی نعمت، شرف و فضیلت اور سنت و سیرتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعمت، الغرض جتنی بھی نعمتیں ایک تسلسل کے ساتھ عطا ہوئیں، ان ساری نعمتوں کا اصل مؤجب اور مصدر ربیع الاوّل کی وہ پرنور، پرمسرت اور دل نشین و بہار آفریں سحر ہے جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت ہوئی اور وہ بابرکت دن ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس دنیائے آب و گل میں تشریف آوری ہوئی۔ لہٰذا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت پر خوش ہونا اور جشن منانا ایمان کی علامت اور اپنے آقا نبی محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ قلبی تعلق کا آئینہ دار ہے۔

قرآن مجید نے بعض انبیاء کرام علیہم السلام کے ایام ولادت کا تذکرہ فرما کر اس دن کی اہمیت و فضیلت اور برکت کو واضح کیا ہے :

1۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے حوالے سے ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

وَسَلاَمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّاO

’’اور یحییٰ پر سلام ہو، ان کے میلاد کے دن اور ان کی وفات کے دن اور جس دن وہ زندہ اٹھائے جائیں گےo‘‘

مريم، 19 : 15

2۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف کلام کی نسبت کر کے قرآن مجید فرماتا ہے :

وَالسَّلاَمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّاO

’’اور مجھ پر سلام ہو میرے میلاد کے دن اور میری وفات کے دن اور جس دن میں زندہ اٹھایا جاؤں گاo‘‘

مريم، 19 : 33

3۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا ذکر مبارک قسم کے ساتھ بیان فرمایا۔ ارشاد فرمایا :

لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِO وَأَنتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِO وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَO

’’میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوںo (اے حبیبِ مکرّم!) اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیںo (اے حبیبِ مکرّم! آپ کے) والد (آدم یا ابراہیم علیہما السلام) کی قَسم اور (ان کی) قَسم جن کی ولادت ہوئیo‘‘

البلد، 90 : 1 - 3

اگر ولادت کا دن قرآن و سنت اور شریعت کے نقطہ نظر سے خاص اہمیت کا حامل نہ ہوتا تو اس دن پر بطور خاص سلام بھیجنا اور قسم کھانے کا بیان کیا معنی رکھتا ہے؟ لہٰذا اسی اہمیت کے پیشِ نظر اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں بہت سے انبیاء کرام علیہم السلام کے میلاد کا ذکر فرمایا ہے۔ بطور حوالہ ذیل میں چند جلیل القدر انبیاء علیہم السلام کے میلاد کا تذکرہ کیا جاتا ہے :

1۔ میلاد نامہ آدم علیہ السلام:-

اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اپنے محبوب اور برگزیدہ بندوں میں سے سب سے پہلے ابو البشر سیدنا آدم علیہ السلام کی پیدائش کا ذکر فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً.

’’اور (وہ وقت یاد کریں) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔‘‘

اﷲ رب العزت نے سیدنا آدم علیہ السلام کے میلاد کا ذکر ان کی تخلیق سے بھی پہلے فرما دیا، جس کا ذکر مذکورہ بالا آیتِ کریمہ میں ہوا ہے۔ پھر جب خالقِ کائنات نے آدم علیہ السلام کے پیکرِ بشری کی تخلیق فرمائی اور تمام فرشتوں کو اس کے آگے سجدہ ریز ہونے کا حکم دیا تو ابلیس نے نافرمانی کی اور راندہ درگاہ ہوا۔ تخلیقِ آدم علیہ السلام کی اس پُرکیف داستان کا ذکر قرآن مجید نے تفصیلاً کر دیا ہے :

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِّن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍO فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُواْ لَهُ سَاجِدِينَO فَسَجَدَ الْمَلآئِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَO إِلاَّ إِبْلِيسَ أَبَى أَن يَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَO

’’اور (وہ واقعہ یاد کیجئے) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایاکہ میں سن رسیدہ (اور) سیاہ بودار، بجنے والے گارے سے ایک بشری پیکر پیدا کرنے والا ہوںo پھر جب میں اس کی (ظاہری) تشکیل کو کامل طور پر درست حالت میں لاچکوں اور اس پیکر (بشری کے باطن) میں اپنی (نورانی) روح پھونک دوں تو تم اس کے لیے سجدہ میں گر پڑناo پس (اس پیکرِ بشری کے اندر نورِ ربانی کا چراغ جلتے ہی) سارے کے سارے فرشتوں نے سجدہ کیاo سوائے ابلیس کے، اس نے سجدہ کرنے والوں کے ساتھ ہونے سے انکار کر دیاo‘‘

الحجر، 15 : 28 - 31

قرآن مجید میں متعدد مقامات پر حضرت آدم علیہ السلام کا ذکر تفصیل کے ساتھ کیا گیا ہے، صرف پیدائش کا ہی نہیں بلکہ ان کی حیاتِ طیبہ کے کئی پہلوؤں کا ذکر موجود ہے، جیسے جنت میں ان کے رہن سہن، تخلیقِ آدم پر فرشتوں کے خیالات، شیطان مردود کا اعتراض اور پیکرِ آدم کو سجدہ نہ کرنے کا ذکر بھی تفصیل سے کیا گیا ہے۔ انسانی تخلیق سے متعلق جتنی آیات ہیں ان کا اوّلین مصداق سیدنا آدم علیہ السلام ہیں جن کے احوال کو تفصیل سے قرآنِ مجید کی زینت بنایا گیا ہے۔ یہی ان کا ’’میلاد نامہ‘‘ ہے۔

جاری ہے---
Mohammad Adeel
About the Author: Mohammad Adeel Read More Articles by Mohammad Adeel: 97 Articles with 93420 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.