احتجاجی قوم…… شناخت پاکستان
(Prof Liaquat Ali Mughal, Kehroor Pakka)
دنیا میں تمام قومیں کسی نہ کسی
خصوصیت کی بناپر مشہور ہیں اور جانی جاتی ہیں اور ان خصوصیات کی بنا پر ہی
چہار دانگ عالم میں ان کا ڈنکا بجتا ہے۔ کوئی قوم اپنی شجاعت و بہادری کی
وجہ سے مشہور ہے تو کوئی منافقانہ پالیسیوں کی بنا پرجانی جاتی ہے۔ کسی کا
نام مہمان نوازی کی بنا پر جانا جاتا ہے توکوئی اپنی زبان کی مٹھاس کی کھٹی
کھارہی ہے۔ کسی کا پرچار ان کی محنت کی بنا پر کیا جاتا ہے تو کوئی اپنی
عیاری و مکاری کی بنا پر نام کیش کرارہی ہیں کسی نے اپنی افرادی قوت کا
لوہا منوایا ہے تو کسی نے ڈکٹیٹر کی حیثیت سے اپنا تعارف کرایا ہے ۔ زبان
کی پاسداری کسی کا شیوہ ہے تو کوئی اپنی بے وقوفیوں کی بنا پر لوگوں کیلئے
مزاح و تسکین قلب کا باعث بنتی ہے کوئی نفاست کی پروردہ ہے تو کوئی
اندھیروں کی باسی۔ کسی کا ڈیل ڈول اس کی شناخت ہے تو کسی کا بونا پن ان کی
تعریف بن جاتا ہے۔ کہیں پر کامیابیوں کا تسلسل ہے تو کہیں ناکامیاں منہ
پھاڑے نگلنے کو تیار کھڑی ہیں۔ تمام قوموں اور ملکوں نے جب سے وہ معرض وجود
میں آئی ہیں ترقی کی منازل طے کی ہیں پستی کے اندھیروں سے نکل کر عروج کی
کرنوں کو چھوا ہے۔ کوئی قوم تیز رفتاری سے دنیا میں سرفراز ہوتی گئی تو کسی
نے آہستہ آہستہ اپنے آپ کو بام عروج تک پہنچایا اور اس افراتفری کے دور میں
اپنے آپ کو maintain رکھنے کیلئے ان ملکوں کے حکمران و عوام چھوٹے بڑے سب
اپنے اپنے تئیں تن من دھن کے ساتھ شامل ترقی ہیں لیکن یہاں پر ایک اور قوم
کا ذکر کرنا بھی چاہوں گا کہ جس نے اپنی ترقیوں کامرانیوں اورکامیابیوں کا
تسلسل شروع کیا اور دنیا کی بڑی اقوام میں اپنے ہونے کا ،اپنے نام کا لوہا
منوایا لیکن وہ لوہا شاید خام ثابت ہوا۔ وہ قوم جس کی عظمت کے گن گائے جانے
لگے تھے۔ جن کی بہادری و شجاعت ان کی پہنچان تھی جن کی محنت و حوصلے کا
طوطی بولتا تھا شاید اس کو کسی کی نظربد لگ گئی یا پھرحکمرانوں اور عوام کی
بداعمالیوں کا شکار ہوگئی کہ دن بدن اس کی ترقی کا گراف گرتا گیا، ترقی
معکوس ہوتی گئی تنزلی بڑھتی گئی۔ خوشحالی خواب بن گئی غربت لباس بن گئی۔
خوشیاں سراب بن گئیں اور نا خلف حکمرانوں اور نو دولتیوں کی اولادیں نواب
بن گئیں۔ملک کا دیوالیہ نکلتا گیا۔ جڑیں کمزور ہوتی گئیں تنے (ادارے
)کھوکھلے ہوتے گئے کہ جس پر تھوڑا سا بوجھ ڈالا گیا وہ تڑاخ سے زمین بوس
ہوگیا
جی ہاں قارئین آپ یقینا سمجھ گئے ہونگے میں قوم پاکستان کی بات کررہا ہوں
ملک پاکستان کی بات کررہا ہوں۔ دنیا کا واحد ملک ہے جو اس تیز رفتاراور
کمپیوٹر کے دور جدید میں تنزلی و پستی کا شکار ہے۔نا اہل حکمران ملک کو
ہاتھوں پیروں سے لوٹ رہے ہیں عوام سدا کی طرح خاموش تماشائی بنی اپنے آپ کو
لٹوا کربھی خوش ہے اور بہتری کی امید میں نا امیدیوں کی گہرائیوں میں گرتی
جارہی ہے۔یعنی اپنے حق کی خاطر پہلے تو اٹھتی ہی نہیں کیونکہ ان کو اپنے
حقوق کا ادراک ہی نہیں اور اگر قسمت سے ادراک ہوجائے تو اس کا واحد حل
احتجاج کی صورت نکلتا ہے۔ روڈز بلاک کردیئے جاتے ہیں سرکاری و غیرسرکاری
عمارتوں اور املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے گاڑیوں اور دکانوں کو آگ لگائی
جاتی ہے یعنی کہ دوسری اقوام کی طرح پاکستانی قوم کی بھی ایک شناخت بن گئی
ہے کہ ’’احتجاجی قوم‘‘ نشان پاکستان
حکمرانوں اور اقتدار کے رسیا لوگوں سے کام نکلوانے اور بات منوانے کا ایک
اور واحد حل احتجاج کو مان لیا گیا ہے اور پاکستان کی حالیہ پانچ سے سات
سالہ ہسٹری کو دیکھ لیں کہ ہر شخص ہر شعبہ احتجاج ہڑتال بائیکاٹ کی نظر
ہوگیا ۔ بچے بوڑھے نوجوان مرد و عورت سب کسی نہ کسی انداز میں احتجاج کر
رہے ہوتے ہیں۔پہلے جب کبھی کوئی احتجاج یا ہڑتال کرتا تھا تو اس کا بڑا اثر
ہوتا تھا ۔ لیکن یہ احتجاج احتجاج کھیل کر عوام نے احتجاج کا تاثر ہی ختم
کردیا ہے۔دوسری طر ف یہ عمل اب عوام سے منتقل ہوکر محکموں کی جانب چلا گیا
ہے ۔ مزدور ہو کہ ٹیکسٹائل مل اونر۔ ملازم ہو کہ افسران بالا۔ اساتذہ ہو ں
کہ طالب علم۔ دکاندار ہوں کہ ریڑھی بان۔تاجر ہوں کہ صنعت کار۔پٹرول پمپس
مالکان اور سی این جی مالکان ہو کہ ٹرانسپورٹرز ،ڈاکٹرز ہوں کہ مریض،وکلا
ہوں کہ سائل، انسانی حقوق کے علمبردار ہوں کہ حقوق نسواں کے متوالے غرض
صحافی سیاستدان ججز بیوروکریٹس سب نے احتجاج کو اپنا شعار بنالیا ہے ۔ غضب
خدا کہ وہ لوگ جو مسیحائی کا دعوی کرتے ہیں ان کے سامنے مریض تڑپ تڑپ کر
جان دے دیتے ہیں لیکن یہ سنگدل اور کھٹور دل نام نہاد مسیحاچند روپوں کی
خاطر انسان کو راہی عدم کا راستہ دکھادیتے ہیں آپریشن نہ ہونے کی بنا پر
کتنی ہی جانیں جان آفریں کو لبیک کہہ جاتی ہیں لیکن مسیحائے قوم کو اپنی
تنخواہ بڑھوانے کی فکر کھائے جارہی ہوتی ہے اپنے الاؤنسز کی وصولی ان کا سب
سے اولین مطمع نظر بن جاتا ہے۔ننھے ننھے معصوم بچے ان بے حسوں کی بے حسی پر
دنیا سے عدم سدھا جاتے ہیں کہیں کوئی قیامت نہیں ٹوٹتی۔ ایمرجنسی، ان ڈور،
آؤٹ ڈور میں مریض درد کی شدت سے بلبلا رہے ہوتے ہیں زندگی و موت کی کشمکش
میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن مسیحا زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے زخموں پر نمک
پاشی کرتے نظر آتے ہیں۔بھئی اگر ہڑتال وکلا کریں صحافی یا اساتذہ کریں،
بیوروکریٹس کریں یا انسانی حقوق والے احتجاج کریں تو قابل برداشت ہے کہ اس
سے کسی کی جان جانے کا احتمال نہیں ہوتا اور ان کی ہڑتال کے دوران بھی یہ
ہدایت عام طور پر ہوتی ہے کہ میڈیکل سٹورز اور ہسپتالوں کو نہ چھیڑا جائے
نہ بند کرایا جائے تاکہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں طبی امداد دی جا سکے
لیکن جب ڈاکٹرز اور ان سے متعلقہ عملہ نرس پیرامیڈیکس وغیرہ بھی بائیکاٹ
کردیں تو پھر……؟ پھر تو اﷲ ہی حافظ ہے۔
یہ واقعی حقیقت ہے کہ ہمارے کرتا دھرتاؤں نے ملک کے نام نہاد و نااہل لیڈرز
نے عوام کو اتنا زچ کر دیا ہے کہ انہیں بھی اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا
۔ لیکن معاملات و معمولات پھر بھی جوں کے توں ہیں۔کہیں کوئی اصلاح یا فلاح
کی صورت دکھائی و سجھائی نہیں پڑتی دور دور تک کوئی نشان نظر نہیں
آتا۔احتجاج کرنے والا اپنے آپ کو درست سمجھتا ہے اور جس کے خلاف احتجاج کیا
جارہا ہے وہ بھی حاجی ثناء اﷲ ہے ۔کوئی اپنی غلطی ماننے کو تیار نہیں۔اپنے
آپ کو سدھارنے کو تیار نہیں۔شاید اﷲ تعالی نے ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے
کہ ان کیلئے ہدایت کا راستہ بند ہوگیا ہے اب ان سے اچھائی کی امید سوائے
بیوقوفی کے اور کچھ نہیں اسی لئے لگے رہو بھائیو میرے ملک کے معمارو میرے
وطن کے جوانوں میری دھرتی کی ماؤں بہنو اور بیٹیو لگے رہولگے رہو شاید کہ
کوئی تمہاری تقدیر کا سنوارنے والا آجائے! |
|