خطرے کی گھنٹی

تحریک انصاف نے ایک اور معرکہ جیت لیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے گڑھ میں کامیاب جلسہ کوئی معمولی کامیابی نہیں۔ لاڑکانہ کے نواحی قصبے علی آباد میں تحریک انصاف کے جلسے کو حالات اور زمینی حقائق کی روشنی میں غیر معمولی کامیابی قرار دینے میں کوئی ہرج نہیں۔ عمران خان کو دیکھنے اور سُننے کے شوقین اہل سندھ نے خاصے جوش و خروش اور خاموشی سے پیغام دے دیا ہے کہ اُنہیں نئی قیادت درکار ہے جو تازہ دم بھی ہو اور کچھ کرنے کا عزم بھی رکھتی ہو۔

پیپلز پارٹی کے گڑھ میں تحریک انصاف کے جلسے کو کامیابی سے ہمکنار تو ہونا ہی تھا۔ پیپلز پارٹی اِس بار بھی توقعات پر پوری اترنے میں ناکام رہی ہے۔ عملی سطح پر اُس نے ایسا کچھ نہیں کیا جس کی بنیاد پر کہا جاسکے کہ وہ عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے میں زبانی دعووں سے آگے جانا چاہتی ہے۔ ایک بڑی جماعت کے ایسے رویّے کا صرف ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔

پیپلز پارٹی کے لیے حقیقی لمحۂ فکریہ آچکا ہے۔ زمینی حقائق کے ادراک میں وہ اب تک ناکام رہی ہے۔ یا شاید یہ اُس کی ’’شانِ بے نیازی‘‘ ہے! عوام اب محض وعدوں اور دعووں سے بہلنے کو تیار نہیں۔ اُنہیں اور بہت کچھ درکار ہے۔ خوش کن نعروں سے اُن کا پیٹ نہیں بھرے گا۔ عمل کی دُنیا میں بھی کچھ تو دکھائی دینا چاہیے۔

تجزیہ کاروں نے پیپلز پارٹی کو ڈرانا شروع کردیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ تحریک انصاف خطرے کی گھنٹی ہے، وہ سندھ میں تیسری قوت کی حیثیت سے اُبھر رہی ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر تحریک انصاف ایسے ہی مزید تین چار جلسے کرنے میں کامیاب ہوگئی تو لوگ اُسے سندھ میں تیسری یا پیپلز پارٹی کی متبادل قوت کے طور پر قبول کرلیں گے۔

جی تو چاہتا ہے کہ ہم تجزیہ کاروں کی سادگی پر مِٹ جائیں۔ پیپلز پارٹی کوئی ایسی گئی گزری جماعت نہیں کہ دو چار ’’چھوٹے موٹے‘‘ جلسوں سے خوفزدہ ہوکر میدان چھوڑ دے۔ جیالوں نے ڈرنا سیکھا ہی نہیں۔ حد یہ ہے کہ وہ کسی بھی معاملے کے انجام سے باخبر ہونے پر بھی اپنی روش ترک نہیں کرتے! اب اِسی بات کو لیجیے کہ جن لوگوں کا پیپلز پارٹی سے کوئی تعلق نہیں وہ اِس کے انجام کے بارے میں سوچ سوچ کر لرزاں و ترساں ہیں مگر خود جیالوں کو بظاہر کچھ پروا نہیں!

ٹیکنالوجی کے شعبے میں روز افزوں ترقی نے کئی کام آسان کردیئے ہیں۔ بہت سے کام کم محنت سے اور کم وقت میں ہو رہے ہیں۔ اور اِس کے نتیجے میں لوگوں کو فراغت نصیب ہو رہی ہے۔ سیاسی اُمور پر غور کرنے والے بھی فراغت کے کُلیے سے مستثنٰی نہیں۔ پیپلز پارٹی نہ ہوتی تو اﷲ جانے اُنہیں میسر ہونے والی فراغت کا کیا ہوا ہوتا۔ اب تجزیہ کاروں کا بیشتر وقت پیپلز پارٹی کے مستقبل کے بارے میں اٹکل کے گھوڑے دوڑانے میں صرف ہوتا ہے!

جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ تحریک انصاف نے پیپلز پارٹی کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے اُنہیں شاید یہ اندازہ ہی نہیں کہ جیالے کسی سے نہیں ڈرتے، خوف نہیں کھاتے۔ ڈرتے تو وہ ہیں جو سوچتے ہیں! جیالوں کو سوچنے کی فُرصت ہے نہ عادت۔ اُن کا کام تو صرف جی داری کا مظاہرہ کرنا ہے۔ خطرے کی گھنٹی بجے یا گھنٹہ، وہ جیالا ہی کیا جو ٹس سے مس ہوجائے!

سندھ میں دیہی اور شہری کی تقسیم اِس قدر جڑ پکڑ چکی ہے کہ فی الحال اِس کے ختم ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ رات دن ایسے حالات کو پروان چڑھایا جارہا ہے جن کے ہاتھوں یہ تقسیم مزید پختہ ہوتی جاتی ہے۔

خطرے کی گھنٹی بجتی ہے تو بجتی رہے، سندھ میں جنہوں نے اپنے لیے کوئی ڈگر مختص کرلی ہے اُنہیں یقین ہے کہ حمایت کا دریا بہتا رہے گا، ووٹ بینک برقرار رہے گا۔ سندھ میں دیہی اور شہری کی تقسیم ہی نے یہاں کے سیاسی اسٹیک ہولڈرز کا ووٹ بینک برقرار رکھا ہے۔

سندھ میں جب بھی کسی تیسری قوت کے اُبھرنے کا امکان پیدا ہونے لگتا ہے، اسٹیک ہولڈرز اپنے اپنے ووٹ بینک کو توانا کرنے کے لیے میدان میں نکل آتے ہیں۔ ذرا اندازہ لگائیے کہ ووٹ بینک کو نئی زندگی کیسے دی جاتی ہے؟ جی نہیں، آپ کا اندازہ غلط ہے۔ کارکردگی بہتر بنانے کا تو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اور گڈ گورننس بھی کوئی لازمی چیز نہیں۔ اپنے اپنے ووٹ بینک کو توانا کرنے کے لیے لوگوں کو ایک دوسرے سے ڈرانا ہی کافی ہے! جب ایک کمیونٹی دوسری سے یا دیگر کمیونٹیز سے خوفزدہ ہو تو اپنے نمائندوں کی کارکردگی کے بہتر ہونے کا انتظار کئے بغیر اُنہیں پہلے سے بھی بڑھ کر حمایت سے نوازتی ہے۔ اُسے ایسا کرنے پر مجبور کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی ’’ہَوّا‘‘ کھڑا کیا جاتا ہے کہ فلاں کمیونٹی کھاجائے گی یا فلاں گروپ تمام حقوق سلب کرلے گا۔

جب نوکری پکّی ہوگئی ہو تو لوگ کام پر زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ ایک سندھ پر کیا موقوف ہے، پورا ملک اِسی نوعیت ہے۔ یہی حال سیاست کا بھی ہے۔ اگر حالات کے جبر کی مہربانی سے ووٹ بینک پکّا ہوگیا ہو تو کسی کے آنے سے خوف محسوس ہوتا ہے نہ جانے سے۔ اگر سیاسی جماعتوں کا ووٹ بینک پکّا ہو تو عام انتخابات میں اُسے ملنے والا مینڈیٹ ’’کھمبا ووٹ‘‘ کہلاتا ہے۔ یعنی ووٹ بینک اِس قدر مضبوط ہے کہ کھمبے کو بھی امیدوار بنایا جائے تو اُسے ووٹ ملیں گے! یہ ’’کھمبا ووٹ‘‘ کی مہربانی ہے کہ کسی سیاسی جماعت پر حد سے بڑھ کر مہربان ہونے والے بعد میں کھسیانی بِلّی کی طرح کھمبے نوچتے رہ جاتے ہیں!

وقت آگیا ہے کہ لوگ سوچنے کے آپشن کو اپنائیں اور ’’کھمبا ووٹ‘‘ کی ذہنیت ترک کریں۔ جو لوگ مینڈیٹ کا حق ادا نہ کرپائیں اُن سے گلو خلاصی ناگزیر ہے۔ نئی قوتوں یا نئے لوگوں کو آزمانے میں کچھ ہرج نہیں۔ سندھ میں گورننس کا مسئلہ ایک زمانے سے ہے اور حل ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ جنہیں لوگ عشروں سے ووٹ دیتے آرہے ہیں اُنہوں نے مسائل حل کرنے میں خاطر خواہ دلچسپی نہیں لی۔ بھاری مینڈیٹ لے کر پدھارنے والے اپنی جیبیں اور تجوریاں بھرتے ہیں اور ہاتھ جھاڑ کر چل دیتے ہیں۔ اُنہیں اپنے امکانات کے معدوم ہونے کی ذرّہ بھر فکر لاحق نہیں ہوتی، ووٹ بینک کے کمزور پڑنے کا خوف دامن گیر نہیں ہوتا۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی خوف ووٹرز کو پھر اُن کی طرف لے آئے گا۔ جو خود کو اسٹیک ہولڈرز کہتے نہیں تھکتے وہ عمل کی دُنیا میں ایسا کچھ نہیں کرتے جس سے اندازہ ہو کہ اُنہیں اپنے اسٹیکز کا کچھ خیال ہے!

تیسری قوت محض جلسوں کی کوکھ سے جنم نہیں لے سکتی۔ تحریک انصاف واقعی خطرے کی گھنٹی بننا چاہتی ہے تو اُسے خیبر پختونخوا میں کچھ نہ کچھ ڈلیور کرنا ہوگا۔ نمونہ دکھائی دے گا تو لوگ بڑھ کر تحریک انصاف کے قدم چُومیں گے۔ خیبر پختونخوا پر حکمرانی تحریک انصاف کے لیے ٹیسٹ کیس بھی ہے اور لِٹمس ٹیسٹ بھی۔ خیبر پختونخوا میں کچھ کر دکھانے پر تحریک انصاف کو مال بیچنے کے لیے وعدوں اور دعووں کا منجن نہیں بیچنا پڑے گا۔ اور اگر وہ خیبر پختونخوا میں کچھ نہ کر پائی، عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے میں ناکام رہی تو خود اُس کے لیے خطرے کی گھنٹی بج جائے گی۔ فکر ہو یا عمل، دونوں معاملات میں تحریک انصاف کے لیے یہ آزمائش کی گھڑی ہے۔ وہ سندھ میں تیسری قوت بن سکتی ہے اور پیپلز پارٹی کی متبادل بھی ثابت ہوسکتی ہے مگر اِس کے لیے زمینی حقائق نظر انداز نہیں کئے جاسکتے۔ لوگ عمل کی دنُیا سے کوئی بڑا نمونہ چاہتے ہیں اور تحریک انصاف کو یہ نمونہ خیبر پختونخوا کے پلیٹ فارم سے پیش کرنا ہوگا۔
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 480870 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More