امام احمد رضا اور تحقیق اہرامِ مصر

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ تعالیٰ قرآن مجید وفرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے:
یٰآ اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُو اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو۔ (التوبۃ:١١٩)

اہل اللہ نے اسی آیت کی روشنی میں باقاعدہ نشستوں کا اہتمام رکھا اور عام وخاص مسلمانوں کو موقع دیا کہ وہ ان کی نشستوں میں آئیں اور جو کچھ وہ نہیں جانتے ہیں اہلِ ذکر، اہلِ علم وعرفان سے معلوم کریں۔ چنانچہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو اکثر خانقاہوں میں اس بات کا اہتمام رکھا گیا کہ شیوخ حضرات سے عوام الناس کے رابطے رہے اور ان کی مجالس میں بیٹھ کر علوم وعرفان کے موتیوں سے اپنے دامن بھرے۔ اہل ذوق حضرات نے ان مواقعوں کو ضائع نہیں ہونے دیا اگرچہ اس زمانے میں نہ ٹیپ ریکارڈ تھے نہ ہی C.D وغیرہ کا سسٹم تھا۔ وہ قلم دوات اور دفتر لے کر بیٹھ جاتے ان مجالس یا نشستوں میں جو کلمات ان کی زبان سے جاری ہوتے وہ ان کو قلمبند کرلیتے تاکہ آنے والی نسلیں ان کے ملفوظات، کلمات اور فکر سے استفادہ کرسکیں۔ تاریخ میں ملفوظات کی ایک لمبی فہرست ہے اور یہ ملفوظات ہر زمانے کے لوگوں کے لئے ایک طرف علم وعرفان کا سرمایہ ہوتے ہیں دوسری طرف ہدایات کا سرچشمہ بھی۔ ان ملفوظات میں چند بہت اہم ہیں مثلاً

انیس الا رواح ملفوظات حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ
دلیل العرفان ملفوظات حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ
فوائد السالکین ملفوظات حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ
راحت القلوب ملفوظات حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ
فوائد الفواد ملفوظات حضرت نظام الدین اولیأ محبوب الٰہی رحمۃ اللہ علیہ
فیہ مافی ملفوظات مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ
معدن المعانی
ملفوظات حضرت شیخ شرف الدین منیری رحمۃ اللہ علیہ

ایسے ہی ملفوظات میں ایک اہم ترین ”ملفوظ” امام احمد رضا خاں قادری برکاتی محدث بریلوی کا ہے جس کو آپ کے خلف اصغر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مصطفی رضا خاں قادری برکاتی نوری بریلوی علیہ الرحمہ نے امام احمد رضا کے آخری سالوں کے چند نشستوں کے ملفوظ کو ”الملفوظ” کے نام سے جمع کیا اور ١٣٣٨ھ میں شائع بھی کیا۔ یہ ملفوظ ٤حصوں میں شائع ہوئے تھے اور اب مکمل ایک جلد میں شائع کیے جاتے ہیں۔ یہ ملفوظ صرف ساڑھے تین سال کے دوران جمع کئے گئے تھے۔ حال ہی میں اس کا انگریزی ترجمہ بھی ڈربن، ساؤتھ افریقہ سے شائع ہوا ہے۔ اس کا انگریزی ترجمہ حضرت علامہ مولانا عبد الہادی قادری رضوی نوری صاحب نے کیا ہے۔

حضرت مفتی اعظم ہند اس ملفوظ کے دیباچہ میں ملفوظات کی اہمیت بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:

”اہل اللہ کی زندگی اللہ تبارک وتعالیٰ کی ایک اعلیٰ عظیم نعمت ہے۔ انہیں نفوس طیبہ سے عقدہ مالا ینحل چٹکی بجاتے حل ہوتے ہیں۔ جنہیں کبھی بھی ناخنِ تدبیر نہ کھول سکے جس سے کیسا ہی مدبر ہو حیران رہ جائے، کچھ بول نہ سکے، جسے میزان عقل میں کوئی تول نہ سکے۔

” آگے چل کر مزید رقمطراز ہیں:

”اسی لئے اسلاف کرام رحمہم اللہ علیہم نے ایسے انفاس قدسیہ کے حالات مبارکہ ومکاتیب طیبہ وملفوظات طاہرہ جمع فرمائے یا اس کا اذن دیا کہ ان کا نفع قیامت تک عام ہوجائے اور ہم ہی مستفید ومحظوظ نہ ہوں بلکہ ہماری نسلیں بھی فائدہ اٹھائیں۔

” مزید آگے چل کر امام احمد رضا کی نشستوں اور صحبت سے متلعق رقم طراز ہیں:

”اب اعلیٰ حضرت مدظلہ الاقدس کی بافیض صحبت میں رہنا زیادہ اختیار کیا جس کے بعد خیال ہوا کہ یہ جواھر عالیہ وزواھر غالیہ یونہی بکھرے رہے تو اس قدر مفید نہیں جتنا انہیں سلکِ تحریر میں نظم کرلینے کے بعد ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔۔۔ حسبنا اللہ ونعم الوکیل پڑھتا اٹھا اور ان جواہر نفیسہ کا ایک خوش نما ہار تیار کرنا شروع کیا۔۔۔ میں نے چاہا تو یہ تھا کہ روزانہ (عصر تامغرب کی نشست) کے ملفوظات جمع کروں مگر میری بے فرضی آڑے آئی اور میں اس عالی مقصد میں کامیاب نہ ہوا۔ جتنا اور جو کچھ مجھ سے ہوسکا میں نے کیا۔

” امام احمد رضا کے ملفوظات جمع کرتے ہوئے حضرت نے تاریخ کا اہتمام نہ فرمایا جس کے باعث ملفوظات میں تاریخ کا صحیح تعین نہیں کیا جاسکے گا کہ کون سے نشست کب ہوئی۔ ان ملفوظات میں صرف ایک ملفوظ جو ”مینار مصر” سے متعلق ہے اس کو اس مقالہ کی تحقیق کا بنیادی عنصر بنایا۔ پہلے ملاحظہ کیجئے ملفوظ۔ مؤلف (یعنی مفتی اعظم ہند) مصر کے میناروں کا تذکرہ ہوا، اس پر فرمایا:

ارشاد: ان کی تعمیر حضرت آدم علیٰ نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام سے چودہ ہزار (١٤٠٠٠) برس پہلے ہوئی۔ نوح علیہ السلام کی امت پر جس روز عذابِ طوفان نازل ہوا ہے پہلی رجب تھی، بارش بھی ہورہی تھی اور زمین سے بھی پانی ابل رہا تھا۔ بحکم رب العٰلمین نوح علیہ السلام نے ایک کشتی تیار فرمائی جو ١٠ رجب کو تیرنے لگی۔ اس کشتی پر ٨٠ آدمی سوار تھے جس میں دو نبی تھے(حضرت آدم وحضرت نوح علیہم السلام)۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اس کشتی پر حضرت آدم علیہ السلام کا تابوت رکھ لیا تھا اور اس کے ایک جانب مرد اور دوسری جانب عورتیں بیٹھی تھیں۔ پانی اس پہاڑ سے جو سب سے بلند تھا ٣٠ ہاتھ اونچا ہوگیا تھا۔ دسویں محرم کو چھ(٦) ماہ کے بعد سفینہ مبارکہ جودی پہاڑ پر ٹہرا۔ سب لوگ پہاڑ سے اترے اور پہلا شہر جو بسایا اس کا ”سوق الثمانین” نام رکھا۔ یہ بستی جبل نہاوند کے قریب متصل ”موصل” شہر (عراق) میں واقع ہے۔ اس طوفان میں دو عمارتیں مثل گنبد و منارہ باقی رہ گئی تھیں جنہیں کچھ نقصان نہ پہنچا۔ اس وقت روئے زمین پر سوائے ان (دو عمارتوں) کے اور عمارت نہ تھی۔ امیر امومنین حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے انہیں عمارتوں کی نسبت منقول ہے۔

”بنی الھرمان النسر فی سرطان”

یعنی دونوں عمارتیں اس وقت بنائی گئیں جب ”ستارہ نسر” نے ”برج سرطان” میں تحویل کی تھی، نسر دو ستارے ہیں: ”نسر واقع” و ”نسر طائر” اور جب مطلق بولتے ہیں تو اس سے ”نسر واقع” مراد ہوتا ہے۔ ان کے دروازے پر ایک گدھ (نما) کی تصویر ہے اور اس کے پنجے میں گنگچہ (گرگٹ، کھنکھجورہ، بچھو) ہے جس سے تاریخ تعمیر کی طرف اشارہ ہے۔ مطلب یہ کہ جب ”نسر واقع برج سرطان میں آیا اس وقت یہ عمارت بنی جس کے حساب سے (١٢٦٤٠) بارہ ہزار چھ سو چالیس سال ساڑے آٹھ مہینے ہوتے ہیں۔ ستارہ (نسر واقع) (٦٤) چونسٹھ برس قمری (٧)مہینے، (٢٧)ستائیس دن میں ایک درجہ طے کرتا ہے اور اب (ستارہ نسر واقع) برج جدی کے سولہویں(١٦) درجہ میں ہے توجب سے چھ(٦)برج ساڑھے پندرہ درجے سے زائد طے کرگیا۔

آدم علیہ السلام کی تخلیق سے بھی (٥٧٥٠سال) پونے چھ ہزار برس پہلے کے بنے ہوئے ہیں کہ ان کی (سیدنا آدم علیہ السلام) کی آفرینش کو (٧٠٠٠) سات ہزار برس سے کچھ زائد ہوئے لاجرم یہ قوم جن کی تعمیر ہے کہ پیدائش آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پہلے (٦٠٠٠٠)ساٹھ ہزار برس زمین پر رہ چکی ہے۔” (ملفوظات مجددماۃ حاضرہ حصہ اول ص٧٣۔٧٤)حامد اینڈ کمپنی لاہور

امام احمد رضا خاں قادری برکاتی محدث بریلوی قدس اللہ سرہ العزیز (م١٣٤٠ھ/١٩٢١ء) نے مصر کی ان عمارتوں سے متعلق جن کو اہرام مصر کہا جاتا ہے اور جو چوکور مخروطی شکل کے ہوتے ہیں ان کی تعمیر سیدنا آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تخلیق سے بھی پہلے کی تعمیر بتائی ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ ان کی تعمیر انسانوں نے نہیں کی بلکہ حقیقتاً یہ قوم جن کی تعمیر کردہ عمارتیں ہیں، جن کو ملفوظ کے وقت ١٢٦٤٠قمری سال ہوچکے تھے۔ اب ملاحظہ کیجئے امام احمد رضا کی تحقیقات سے متعلق تفصیلات۔ مثلاً جن کی پیدائش، جنات کا تعمیری عمل، ستارہ نسر کی چال اور اس سے مصر کی عمارتوں کی تاریخ کا اندازہ وغیرہ وغیرہ۔

جنات: قرآن کریم جنات کی پیدائش سے متعلق ارشاد فرماتا ہے:

وَالْجَآنَّ خَلَقْنٰہُ مِنْ قَبْلُ مِنَ نَّارِ السَّمُومِ ں (الحجر:٢٧)
اور جن کو اس سے (انسان) پہلے بنایا بے دھویں کی آگ سے۔ (کنز الایمان )

دوسری جگہ ارشاد فرمایا:

وَخَلَقَ الْجَآنَّ مِنْ مَّارِجٍ مّنْ نَّار ں (رحمن:١٥)
اور جن کو پیدا فرمایا آگ کے لوسے (یعنی بے دھویں والے شعلہ سے)

انسان کے ساتھ ساتھ جنوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی بندگی کے لئے پیدا فرمایا۔

وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون ں (الذٰریٰت:٥٦)
اور میں نے جن اور آدمی اپنے ہی لئے بنائے کہ میری بندگی کریں۔

جنات اللہ کی انسان سے پہلے پیدا کی گئی مخلوق ہے جیسا کہ سیدنا آدم علیہ السلام کی پیدائش کے وقت اللہ نے فرشتوں اور جنوں کے سردار شیطان (ابلیس) کو حکم دیا کہ جب اس پتلے میں روح ڈال دوں تو تم سب اس کو سجدہ (تعظیمی) کرنا مگر ابلیس نے سجدہ نہ کیا۔ ارشاد خداوندی ہے:

واذا قلنا للملٰئِکۃ اسجدوا لادم فسجدوا الا ابلیسط کان من الجن ففسق عنی امر ربّہ ط افتتَّخذونہ’ وذریتہ و اولیاء من دونی وھم لکم عدوٌّ ط بئس لظّٰلمین بدلا ں (الکہف۔٥٠)
اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ قوم جن سے تھا توا پنے رب کے حکم سے نکل گیا۔ بھلا کیا اسے اور اس کی اولاد کو میرے سوا دوست بناتے ہوئے اور وہ تمہارے دشمن ہیں ظالموں کو کیا ہی برا بدلہ ملا۔

جنات آگ سے پیدا کئے گئے ہیں ان میں بھی بعض کو یہ طاقت دی گئی ہے کہ جو شکل چاہیں بن جائیں، ان کی عمر یں بہت طویل ہوتی ہیں، ان کے شریروں کو شیطان کہتے ہیں اور ابلیس کو ”ابوالجن” کہتے ہیں۔ یہ انسانوں کی طرح عمر ذی عقل اور ارواح و اجسام والے ہیں ۔ کھاتے پیتے، جیتے اور مرتے ہیں اولاد بھی ہوتی ہے۔ ان میں مسلمان بھی ہوتے ہیں اور کثیر مقدار کفار جن کی ہے۔

جنات انبیاء کے ماتحت ہوتے ہیں اور انبیاء کے حکم پر وہ انسانوں جیسے کام بھی کرتے ہیں جیسا کہ سیدنا سلیمان علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جنات سے بیت المقدس کی تعمیر کروائی جس کے لئے قرآن شہادت دیتا ہے۔ یعملون لہ ما یشآء من محاریب وتماثیل وجفانٍ کالجواب وقدورٍ رّٰسیٰت ط (سبا:١٣) (جنات) اس کے لئے بنائے جو وہ چاہتا اونچے اونچے محل (عالی شان عمارتیں اور مسجدیں) اور تصویریں اور بڑے حوض کے برابر لگن (ایک بڑی لگن جس میں ہزار آدمی کھانا کھاتے) اور لنگردار دیگیں (سیڑھیاں لگا کر جن پر چڑھا جاتا اور یہ یمن میں تھیں)۔

اس سے قبل سورہ سبا میں ملکہ بلقیس کا تخت اٹھا لانے کے لئے جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے قوم جن اور انس سے اس بات کا اظہار کیا تو ایک جن بولا

قال عفریتٌمّن الجن انا اٰتِیکَ بہ قبلَ ان تقوم من مقامک واِنّی علیہ لقویٌ امین (سبا:٣٩)
ایک بڑا خبیث جن بولا کہ میں وہ تخت حاضر کردوں گا اس کے کہ حضور اجلاس برخاست کریں اور میں بے شک اس پر قوت والا امانت دار ہوں۔

امام احمد رضا کی علمی وسعت کا اندازہ لگانا مشکل ہے آپ نے اسی علمی وسعت اور مطالعہ کی بنیاد پر کہا کہ وہ بلند عمارتیں حضرت انسان سے بننا بظاہر مشکل کام نظر آتا ہے مگر جنات کیونکہ زیادہ طاقتور قوم ہے اور اس قوم نے بہت سے دنیا میں ایسے کام کئے ہیں ان میں سے ایک کام ان کا تعمیر اھرام مصر بھی ہیں کیونکہ قوم جن انسان سے ٦٠٠٠٠ برس پہلے آباد ہوچکی تھی۔ صاحب روح البیان اپنی تفسیر میں سورہ الحجر کی آیت جو اوپر بیان کی گئی رقم طراز ہیں کہ جنات ٦٠٠٠٠ سال قبل دنیا میں آباد تھے ۔ امام احمد رضا نے صاحب روح البیان کے قول کو منقول کیا کہ یہ قوم پہلے سے آباد تھی اور اھرام مصر کی تعمیر فرعونیوں کے زمانے کی نہیں بلکہ آدم علیہ السلام سے بھی پونے چھ ہزار برس قبل کی تعمیر ہے۔

موجودہ تحقیق اھرام مصر سے متعلق ابھی تک شک وشبہ میں ہے کہ ان کی تعمیر کب ہوئی جیسا کہ انسائیکلو پیڈیا میں لکھا ہے۔

Pyramids, in architecture, monumental structure having a rectangular, usually square, base and triangular sides meeting in a point. Pyramidal buildings are best known from ancient Egypt, where they were used primarily as royal tombs. The earliest true pyramid is the “northern stone pyramid” at Dashur, a few miles south of sakhara. This is thought to have been built by king Snefru, the 1st king of the Dynasty (c.2600 B.C). The Webster family Encyclopedia v.15 192.

قاسم محمود صاحب اپنے مرتب کردہ اسلامی انسائیکلو پیڈیا میں رقمطراز ہیں:

چوکور، مخروطی شکل کی عمارتیں دریائے نیل کی وادی میں پائی جاتی ہیں۔ ان عمارتوں میں فرعونیوں کی لاشیں (ممی)کی صورت میں رکھی ہوئی ہیں۔ ان عمارتوں کو ان بادشاہوں کے مقبروں کی جگہ ہی بنایا جاتا ہے۔ اس قسم کی عمارتوں کے نمونے مصر کے علاوہ سوڈان، ایتھوپیا، مغربی ایشیا، یونان، قبرص، اٹلی، ہندوستان، تھائی لینڈ، میکسکو وغیرہ میں بھی ملتے ہیں۔ (سید قاسم محمود، اسلامی انسائیکلوپیڈیا، ص٢٦٢)

امام احمد رضا ان اہرام مصر کی تعمیر کو فرعونیوں یا اس سے قبل ہی نہیں بلکہ انسانوں کی پیدائش سے بھی پہلے کی قرار دیتے ہیں اگر اس سلسلے میں مزید دنیاوی علوم کے مطابق تحقیق کی جائے تو مجھے امید ہے کہ وہ ان تعمیر کو کم از کم آدم علیہ السلام سے ٦٠٠٠ سال قبل لے جائیں گے۔

احقر مسلمان اسکالرز سے امید رکھتا ہے کہ وہ اس تحقیق کی جستجو کو آگے بڑھائیں گے۔ احقر امام احمد رضا کی تحقیق کو آنکھ بند کر کے مان لینے کو تیار ہے۔ اس لئے کہ امام احمد رضا کوئی بات بغیر تحقیق کے نہیں لکھتے کہ وہ عبث ہوجائے گی اور امام احمد رضا کی انفرادیت یہ ہے کہ کبھی ان کو تحقیق واپس لینے کی ضرورت پیش نہ آئی کہ جس کو اللہ جل جلالہ، اور اس کا رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم علم بخشیں وہ کیونکر غلطی کرسکتا ہے۔

امام احمد رضا نے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے قول ”بنی الھرمانِ النسر فی سرطان” کو بنیاد بناتے ہوئے ستارہ نسر کی چال پر ان عمارتوں کی تاریخ ١٢٦٤٠ مرتب فرمائی ہے۔ آئیے اس بات کی تحقیق کو سمجھتے ہیں کہ کس طرح امام احمد رضا نے یہ تاریخ مرتب فرمائی ہے۔

ستارہ نسر عربی لفظ ہے اور اسم مذکر ہے اور عموماً اس کی شکل گدھ نما پرندے جیسی ہوتی ہے۔ ستارہ نسر دو قسم کے ہوتے ہیں ایک کو ”نسر واقع” اور دوسرے کو ”نسر طائر”کہتے ہیں۔

نسر طائر:

ایک ستاروں کے گچھے کا نام جس کی شکل ایک پر پھیلائے ہوئے اوپر کی طرف اڑنے والے گدھ سے مشابہ ہے۔ یہ ستارہ منطقۃ البروج سے جانب شمال ہے۔

نسر واقع:

اس ستارے کی صورت دو اور ستاروں کے مل جانے سے جو اس کے دونوں پہلوؤں میں ہیں ایسی ہوگئی ہے جیسے گدھ کند سے جڑے ہوئے اوپر سے نیچے کی طرف آرہا ہے یہ ستارہ قطب جنوب کی طرف ہے۔

منطق البرج:

عربی لفظ اسم مذکر ہے۔ یہ وہ بڑا دائرہ ہے جس پر آسمانی ١٢ برج واقع ہیں۔

برج:

کسی بھی سیارہ کا گھر یا مقام یا منزل

برج کی تعداد:

یہ ١٢ ہوتے ہیں اور ان کی ترتیب مندرجہ ذیل ہوتی ہے۔

حمل، ثور، جوزا، سرطان، اسد، سنبلہ، میزان، عقرب، قوس جدی، دلو اور حوت۔ (مولوی سید احمد دہلوی ، فرہنگ آصفیہ مطبوعہ اردو سائنس بورڈ)

قرآن کریم میں ان برجوں سے متعلق نشاندہی کئی مقام پر ہے ملاحظہ کیجئے:

وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّزَ یَّنّٰھَا لِلنّٰظِرِیْنَ ں (الحجر۔١٦)
اور بے شک ہم نے آسمان میں برج بنائے (جوکواکب سیارہ کے منازل ہیں) اور دیکھنے والوں کے لئے آراستہ کیا۔

ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:

تَبٰرَکَ الَّذِیْ جَعَلَ فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّجَعَلَ فِیْہَا سِرَاجً وَّ قَمَرًا مُّنِیْرًا ں (فرقان۔٦١)
بڑی برکت والا ہے وہ جس نے آسمان میں برج بنائے اور ان میں چراغ رکھا اور چمکتا چاند۔

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے بروج سے یہاں کواکب سبعہ سیارہ کے منازل مراد ہیں جن کی تعداد ١٢ ہے۔ (حاشیہ خزائن العرفان)

امام احمد رضا کو اکب سبعہ کی حرکت سے متعلق اپنے فتاویٰ میں ایک مقام پر رقم طراز ہیں:

”ہمارے نزدیک کواکب کی حرکت نہ طبیعہ ہے(کہ فطرتاً گھوم رہا ہے)اور نہ تبعیہ ہے کہ کسی کی پیروی میں گھوم رہا ہو بلکہ خود کواکب بامرِ الٰہی وتحریک ملائکہ آسمانوں میں دریا میں مچھلی کی طرح تیرتے ہیں۔

آگے چل کر رقمطراز ہیں: ہمارے نزدیک نہ زمین متحرک ہے نہ آسمان کہ قال اللہ تعالیٰ :

اِنَّ اللَّہَ یُمْسِکُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ أَن تَزُولَا وَلَئِن زَالَتَا إِنْ أَمْسَکَہُمَا مِنْ أَحَدٍ مِّن بَعْدِہِ (فاطر۔٤١)
بے شک اللہ روکے ہوئے ہے آسمانوں اور زمینوں کو کہ ہٹ نہ جائیں اور جو وہ ہٹ جائیں تو خدا کے سوا انہیں کون روکے۔ (فتاویٰ رضویہ جدید جلد ٣٠ ص١١٣۔١١٤)

اب ملاحظہ کیجئے بروج کی ترتیب اور منازل

شکل نمبر ١

اس شکل میں الف وہ مقام ہے جہاں ستارہ نسر واقع اس وقت تھا جب وہ عمارتیں بنائی گئیں پھر اس کی منزلیں شروع ہوجاتی ہے چھٹی منزل اس کی جدی ہے اور اس کے بعد ب والا نشان نسر واقع کی اس جگہ نشاندہی کررہا ہے۔ جس وقت امام احمد رضا نے تذکرہ کرتے ہوئے غالباً ١٣٣٥۔١٣٣٨ھ کے درمیان نسر واقع کی جگہ بتائی تھی۔ اس وقت تک نسر واقع ٦ بروج کے ساتھ ساتھ اگلے بروج یعنی جدی کے بعد ساڑھے ١٥درجے اور آگے جاچکا تھا۔ اس وقت کا تعین امام احمد رضا کا ١٢٦٤٠ قمری برس تھا ملاحظہ کیجئے اس کی تفصیل: ایک برج سے دوسرے برج کے درمیان ٣٠ درجے ہیں ۔ ستارہ نسر واقع کی چال ایک درجے سے دوسرے درجے میں یعنی فی درجہ ٦٤ سال ٧ مہینے اور ٢٧دن ہیں۔

شکل نمبر ٢

شکل نمبر ٢ میں نسر واقع کی چال بتائی گئی ہے کہ ایک درجے سے دوسرے درجہ میں اور پھر ایک بروج سے دوسرے بروج میں امام احمد رضا نے لگ بھگ ١٣٣٥ھ میں نسر واقع کی مکمل چال تعمیر کے بعد سے لے کر جو بتائی وہ ٦ برج (سرطان سے شروع ہوکر اسد، سنبلہ، میزان، عقرب، قوس اور جدی) اور اس کے بعد ساڑھے پندرہ درجے ہے۔ اس منزل تک ١٢٦٤٠ سال اور ساڑھے آٹھ مہینے بنتے ہیں۔ ایک برج سے دوسرے برج میں پہنچنے کے لئے لگ بھگ ١٩٣٧برس لگتے ہیں۔ ایک درجہ سے دوسرے درجہ کے لئے رفتار ٦٤ سال ٧ مہینے ٢٧ دن اس کو ٣٠ سے ضرب دیں ٣٠*٢٧ (دن) ٧*٦٤ (مہینے) ٣٠*٦٤(سال) لہذا ایک برج سے دوسرے برج کے لئے مندرجہ ذیل وقت سامنے آتا ہے۔ نسر کی رفتار برج سے برج کی طرف ٣دن ٨مہینے ١٩٣٧سال ٦ برج کا وقت نکالنے کے لئے اس کو مزید٦ سے ضرب دیں گے ۔

٢٧دن ٧مہینے ٦٤سال
٢٧ x (٦ x ٣٠) ٧x(٦x٣٠) ٦٤x (٦ x ٣٠)
٢٧ x ١٨٠ ٧ x ١٨٠ ٦٤ x ١٨
٤٨٦٠ ١٢٦٠ ١١٥٢
اب دنوں کے مہینے اور پھر مہینوں کے سال بنانے کے بعد جو وقت آئے گا وہ یہ ہوگا
٣٠/٤٨٦٠ ١٢٦٠ ١١٥٢
١٦٢ ١٢٦٠ ١١٥٢٠
۔ ١٦٢ + ١٢٦٠ ١١٥٢
۔ ٥.١١٨ ١١٥٢
٥. ١١٨+١١٥٢
٥. ١١٦٣٨

اب ساڑھے پندرہ درجے کے لئے ایک درجہ کی رفتار سے ضرب دے کر جو حاصل ہوگا وہ ملاحظہ کیجئے۔

٢٧ دن ٧ مہینے ٦٤ سال
(٥.١٥*٢٧) (٥.١٥*٧) (٥.١٥*٦٤)
٥.٤١٨ ٥.١٠٨ ٩٩٢
۔ ١٤+٥.١٠٨ ٩٩٢
۔ ٥.١٢٢ ٩٩٢
۔ ٥.١٠ ١٠+٩٩٢
۔ ٥.١٠ ١٠٠٢
کل میزان ١٢٦٤٠ = ١٠٠٢+١١٦٣٨ (سال)

امام احمد رضا نے اگر یہ حساب ١٣٣٥ھ میں لگایا تھا تو اس وقت یہ قمری اعتبار سے ١٢٦٤٠ سال بنے تھے اور اگر اس میں ٩٣ قمری سال اور جوڑ دئے جائیں٢٠٠٧ء کے اعتبار سے ان عمارتوں کو بنے ہوئے ١٢٧٣٣=(٩٣+١٢٦٤٠)سال ہوچکے ہیں ان قمری سالوں کو عیسوی سالوں میں بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے ١٢٦٤٠ قمری سالوں کو ١١ سے تقسیم کردیں کیونکہ قمری اور عیسوی سال میں لگ بھگ ١١ دن کا فرق رہتا ہے

۔ ١١٤٩ = ١١/ ١٢٦٤
اب ١١٤٩ سالوں کو قمری سے کم کردیں:
١١٤٩١ = ١١٤٩ - ١٢٦٤
اب ١١٤٩١ میں سے ٢٠٠٧ء کم کردیں تو عیسوی اعتبار سے مندرجہ ذیل سال بنیں گے۔
٩٤٨٤ = ٢٠٠٧ - ١١٤٩١

لہٰذا امام احمد رضا کی تحقیق سے قمری اعتبار سے یہ ١٢٦٤٠ سال بنتے ہیں اور عیسوی اعتبار سے ٩٤٨٤ سال قبل مسیح بنتے ہیں۔ امام احمد رضا نے سیدنا آدم علیہ السلام کی پیدائش کا تخمینا ٧٠٠٠ برس کے قریب لگایا ہے اس اعتبار سے پیدائش آدم سے پہلے ان کی تعمیر ہوئی جو کہ مندرجہ ذیل سال بنتی ہے

سال ٥٦٤٠ = ٧٠٠٠- ١٢٦٤

امام احمد رضا نے آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیدائش ٧٠٠٠ برس قبل بتائی ہے اور جنات سیدنا آدم علیہ السلام سے بھی ٦٠٠٠٠ سال قبل دنیا میں آباد تھے۔ یہ دنوں باتیں بھی قابل تحقیق ہیں۔ اگر احقر کو موقعہ ملا اور تحقیقی مواد حاصل ہوگیا تو ثابت کرے گا کہ امام احمد رضا کے یہ دنوں حساب بھی بالکل درست ہیں۔

قارئین کرام ایک بات آپ محسوس کررہے ہوں گے کہ امام احمد رضا جس وقت ان ملفوظات کو بیان کررہے تھے ان کے سامنے کو کوئی Dataنہیں تھا کہ وہ اس کو دیکھ کر بتارہے ہوں۔ یہ اللہ کا ان پر کرمِ خاص تھا کہ ہر چیز ان کو زبانی ازبر تھی اور بڑے سے بڑے سوالوں کو وہ اس طرح فی البدیہہ حل کر دیا کرتے تھے یہاں بھی انہوں نے ١٢٦٤٠ سال آٹھ مہینے جو تاریخ بیان کی وہ زبانی بیان کی ہے۔ امام احمد رضا کے علم کو دیکھ کر اس بات کا پختہ یقین ہوتا ہے کہ اللہ جسے چاہے علم لدنی عطا فرما دے۔
hassan raza
About the Author: hassan raza Read More Articles by hassan raza: 4 Articles with 13769 views hardwork student and business man.offer prayer five time.. View More