کوئی ڈھونڈ لائے اُسے

یادیں بہت ظالم ہوتی ہیں ۔ لمحہ بھر میں موسم بدل دیتی ہیں ۔بہار بھی خزاں لگنے لگتی ہے۔ نہ پھول اچھے لگتے ہیں اور نہ ہی کلیوں میں رعنائی نظر آتی ہے۔ خواہ مخواہ پرانے اورsad قسم کے گانے سننے کو من کرتا ہے ۔ تنہائی سے دوستی ہو جاتی ہے اور محفل سے اُکتا ہٹ۔ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے ۔ کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا ۔ جی چاہ رہا ہے کہ کسی کونے میں بیٹھ کر بچوں کی طرح بلک بلک کر رو دوں اور اپنا دل ہلکا کرلوں کیونکہ مجھے اپنے کسی بچھڑے ہوئے کی یاد ستا رہی ہے۔کیسے نہ ستائے؟ بہت سا وقت ساتھ ایک ساتھ گزا تھا ۔ اور جس کے ساتھ سفر میں وقت گزرا ہو اُس کو بھلا کیسے بھلایا جا سکتا ہے۔میں بات کر رہا ہوں اپنے سکوٹر کی جو میرے والد صاحب نے مجھے کالج کے زمانے میں تحفے میں دیا تھا۔ اور میرے والد صاحب کو میرے دادا جان نے اُن کی شادی پر ۔لیکن داد جان کو کسی نے تحفے میں نہیں دیا بلکہ اُنہوں نے اپنے ایک جگری دوست نتھو لال سے آدھی قیمت پر خریدا تھا۔ اب نتھو لال نے کب اور کتنے میں خریدہ اس کی کوئی سند نہیں ۔دادا جان نے سکوٹر کو جس قدر احتیاط اور حفاظت کے ساتھ رکھا تھا شاید ہی کوئی رکھ سکتا ہو۔ وہ اپنے آپ سے بھی زیادہ اُس کی دیکھ بال کرتے تھے ۔جمعہ کے دن اسے نہر پر لے جاتے اور سرف سے مل مل کر نہلاتے۔ صاف کپڑے سے خشک کرنے کے بعد کچھ دیر دھوپ میں کھڑا کر دیتے تاکہ وہ نمی سے بالکل پاک ہو سکے۔ جب تک سکوٹر دھوپ میں کھڑا رہتا وہ خود نہر میں نہا کر تازہ دم ہوتے رہتے اسی طرح ہفتے میں ایک دن اُنہیں بھی نہانے کا موقع مل جاتاتھا ۔ہر تین مہینے کے بعد اُس کو مکینک کے پاس لے جاتے جہاں اُس کی تیل بدلی اور انجن کی ٹیونگ کی جاتی۔یہ سکوٹر جب تک دادا جان کے پاس رہا ویسے کا ویسا ہی رہا جیسا انہوں نے نتھو لال سے خریدہ تھا۔والد صاحب نے بھی اُس کی دیکھ بھال میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی فرق صرف اتنا تھا کہ وہ اسے مہینے میں چارکی بجائے صرف ایک دفعہ ہی نہر میں لے جا پاتے تھے۔تین چار سال بعد اُس کی چمک دمک وہ تو نہ رہی جو دادا جان کے زمانے میں تھی۔لیکن پھر بھی دیکھنے والے اُس کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔۔۔

میں نے تیسرے اور آخری حملے کے بعد میٹرک کا امتحان ہائی ٹھرڈ ڈیوژن میں پاس کر لیا تھا اور مجھے ایک آخری درجے کے کالج میں داخلہ بھی مل گیا تھا۔ اب جب کہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مراحل میں تھا تو والد صاحب نے سوچا کی برخودار کو سفر کی خواری سے بچنے کے لیئے ایک اعلیٰ قسم کی سواری دے دی جائے۔اب وہ سکوٹر میری ملکیت میں آچکا تھا ۔ شروع شروع میں اُس کی دیکھ بھال میں نے بھی بڑے اچھے طریقے سے کی تھی بس فرق یہ تھا کہ اُسے دھونے کا وقت کبھی نہیں ملا۔ مجھے یاد ہے جب میں پہلے دن اس شاہی سواری پر بیٹھ کر اپنے کالج کے مین گیٹ سے اندر داخل ہو رہا تو سب لڑکوں کی نظریں میرے اوپر تھیں۔ لڑکیوں نے نظر ڈالنے کی زحمت اس لیے نہیں کی تھی کیونکہ وہاں گاڑیوں والے بھی موجود تھے۔ کالج میں ایک پہچان بن گئی تھی۔ مجھے میرے سے کم اور سکوٹر سے زیادہ جانا جاتا تھا۔ میری عزت میں بھی اضافہ ہو چکا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ میری عزت وہی لڑکے کرتے تھے جو خود سائیکل پر یا پھر پیدل کالج آتے تھے۔ جن کے پاس اچھے ماڈل کی بائیک یا گاڑیا ں تھی وہ مجھے منہ تک نہیں لگاتے تھے۔اصل میں وہ مجھ سے جلتے تھے۔

میرے ہاتھ لگنے کے دو سال بعد سکوٹر میں چھوٹی چھوٹی فنی خرابیاں آنی شروع ہو چکی تھیں۔مہینے میں ایک یا دو دفعہ اُسے مکینک کے پاس لے کر جانا پڑتا تھا۔میری مکینک سے اچھی خاصی سلام دعا ہو گئی تھی۔وہ بھی میرے سکوٹر کی بڑی تعریف کیا کرتا تھا۔ کہتا تھا کہ اس طرح کی نایاب چیز اب تو ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔ ویسے تم نے اس کو بڑا سمبھال کر رکھا ہوا ہے۔اور ساتھ ہی تین چار سو کا بل میرے ہاتھ میں تھما دیتا۔ میری جیب سے اکثر سو یا سوا سو ہی نکلا کرتا تھا۔ جسے وہ بڑی خوشی سے قبول کر لیتا۔میرے پیارے سکوٹر کی فنی خرابیوں کا سلسلہ آہستہ آہستہ بڑھنے لگا ۔ اور مجھے ہفتے میں ایک دفعہ ضرور مکینک کے پاس حاضری دینی پڑتی تھی۔مکینک بہت سمجھدار اور قابل آدمی تھا۔ وہ میرے سکوٹر کے تمام کل پرزوں سے آشنا ہو چکا تھا۔ اُسے دیکھتے ہی معلوم ہو جاتا تھا کہ میرے سکوٹر کو کیا مرض لاحق ہے اور اُسے کون سی دوا دینی ہے۔مہینے سے ہفتہ اور ہفتے سے میں دنوں پر آ چکا تھا۔ یعنی اب تو ہر دوسرے دن مجھے مکینک کے پاس جانا پڑتا تھا۔سکوٹر کے انجن کے علاوہ اُس کے تمام پرزے تبدیل ہو چکے تھے۔انجن اس لیے نہیں بدلا جا سکا کیونکہ بلال گنج مارکیٹ میں اس کمپنی کا ابھی تک کوئی انجن ہی نہیں آیا تھا۔انجن کے نہ بدلنے سے سکوٹر کی عمر کم ہو کر آدھی رہ چکی تھی۔مکینک میرے ساتھ بہت مخلص تھا۔ اپنی طرف سے اُس نے مجھے ایک اچھا مشورہ دیا تھا ۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ میرا اس سکوٹر کے ساتھ ایک جذباتی رشتہ ہے۔بہر حال مجھے اپنے محسن کا مشورہ ماننا پڑا ۔ میں نے اپنے سکوٹر کو بیچنے کا ایک مشکل فیصلہ کر لیا۔ویسے تو اس نایاب چیز کے خریدار بہت تھے لیکن میں اُسے کسی ایسے قدر دان کے سپرد کرنا چاہتا تھا جو اُس کی دل سے قدر کرے۔ میری طرح اُس کی حفاظت کرے۔اُس کی دیکھ بھال میں ذرہ برابر بھی کوتاہی نہ کرے۔لیکن اس دنیا سے نایاب چیزوں کی قدر کرنے والے بھی نایاب ہو چکے ہیں۔

میں مایوس نہیں ہوا تھا۔ آخر ایک دن ایک قدردان جو پرانی چیزوں سے محبت کرتا تھا میرے پاس آیا۔ سکوٹر کو بڑے غور سے دیکھا۔ جانچا پرکھا اور اُس کی قیمت پوچھی۔ میں نے عرض کی کہ ایسی چیزوں کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔یہ ایک لازوال چیزہے اوراس کی قیمت لگا کر مجھے لاجواب نہ کریں۔میری جذباتی باتوں نے اُس کے دل پر گہرا اثر کیااوراپنی جیب سے کچھ پیسے نکال کر میرے ہاتھ میں رکھ دیے۔میں نے گننے کی کوشش کی تو اُس نے فوراً میرا ہاتھ پکڑ لیا اور بڑے ہی جذباتی انداز میں کہا کہ جن چیزوں کی کوئی قیمت نہیں ہوتی اُسے بیچا بھی نہیں کرتے۔ یہ تھوڑی سی رقم نذرانہ سمجھ کر قبول کر لو۔ اور ہاں ایک بات اور۔ ۔۔نذرانے کبھی گنا نہیں کرتے۔ میں نے وہ پیسے اپنی جیب میں ڈالے ۔اور بجھے ہوئے دل اور نم آنکھوں کے ساتھ اپنے سفر کے ساتھی کو اُس کے حوالے کر دیا۔ اُس نے سکوٹر کو گدھا ریڑھی پر لاد ا اور کچھ ہی دیر میں میری نظروں سے اوجھل ہو گیا ۔ اُس کے جانے کے بعد میں نے پیسے گنے تو وہ صرف پندرہ سو روپے تھے۔ مجھے اپنی سب سے قیمتی چیز کی بے قدری کرنے والے شخص پر بہت غصہ آ رہا تھا۔دن ،ہفتے بلکہ مہینے گذرچکے تھے لیکن میرے دل سے میرے سکوٹر کی یاد نہ نکل سکی ۔ میں بہت افسردہ رہنے لگا ۔میرا دل چاہتاتھاکہ کوئی اُسے کہیں سے ڈھونڈ لائے۔ ایک دن یونہی میں اُداس پھرتا ہوا بہت دور نکل چکا تھا۔جب گھر واپسی کے لیے مڑا تو میری نظر ایک کباڑیے کی دوکان پر پڑی۔ میرے قدم رک گئے۔ مجھے اپنی بصارت پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ میرا سکوٹر اُس کباڑیے کی دوکان میں کچرے کے ڈھیر پر پڑا تھا۔ مجھے بہت دکھ پہنچا اور نہ چاہتے ہوئے بھی میری آنکھوں سے آنسو امنڈ پڑے۔میں دیر تک اسے دیکھتا رہا۔میرا دل ڈوبنے لگا تھا۔میں نے آخری دفعہ اُسے دیکھا اور دوبارہ اس طرف نہ جانے کا فیصلہ کر کے وہاں سے چل دیا۔
Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 99795 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.